اسمارٹ لاک ڈائون ناکام تجربہ

447

وقت نے ثابت کیا کہ سردست درپیش بحران میں اسمارٹ لاک ڈائون کی اصطلاح محض ایک تصور اور خیال ہے جس کا پاکستان کی سماجی روایات کے تناظر میں عمل کی دنیا سے کوئی تعلق نہیں۔ لاک ڈائون ہوتا ہے یا نہیں ہوتا اس وقت معاملہ یہ ہے جبکہ وقت نے ثابت کیا کہ اسمارٹ لاک ڈائون نام کی بیچ کی چیز پاکستانی عوام کے مزاج اور عادات کے مطابق قطعی قابل عمل نہیں۔ چیلنج اس قدر حقیقی اور خطرہ اس حد تک خوفناک ہے کہ آدھا تیتر آدھا بٹیر کی اس پالیسی سے مقابلہ ممکن نہیں رہا۔ یکم رمضان المبارک کو اسمارٹ لاک ڈائون کے پہلے ہی دن عوام جس طرح جشن منانے کے انداز میں بازاروں اور شاہراہوں پر نکل کھڑے ہوئے اس نے اس تصور کو بے معنی اور اس پالیسی کو ناکامی کا چلتا پھرتا اشتہار بنا دیا۔ یہاں تک وزیر اعظم عمران خان کے مشیر صحت ڈاکٹر ظفر مرز ا کو کہنا پڑا کہ پہلے روزے کو عوام نے غیر ذمے داری کا مظاہرہ کیا۔
عالمی منظر پر نظر دوڑائیں یا ملکی سرحدوں کے اندر کے حالات کا جائزہ لیں راوی کہیں چین نہیں لکھ رہا۔ ہر طرف خطرات کے سیاہ بادل پوری رفتار کے ساتھ سروں پر منڈلا رہے ہیں۔ روزانہ کے اعداد وشمار پر نظر ڈالیں تو صرف مرنے اور متاثر ہونے والوں کی تعداد کا فرق نظر آتا ہے۔ کتنے لوگ کہاں مرے اور کتنے متاثر ہوئے۔ ایسا نہیں کہ کہیں مرنے والوں کی تعداد بالکل کم یا ختم ہو کر رہ گئی ہو۔ ڈاکٹروں کی ایک فعال تنظیم ’’پیما‘‘ کے صدر ڈاکٹر افتخار احمد کا ایک بیان سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ اسمارٹ لاک ڈائون پاکستان کے ماحول سے مطابقت نہیں رکھتا ہمیں دوہفتے مزید سخت لاک ڈائون کرنا ہوگا۔ حکومت پر تاجر برداری کا دبائو ہے مگر تاجر استقامت سے کام لیں۔ لوگ اسمارٹ لاک ڈائون کی پابندی نہیں کر سکیں گے۔ ڈاکٹر افتخار کا کہنا ہے کہ اس مرض کا حتمی علاج نہیں دوسری طرف اسپتالوں کی گنجائش کم ہو رہی ہے۔ اس وقت ایک سو ڈاکٹرز سمیت طبی عملے کے دوسو افراد بھی متاثر ہو چکے ہیں۔ اس سے چند دن پہلے سندھ کی خواتین ڈاکٹرز نے ایک پریس کانفرنس میں عوام سے ہاتھ جوڑ کر احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی درخواست کی تھی۔
امریکا جیسے ملک میں اس موذی وبا سے مرنے والوں کی تعداد ترپن ہزار تک پہنچ چکی ہے۔ ابھی بھی اپنے بھرپور وسائل کے باوجود امریکا اس بیماری کو کنٹرول یا محدود رکھنے میں ناکام ہے۔ دنیا بھر میں مرنے والوں کی تادم تحریر تعداد دولاکھ آٹھ ہزار چوبیس تک پہنچ چکی ہے اور اس میں ہر لمحے کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔ اس طرح متاثر ہونے والوں کی تعداد انتیس لاکھ ہو گئی ہے۔ جانی نقصان میں امریکا دنیا میں پہلے نمبر پر آچکا ہے۔ پاکستان میں یہ وبا محض کسی دور دیس کا افسانہ یا کسی اور براعظم میں جنم لینے والی کہانی نہیں رہی بلکہ یہ خطرہ پوری طرح ہماری آبادیوں میں داخل ہوچکا ہے اور ہمارے شہر ودیہات میں کسمپرسی میں جنازہ اُٹھنے لگے ہیں۔ جہاں عزیر واقارب کو میت کو اپنے ہاتھوں سے لحد میں اُتارنے کی اجازت تو درکنار قریب کھڑا رہنے کی اجازت نہیں۔ بے بسی اور بے کسی کے یہ مناظر دلوں کو دہلا دینے کا باعث بن رہے ہیں۔
