مغرب زدہ اخلاقی قدروں کا علمی تجزیہ

470

وقاص احمد
انسانی تاریخ اس بات سے انکار نہیں کر سکتی کہ مابعدالطبیعاتی یا غیبی امور و رموز اور اسی طرح معاشرے میں نظم و ضبط کے لیے ضروری اخلاقی اصولوں پر بحث و گفتگو فلاسفہ نے کی یا پھر تاریخ میں درج ان سیکڑوں لوگوں نے جنہوں نے اپنے آپ کو انسان و کائنات کے بنانے اور اسے چلانے والے کا خاص نمائندہ کہا۔ آسان الفاظ میں انہوں نے اپنے آپ کو ربّ کائنات کا نبی و رسول (علیہ السلام) کہا۔ سقراط سے بھی اگر اس تاریخی و علمی سفر کا آغاز کیا جائے تو آج کے زمانے تک ہمیں دنیا کے تمام بڑے فلاسفہ کے فلسفے نقدو نظر کے ساتھ مل جائیں گے اور انہی کے درمیان ہمیں سیدنا زکریاؑ، سیدنا یحییٰؑ، سیدنا عیسیٰؑ اور سیدنا محمدؐ بن عبداللہ کی تعلیمات و پیغامات اور اس کو پھیلانے کی عظیم جدوجہد بھی مل جائے گی۔ ان سب لوگوں کے مشن کی وسعت و بلندی ، اپنے کام سے لگن و محبت، جدوجہد کا طریقہ کار، وسائل و حالات اور ان کی پکار پر لبیک کہنے والے ساتھیوں کے حالات واقعات اور ان کی جدوجہد و مساعی کے نتائج، سب مستند کتابوں میں دستیاب ہیں۔ فلسفیوں نے اپنی اپنی محنت، ہمت، لگن و جستجو، اپنے نظریات پر یقین اور ساتھ میں قسمت کے حساب سے اپنے پیچھے اپنی زندگیاں، اپنی تعلیمات اور شاگردوں کی جماعت ورثے میں چھوڑی اور اسی طرح انبیاء کرامؑ نے بھی۔ اخلاق اور غیبی علوم کے حوالے سے ان دونوں طبقات کی شخصیات کی زندگیوں کا بغور تجزیہ بہت اہم ہے۔
موجودہ زمانے میں ٹیکنالوجی نے جہاں ایک طرف تو فاصلاتی رابطے اور کاروبار یعنی گلوبلائزیشن کو نہایت آسان اور سہل کردیا وہیں دوسری طرف نظریات کی جنگ بھی کھل کر سامنے آگئی ہے اور یہ تصادم اب شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔ سائنسدان بھی جن کی سائنس کا اخلاق اور مابعدالطبیعات سے کوئی سروکار نہیں، اب معاشرتی اقدار اور اخلاقیات کے معاملے میں کود پڑے ہیں۔ سیکولرزم اور سائنٹزم پر مبنی نظریات جو مادہ پرستی ہی کی خوشنما اور پرکشش شاخیں ہیں براہِ راست نبیوں اور ان کے ولیوں کی تعلیمات حتیٰ کہ بعض مشرقی اور یورپی فلسفیوں اور حکما کی تعلیمات سے بھی ٹکرا رہی ہیں۔ فلسفی اور ان کے ساتھ سائنسدان حضرات بھی بعض وجوہات کی بنا پر بجا طور پر کہتے ہیں کہ آج معاشرے کو اتنی سہولت اور آزادی، سائنس اور علم کے دشمنوں یعنی قرون وسطیٰ کے عیسائی اور یہودی علماء سے جان چھڑا کر ہی ملی ہے۔ وہ یہ بھی ٹھیک کہتے ہیں کہ کیسے ان لوگوں کے پیچھے چلا جائے، انہیں اپنا امام مانا جائے جن کی کتابوں میں سائنٹفک غلطیوں کی بھرمار ہے۔ سچ ہے کہ عیسائی اور یہودی علماء کو کتابوں میں تحریفات اور پھر جدید علوم کے خلاف بادشاہ سے مل کر سائنسدانوں اور اہل علم طبقات پر ظلم کی بہت بڑی قیمت چکانا پڑی۔ لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں تھا کہ ان کی کتابوں میں موجود سب اخلاقی و معاشرتی تعلیمات ہی تحریف شدہ اور معاذاللہ ناقابل یقین و عمل ہیں۔ مگر ہوا یہ کہ سائنسدانوں نے پادریوں کی تعلیمات میں پائے جانے والی سائنسی موشگافیوں کو جیسے جیسے واضح کیا ویسے ویسے ان کتابوں میں موجود اخلاقی تعلیمات کو نظرانداز کر کے نیا بیانیہ پھیلایا جانے لگا اور اس کام کا بیڑا اکثر فلسفیوں نے اٹھایا۔ لیکن انتہائی غور طلب بات یہ ہے کہ یورپ اور امریکا میں ان فلسفیوں اور سائنسدانوں کی کامیابیوں کی وجہ ان لوگوں کی جبری روایات سے شکوہ و نفرت، ان میں سے اکثر کی دین اور وحی بیزار سوچ و نظریات تو تھے ہی، ساتھ میں ان کی نصرت و تائید دنیا اور دولت پرست ذہین و فطین سرمایہ داروں، فیکٹری مالکان، زیرک اور چالاک کاروباری حضرات اور پریس نے بھی کی جنہیں آج ہم پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کہتے ہیں۔ ان تمام گٹھ جوڑوں کی وجہ ہی سے یہ جنگ یک طرفہ ثابت ہورہی ہے۔ انبیاؑ کی اخلاقی تعلیمات دنیا بھر میں مدھم سے مدھم ہوتی جارہی ہیں اور بس مسلم معاشرے ہی ہیں جہاں مزاحمت جاری ہے۔
آپ کو معلوم ہے کہ سیموئیل ہن ٹنگٹن نے کیوں مسلم معاشروں کو نئی عالمی تہذیب (جس نے سیکولر، لبرل، سائنٹفک، کیپٹلسٹ نظریات سے جنم لیا) کے لیے لوہے کا چنا کہا تھا؟ وہ اس لیے کہ شاید وہ جانتا ہو کہ جو مسائل قرونِ وسطیٰ میں یورپی مذاہب کو نئے علوم کے ظہور سے ہوئے اور جو مسائل یورپی سائنسدانوں کو عیسائی اور یہودی علماء سے ہوئے اس کے مقابلے میں اسلام تو نہایت علم دوست اور ترقی پسند واقع ہوا۔ جزیرہ نمائے عرب میں اسلامی انقلاب کے بعد کے پہلے آٹھ نو سو سال کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں۔ اسلام نے دنیا کو سائنس سے لیکر عمرانی علوم تک اور تاریخ و علم الکلام سے لیکر حکومتی امور چلانے تک کیا کچھ سکھایا سب معلوم ہوجائے گا۔ دنیا اس کا اعتراف کرتی ہے۔ ہن ٹنگٹن نے شاید اسلامی معاشرے کو فتح کرنا اس لیے مشکل گردانا کیونکہ وہ شاید جانتا ہوکہ رسول اللہؐ کو دنیا سے پردہ فرمائے صرف تقریباً سوا 14سو سال ہی ہوئے ہیں اور ان کی سیرت اور حالات زندگی جس ماہرانہ علمی طریقے سے محفوظ کی گئی ہے اور ان کی لائی ہوئی کتا ب جو آج تک ہر قسم کی تحریف سے محفوظ ہے خود اپنی جگہ ایک عظیم الشان معجزہ ہے۔ پھر قرآن میں ہزاروں آیات براہ راست سائنسی موضوعات پر بات کرتی ہیں جو آج تک کی مصدقہ اور متفقہ سائنسی اصول اور قوانین کی تائیدو حمایت کرتی ہیں۔ قرآن کا اسلوب، اس کی مابعد الطبیعاتی حقائق پر محکم انداز میں گفتگو اور انسانی نفسیات سے کلام کرتی آیات جس طرح انسان کے سوچ و قلب پر اپنا اثر ڈالتی ہیں وہ ایک الگ ہی موضوع ہے۔ غیب سے متعلق انسان کے تمام سوالوں کا جواب دینے والی، اس کے ذہن کو امن میں لانے والی اور اس کی فطرت سلیم کو چھو جانے والی یہ کتاب اور اس کتاب کو دنیا تک پہنچانے والے عظیم شخص رسول اکرم سیدنا محمدؐ کی عقل کو خیرہ اور عاجز کر دینے والی سیرت اور انقلابی جدوجہد اتنی زبردست قوت سے عالم انسانی کو متاثر کرتی ہے کہ اس کا مقابلہ صرف جھوٹ پر مبنی اسلاموفوبیا، نفس امارہ کو مرغوب نظریات، باطل فلسفوں کی مارکیٹنگ اور اس کی ترویج و ابلاغ پر پیسہ پانی کی طرح بہا کر ہی کیا جاسکتا ہے۔
نئی تہذیب کی اخلاق قدروں کا محور صرف اور صرف انسانی آزادی کا وہ تصور ہے جس نے غلطیوں، نفسیاتی اور جذباتی میلانات سے بھرپور آسمانی ہدایت سے بیزار فلسفوں اور نظریات سے وجود پایا ہے۔ اس کے باوجود ایک بات ماننی پڑے گی۔ وہ یہ کہ جب یہ مغربی معاشرے کسی قانون خاص طور پر معاشرے کے جان و مال حوالے سے کوئی خرابی دیکھتے ہیں تو فوراً کچھ نہ کچھ اصلاح کر لیتے ہیں۔
شراب پینا تمام ہی مذاہب میں حرام ہے۔ عقل پرستوں نے کہا یہ تو انسانی آزادی کے خلاف ہے سو شراب کی کھلی آزادی دی گئی بعد میں جب شراب کی وجہ سے خاندان کے اندر عورتوں پر تشدد بڑھا، مردوں کی نفسیاتی اور جسمانی صحت تیزی سے خراب ہونے لگی تو ایک تحریک نے جنم لیا جس کی وجہ سے 1920 سے لیکر 1933 امریکا میں شراب کی سخت قانونی پابندی رہی۔ لیکن ملاحظہ فرمائیںکہ 1933 میں صرف اس وجہ سے کہ کاشت کاروں کا نقصان ہورہا ہے، شراب بنانے کی صنعت بند ہونے سے سرمایہ کاری نہیں ہورہی، بے روزگاری بڑھ رہی ہے اور معاشی ڈیپریشن کے دور میں امریکی حکومت کو ٹیکس کی ضرورت ہے، شراب سے پابندی اٹھا لی گئی۔ غور کیا آپ نے! سرمایہ داروں اور بزنس مینوں کا کمال!۔ عورت پر ظلم، صحت کے مسائل کہاں غائب ہوئے کسی کو پتا چلا آج بھی امریکا میں گھریلو تشدد عروج پر ہے اور شراب نوشی اس کی بڑی وجہ ہے۔ اس کے علاوہ امریکا میں 2018 میں جو چھتیس ہزار لوگ ٹریفک حادثات میں ہلاک ہوئے ان میں سے تقریباً گیارہ ہزار وہ لوگ تھے جن کو نشے میں چور ڈرائیوروں نے مارا۔ سگریٹ نوشی کی انڈسٹری کی بھی یہی داستان ہے۔ بعض یورپی ملکوں میں تو سگریٹ کی کمپنیوں نے اس حد تک اخلاقی گراوٹ کا مظاہرہ کیا کہ انہوں نے حکومت کو یہ پیشکش کردی کہ سگریٹ پر ٹیکس بڑھانے یا اس پر پابندی لگانے سے لوگوں کی مدت عمر بڑھ جائے گی اور سوشل سیکورٹی اور علاج معالجے میں ان پر زیادہ پیسہ خرچ ہوگا۔ جبکہ تمباکو نوشی کی آزادی سے حکومت کو ایک تیر سے دو شکار مل جائیں گے۔
