سیدہ صفیہ ذیشان، لندن
ہمارے ملک (پاکستان) کا بھی الگ دستور ہے۔ یوں تو پاکستان ہماری ماں ہے اور ہر ماں کو اپنے سارے ہی بچوں سے بہت محبت ہوتی ہے مگر ان سب میں اس بچے سے تھوڑی زیادہ محبت ہوتی ہے جو ماں کا خیال رکھتا ہے اور وقت پڑنے پر اس کے ساتھ رہتا ہے مگر دوسری مائوں کی طرح اس ماں کا دستور تھوڑا الگ ہے۔ یوں تو کراچی، اسلام آباد، لاہور، حیدرآباد اور دوسرے تمام شہر اس ملک ہی کا حصہ ہیں مگر کراچی کو پاکستان کا دل اور معاشی انجن کہا جاتا ہے۔ اس کے باوجود اس کی حالت یتیم کی سی ہے۔ جہاں کے عوام شروع دن ہی سے ہر چیز کے ہوتے ہوئے بھی ہر چیز کو ترستے رہے ہیں۔ یہاں کے عوام کا بھی کیا ہی کہنا۔۔ یہ بھی دو طرح کے ہیں۔ ایک وہ جن کا تعلق سیاسی پارٹیوں سے ہوتا ہے۔ جن کا خیال رکھنے کا ذمہ سیاسی پارٹی کے لیڈر خود لیتے ہیں۔ ان لوگوں سے سیاستدان صرف اپنے کام ہی کرواتے ہیں۔ مثلاً الیکشن سے پہلے لوگوں کو گھروں سے نکال نکال کر جلسوں میں لانا تاکہ ان کے جلسے کامیاب ہو جائیں اور ان کو ووٹ ملیں، اگر آرام سے ملے تو ٹھیک نہیں تو ان کو تھوڑے پیسے دے دیں گے اگر نہ بھی ملے تو ان کے چیلے جعلی ووٹ تو ڈالوا ہی دیں گے اور کچھ عوام وہ ہیں جن کا کسی سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں۔ ان کو بس دو وقت کی روٹی اور رہنے کو سر پر چھت چاہیے۔ آج کے اس مشکل دور میں بھی جہاں کورونا کی وجہ سے سب کو اپنی ہی زندگی اور معاشی حالات کی پڑی ہے مگر نہیں پڑی تو کراچی کے عوام کی نہیں پڑی۔
کراچی کے وہ لوگ جو روز مرہ کے حساب سے کماتے ہیں بہت پریشان ہیں۔ جو سب کچھ بند ہوجانے کے بعد اپنے گھروں میں زند گی کی جنگ لڑ رہے ہیں کہنے کو تو ہر کوئی مدد کے لیے تیار گھر کے باہر کھڑا مگر صرف زبانی عملی نہیں۔ یہاں میں واضح کردوں کہ میرا اشارہ حکومت اور دوسرے امیر ملکوں کی طرف ہے جو کہنے کو تو کروڑوں اور اربوں کی امداد کی بات کر رہے ہیں مگر دینے کو کچھ بھی نہیں سب زبانی جمع خرچ ہے اس چھوٹے بچے کی طرح جو امتحان میں فیل ہو جانے کے بعد اپنے ابو کی تعریف کرتا ہے تاکہ جوتے نہ پڑیں۔ اسی طرح کی ہزاروں باتیں جو آج کل ہمارے وزیراعظم کررہے ہیں۔ Tiger force اور حکومتی امداد کا اعلان جو سننے میں تو بہت خوشی دیتا ہے جیسے بارش کے بعد قوس و قزح کا منظر مگر عملی طور پر تو صرف دور سے ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ کراچی کے غریب عوام کی حالت بھی کچھ یہی ہے حکومت کی طرف سے بڑے بڑے امداد کے دعوے تو کیے جارہے ہیں مگر اصلی منظر اس کے برعکس ہے۔ کراچی کے غریب عوام اب اپنے گھروں میں دم توڑ رہے ہیں۔ کورونا سے نہیں بھوک سے۔