پاکستان میں اس وقت تک دو سو چھپن افراد جان سے گزر چکے ہیں۔ اس فہرست میں کئی نامی گرامی معالج بھی شامل ہیں اور تازہ اضافہ پشاور کے ڈاکٹر جاوید ہیں جو کورونا کے خلاف جہاد کرتے ہوئے اس کی لپیٹ میں آکر جان جانِ آفریں کے سپرد کر گئے۔ ڈاکٹر اس لڑائی کے اگلے مورچے کے سپاہی ہیں۔ وہ اپنے طبی نظام کی صلاحیت کو بخوبی جانتے ہیں۔ اس لیے وہ ہاتھ جوڑ کر عوام سے احتیاط کرنے کی درخواستیں کر رہے ہیں۔ خدا نخواستہ وبا کا یہ جن بے قابو ہوگیا تو ہمارا طبی نظام اس کے مقابلے کی بجائے کلی دیوالیہ ہوجائے گا اور یہ اس معاملے کا سب سے خطرناک پہلو ہے۔ اسی لیے عوام کو سختی سے گھروں کے اندر رہنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں اس بات پر کامل اتفاق ہے کہ وبا ابھی اپنے عروج کو نہیں پہنچی بلکہ تیزی سے بڑھ رہی ہے چونکہ یہاں ٹیسٹنگ کی سہولت پوری طرح موجود نہیں اس لیے متاثرین کی اصل تعداد کا پوری طرح اندازہ نہیں ہورہا۔ ایک طرف یہ خوفناک حقیقت اور تصویر ہے تو دوسری طرف ہماری تاجر برداری کو رمضان المبارک سے ماضی سے وابستہ یادیں حافظے میں زندہ ہو گئی ہیں۔ رمضان المبارک گراں فروشی اور ناجائز منافع کا ایک بڑا ذریعہ رہا ہے۔ اس بار لاک ڈائون اور پابندیوں کے باعث یہ سلسلہ متاثر ہونے کا اندیشہ ہے اس لیے تاجر برادری حکومت پر لاک ڈائون ختم کرنے کے دبائو ڈالے ہوئے ہے۔ ایک طرف تاجروں کی خواہشات ہیں تو دوسری طرف عوام کے غیر ذمے دارانہ رویے ہیں جو خطرے کو خطرہ سمجھ کر اپنے طرزعمل پر نظرثانی کو تیار نہیں۔ معمولی سی چھوٹ ملنے پر عوام رسیاں تڑوا کر بازاروں اور سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ اس صورت حال میں معاملات کو عوام کے عقل ودانش اور تاجروں کی خواہشات پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ ملک وقوم کے وسیع تر مفاد میں حکومت کو چند ہفتوں کے لیے آدھا تیتر آدھا بٹیر والا نظام ختم کرکے مکمل لاک ڈائون کا فیصلہ کرنا ہوگا۔ موجودہ حالات میں پوری قوم مشکلات کا شکار ہے اور کسی ایک طبقے کی مشکلات کو ختم کرنے کے نام پر قوم کو کسی بڑی مشکل کا شکار نہیں کیا جاسکتا۔ حکومت کو کسی تذبذب، تساہل کے بغیر سخت لاک ڈائون کا فیصلہ کرنا ہوگا۔ حکومت نے چند دن اسمارٹ لاک ڈائون کا تجربہ کر کے دیکھ لیا جس کا نتیجہ متاثرین کی تعداد میں غیر معمولی اضافے کی صورت میں برآمد ہوا۔ یہاں تک اس ملک کے معالجین بھی چیخنے پر مجبور ہوئے۔ یہ خوف کی چیخیں نہیں بلکہ نوشتہ ٔ دیوار پڑھ کر پیدا ہونے والے خدشات ہیں۔