کمشنر کراچی نے بھی منافع خوروں کے آگے گٹھنے ٹیک دیے

399

کراچی(رپورٹ:منیرعقیل انصاری) کمشنر کراچی نے ڈسٹرکٹ کنزیومر پروٹیکشن کونسل اور سیکرٹری زراعت نے کنزیومر پروفیشنل کونسل کو فعال نہ کر کے کراچی میں رمضان المبارک کے دوران منافع خوروں کو کھلی چھوٹ دیدی ہے۔

شہر بھر میں من مانی قیمتوں پر پھلوں اور سبزیوں اور اشیائے ضروریہ کی فروخت جاری ہے،جس کی وجہ سے مہنگائی کا جن بے قابوہو گیا ہے۔

کمشنر کراچی نے بھی منافع خوروں کے آگے گٹھنے ٹیک دیئے ہیں۔

تفصیلات کے مطابق رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ منافع خوروں میں کورونا وائرس کا خوف ختم ہو گیا اور ہر شہری منافع خوروں کی لوٹ مار کا شکار ہو رہا ہے ۔

کراچی میں رمضان کی آمد سے قبل 50روپے درجن فروخت ہونیوالا کیلا اس وقت100روپے درجن فروخت ہو رہا ہے اسی طرح خربوزہ30روپے اضافی منافع کیساتھ60روپے سے80روپے میں فروخت کیا جا رہا ہے۔

رمضان سے قبل امرد80روپے کلو تھا جو اس وقت مارکیٹ میں200روپے کلو مل رہا ہے جبکہ سیب گولڈن کی فی کلو قیمت 100روپے سے بڑھ کر160تا180روپے کلو تک جا پہنچی ہے ۔25روپے کلو والے تربوز کی قیمت40تا50روپے کلو ہو گئی۔

دوسری جانب سبزی کی مقامی مارکیٹوں میں مہنگائی کا طوفان آگیا ہے رمضان سے قبل40روپے کلو فروخت کی جانیوالی پیاز کی قیمت 70روپے کلو پر جا پہنچی ہے جبکہ آلو کی قیمت 20تا30روپے کے اضافے سے50تا60روپے ہو گئی ۔

120کلو والی ہری مرچیں 250روپے کلو ،200روپے کلو کی قیمت میں فروخت ہونیوالا لیمو400روپے کلو اور 15روپے کلو والا ٹماٹر رمضان میں30تا40روپے کلو فروخت کیا جا رہا ہے۔

شملہ مرچ کی قیمت100روپے کے اضافے سے200روپے کلو ہو گئی ہرا دھنیا کی گڈی6روپے کے اضافے سے10روپے کی ہو گئی۔

اشیائے ضروریہ کی خوردہ مارکیٹ میں بھی قیمتوں کو پر لگ گئے ہیں چنے کی دال کی قیمت120روپے سے بڑھ کر160روپے کلو ،بیسن 140روپے سے بڑھ کر180روپے کلو ،مونگ دال200روپے سے بڑھ کر270تا 300روپے کلو میں فروخت کیا جا رہا ہے۔

گراں فروشی کو روکنے میں متعلقہ ادارے میں ناکام دیکھائی دے رہے ہیں۔

بتایا جاتا ہے کہ کمشنر کراچی افتخار شلوانی نے رمضان کے دوران مصنوعی مہنگائی کو روکنے کیلئے ڈسٹرکٹ کنزیومر پروٹیکشن کونسل کو فعال کیا اور نہ ہی صارفین کی نمائندہ تنظیموں کیساتھ مل کر کوئی حکمت عملی تیار کی جس کی وجہ سے منافع خور بے لگام ہو ئے۔

بتایا جاتا ہے کہ اگر کمشنر کراچی ڈسٹرکٹ کنزیومر پروٹیکشن کونسل(DCPC) کو فعال کر دیتے تو شہر کے 6اضلاع کے ڈپٹی کمشنر ز کو منافع خوروں کے خلاف موثر کارروائی کا اختیار مل جاتا مگر کونسل کے فعال نہ ہونے سے گراں فروشوں کے حوصلے بلند ہوئے ہیں۔

دوسری جانب سیکریٹری زراعت کی غفلت بھی سامنے آئی ہے ۔سیکریٹری زراعت نے 200دن گذر جانے کے باوجود کنزیومر پروفیشنل کونسل کو فعال نہیں کیا جو شہر سمیت صوبے بھر میں مصنوعی منگائی کو فروغ دینے کا سبب بنا ہے۔

اگر سیکرٹری زراعت کنزیومر پروفیشنل کونسل کو رمضان کی آمد سے قبل فعال کر دیتے تو سندھ بھر کے تمام اے ڈیزکو پرائس مجسٹریٹ کا اختیار مل جاتا جس سے گراں فروشوں کو لگا م دیا جا سکتا تھا مگر اداروں کی غفلت نے شہر کے باسیوں کو مناع خوروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