وقت گواہ ہے کہ ملک میں جب جب معیشت کی ترقی کی بات آتی ہے تو کراچی ہی کے عوام کام آتے ہیں۔ ملک کی معیشت کا اچھا خاصہ حصہ یہیں سے ملتا ہے مگر اْف میرے مالک جب دینے کی بات آتی ہے تو کراچی اور اس کے عوام صرف دور سے ہی اپنی باری کے انتظار میں رہ جاتے ہیں کیونکہ جس کی سرکار اس ہی کا راج یعنی جس شہر کے سیاستدان حکومت میں ہوںگے وہیں کے عوام سکھی رہیں گے۔ کچھ سال پہلے جب پی پی پی کی حکومت آئی تو تھوڑی خوشی محسوس ہوئی لگا شاید اب کراچی کی قسمت جاگے گی مگر ہائے یہ دنیا اور ہماری قسمت ہم بھول ہی گئے تھے کہ سندھ میں کراچی کا وہی حال ہے جو UNO میں کشمیر کا جس کو اہم مسئلہ بنا کر کانفرنسیں تو بہت بار ہوئیں مگر فیصلہ ہمیشہ کشمیریوں کے خلاف ہی ہوتا ہے یا ہوتا ہی نہیں لہٰذا پی پی پی تو سندھ کی جماعت ہے اور کراچی بیچارہ لاورث۔ اب نواز شریف سے کیا گلہ کریں وہ ٹھیرے پردیسی شہر کے مالک وہیں کا سوچھیں گے۔
پھر حکومت میں آئے آپ کے اور ہمارے ہر دل عزیز عمران خان۔ سب کی جان۔ مگر افسوس کراچی کا دورہ کرنے ہی سے ان کو دورے پڑتے ہیں اور نہ کرنے سے عوام کو دورے پڑتے ہیں اب اس مشکل وقت میں غریب عوام کا کون ہے۔ اس لاک ڈاؤن میں بھی ہر دکان دار اپنی مرضی سے چیزوں کے دام لگا رہا ہے کیونکہ ان کو پوچھنے والاکوئی نہیں ہے اس دور میں جہاں پوری دنیا کی حکومتیں اپنے عوام کو ریلیف دے رہی ہیں وہیں ہمارے ملک میں ہر چیز کی قیمت میں اضافہ کیا جارہا ہے دکاندار اپنی مرضی سے آٹے کی فی کلو قیمت 50 روپے سے 60روپے، مونگ کی دال 225 سے 250 روپے فی کلو، مسور کی دال 150سے 160 روپے فی کلو کردی گئی ہیں یہی حال ہر ضروری شے کا ہے۔ حکومت کے منع کرنے کے باوجود کوئی پروا نہیں ہے نہ پہلے کوئی پوچھنے والا تھا اور نہ ہی کوئی اب پوچھنے والا ہے، حکومت ایسے دکانداروں کو دھمکیاں تو دے رہی ہے مگر کوئی ایکشن نہیں لے رہی۔ قیمت چیک کرنے کے لیے حکومت کو کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں یہ کراچی کے بڑے اور نامور جنرل اسٹور کی بڑھائی ہوئی قیمتیں ہیں جن کو با آسانی چیک کیا جا سکتا ہے اور اس سے وابستہ لوگوں کو پکڑا جا سکتا ہے۔
صنعتی شعبے میں دیکھیں تو کارخانوں میں کام کرنے والے غریب مزدوروں کو پچھلے دو مہینوں سے تنخواہ نہیں ملی کیونکہ کارخانے ہی بند پڑے ہیں اور مالکوں کا یہ کہنا ہے کہ وہ خود نقصان اٹھا رہے ہیں تو مزدوروں کو کیا تنخواہ دیں۔ یہاں بھی حکومت بے بس ہے یا بے پروا اس کا فیصلہ آپ خود کریں۔ اسکولوں کی بات کی جائے تو حکومت کے مطابق تمام پرائیوٹ اسکول فیسوں کا 20 فی صد حصہ معاف کریں گے کیونکہ شہر لاک ڈاؤن میں ہے یہ فیصلہ سنتے ہی پرائیوٹ اسکولوں نے میڈیا پر آکر فوراً اس کی حامی بھرلی مگر حقیقت اس سے بالکل الگ ہے فیسوں میں کوئی کمی نہیں کی جارہی کیونکہ اسکول انتظامیہ کے مطابق ان کو ٹیچرز اور اسکول انتظامیہ کو بھی تنخواہ دینی ہیں۔ یہاں بھی حکومت کی طرف سے کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ عمران خان صاحب کا تعلق تو خیبر پختون خوا سے ہے افسوس تو اس بات کا ہے کہ یہ سب کارخانے والے، اسکول والے اور اسٹور والوں کا تعلق تو کراچی سے ہے وہ کہتے ہیں ناں کہ۔۔ اپنے ہی گراتے ہیں نشیمن پہ بجلیاں۔۔۔ حد تو یہ ہے کہ کراچی کے کچھ نامی گرامی اسپتال والے ڈاکٹروں کی فیس کا آدھا حصہ یہ کہہ کر نہیں دے رہے کہ اس پورے عرصے میں مریض کم آئے ہیں اور ان کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ وہ ڈاکٹروں اور انتظامیہ کو ان کی پوری تنخواہ دے سکیں یہ سب اگر حکومت چاہے تو باآسانی نوٹس میں لا سکتی ہے مگر سارا مسئلہ دلچسپی کا ہے حکومت کو کوئی دلچسپی ہی نہیں کراچی کے مسائل اور ان کے حل میں۔
خیر اب کراچی میں کچھ اچھے لوگ بھی ہیں جو دین اور دنیا دونوں کے کام آرہے ہیں۔ بہت سی تنظیمیں کراچی میں ہیں جو لوگوں کی فلاح وبہبود کے لیے ہر وقت تیار رہتی ہیں۔ اس دور میں بھی ان لوگوں نے ٹھان لیا ہے۔ کراچی کو زندہ رکھنے کا ورنہ تو ہمارے ملک کے سیاستدان سوائے ایک دوسرے پر الزام لگانے کے اور کچھ نہیں کر سکتے۔ یہ تنظیمیں دن رات راشن جمع کرکے ان کے پیکٹ بنا کر اور ساتھ ہی لاک ڈاؤن کا خیال رکھتے ہوئے صبح چار بجے سے صبح اٹھ بجے تک غریب لوگوں کے گھر گھر جا کر راشن تقسیم کرتے ہیں۔ ان کے اس عظیم کام میں اور بھی لوگ مدد کررہے ہیں کچھ پیسوں سے تو کچھ لوگ رضاکار کے طور پر کام کررہے ہیں۔ لوگ بھی دل کھول کر عطیات دے رہے ہیں اللہ ان کے ان اعمال کو قبول فرمائے۔ وہیں دوسری طرف وزیر اعلیٰ سندھ اور وزیراعظم ایک دوسرے پر الزام لگا رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ نے ایک بہت اچھی بات کی ہیکہ ’’معیشت، کھیتی باڑی اور مالی نقصان تو بحال کیا جاسکتا ہے مگر انسانی جانوں کے نقصان کا کوئی نعم البدل نہیں‘‘۔ مگر اب تک اس بات کو خود سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اب تو نوبت یہ ہے کہ غیر سیاسی تنظیمیں جو عوام کی فلاح وبہبود کے لیے محنت کر رہی ہیں ان کو بھی اس کام سے روکا جارہا ہے اور ڈرایا جارہا ہے کہ وہ پہلے کسی سیاسی پارٹی میں شمولیت کا اعلان کریں اور پھر کام کریں۔ اس مشکل وقت میں جہاں ہر ملک کے سیاستدان اور وہاں کی تنظیمیں ایک ہوکر لوگوں کا خیال رکھ رہے ہیں وہیں ہمارے سیاستدان اس میں بھی اپنا الگ ہی نام بنانے کی کوشش میں ہیں۔ میری درخواست ہے کہ رحم کریں اور آج کے اس کورونا دور میں ایک ہو کر کراچی کے عوام کا سوچیں جو ہمیشہ پورے ملک کے لوگوں کو اپنے دل میں بسا کر رکھتے ہیں۔ چاہے وہ کسی بھی شہر، مذہب اور فرقے کا ہو۔
تیری بے رخی میں بھی جانان
میری بے بسی کا سایہ ہے
میں تو ایسے ویران ہوا ہوں جیسے
یہ شہر میرا نہیں پرایا ہے