کیا اب اوپر بتائی گئی مثالوں کے بعد بھی راقم کو بتانا پڑے گا کہ عورتوں کی آزادی کے نام پر انہیں بغیر کسی مجبوری گھر سے باہر نکالنے، ان کے لباس کو کم سے کم کرنے، ان کو اسٹیج، ڈراموں، فلموں کی رونق بنانے، نائٹ کلبوں کی شمع بنانے کے بعد زنا بالرضا کو قانونی تحفظ دینے میں سرمایہ داروں، کاروباریوں، صنعت کاروں، تاجروں اور پریس اور میڈیا مالکان کی کیا کیا منصوبہ بندیاں اور چالاکیاں پوشیدہ ہیں۔ یہی چالاکیاں جن کو دور جدید کی اخلاقی ترقی کہا جاتا ہے اصلاً نفسانی خواہشات، مرغوبات، دولت اور پیسے کی ہوس کے گرد گھوم رہی ہے۔ کارپوریٹ کلچر میں بہت سی اخلاقی قدروں اور روایات کو نفع نقصان کے دور رس نتائج کے اندازوں اور پیمانوں ہی سے دیکھا جاتا ہے اور ساتھ میں حق کے خلاف علمی مقابلے کے لیے اخلاق اور انسانی حقوق کے دجالی مفاہیم و مطالب کی پرزور تبلیغ کی جاتی ہے۔ تبھی کسی چیز کے بے انتہا مضر ہونے کی مصدقہ اعداو و شمار ملنے کے بعد بھی بہت مشکل ہی سے پبلک مقامات پر سگریٹ نوشی پر پابندی لگائی جاتی ہے، برسوں سے ہزاروں لوگوں کے مرنے کے بعد ہی شراب نوشی کے خلاف نہیں بلکہ صرف شراب کے نشے میں ڈرائیونگ کرنے کے خلاف قانون بنایا جاتا ہے۔ سائنس سے اگر پتا چل جائے کہ پلاسٹک کی تھیلیاں خطرناک ہیں تو پابندی لگادی جاتی ہے۔ لیکن جب امریکا کے محکمہ انصاف اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے پیش کردہ اعداو و شمار عورتوں، بچوں، خاندانوں سے متعلق دل دہلا دینے والے حقائق چیخ چیخ کربیان کر رہے ہوں تو مجال ہے مفاد پرست ٹولہ و اشرافیہ آزادی نسواں اور آزاد جنسی تعلق کے حوالے سے پریشان ہو۔ یا موجودہ ماحول اور قوانین پر دو بارہ سوچ و بچار اور نظر ثانی پر کسی کو غور بھی کرنے دے۔ عقل و شعور کو دیوانہ بنادینے والی مارکیٹنگ، انٹر ٹینمنٹ اور میڈیا کے سامنے اس توتی کی آواز کون سنے گا۔
اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان رکھنے والے دائیں سے لیکر بائیں، تمام سوچوں کے حامل لوگوں سے گزارش سے کہ وہ یورپ کے دور تنویر (Enlightenment Era) کا انطباق اور موازنہ مسلم معاشروں اور خاص کر پاکستان میں کرنے کی بالکل کوشش نہ کریں۔ نئی تہذیب کی اخلاقی قدروں کی باطل اساسات کو پہچانیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلم معاشروں میں آج بہت سارے اخلاقی اور سماجی مسائل ہیں لیکن ان مسائل کا حل یورپی اور امریکی اقوام کی عقل پرست، ملحدانہ، مادہ پرستانہ، سرمایہ دارانہ سوچ اور سیکولر علم سے جنم لینے والی نئی تہذیب اور اخلاقی قدروں میں نہیں بلکہ ماضی بعید کے مسلم معاشروں کی شاندار و عظیم زمانے میں ملے گا جس کا منبع اور سرچشمہ قرآن ِ حکیم اور سیرت و سنت رسولؐ تھا۔