پاکستان کے پرچم کی توہین پر حکومت نے دس دن تک باب دوستی بند رکھا۔ یہاں تک کہ معافی نہ مانگ لی گئی اور تیسری نامعلوم قوت پر الزام نہیں دھر دیا گیا۔ کراچی میں متحدہ کے قائد نے پاکستان کو برا بھلا کہا تو اس شخص کا نام و نشان تک مٹانے کا مشن شروع ہوگیا۔ اس کی تصاویر پھاڑ دی گئیں۔ پاکستان میں موجود اس کی پارٹی کے ارکان پارلیمنٹ نے لندن سیکرٹریٹ سے لاتعلقی کا اعلان کردیا اور یہ سب کچھ ایک ہی جگہ سے کنٹرول ہوتا رہا۔ یہاں تک کہ پورا پاکستان الطاف حسین کو غدار کہنے لگا۔ اور کئی پارٹیوں نے متحدہ پر پابندی کے مطالبات بھی کرڈالے۔ اگر پابندی نہیں بھی لگی تو متحدہ میں سے الطاف کا صفایا کردیا گیا ہے۔ کیوں ۔۔۔؟؟ اس لیے کہ الطاف نے پاکستان کو برا بھلا کہا تھا۔ صرف کہا تھا۔ لیکن پاکستان کو برا بھلا کہنے ، پاکستان توڑنے والے ، پاکستان توڑنے والوں کی سرپرستی کرنے والے اور غدار پاکستان شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی نے پاکستان سے محبت کے جرم میں مسلسل پھانسیوں کی لائن لگا رکھی ہے۔ اس پر کسی جانب سے چوں کی آواز بھی نہیں آرہی۔ متحدہ کے قائد کی تقریر پر کہاں سے اشارہ ملا کہ چوہوں سے بھی زیادہ خوفزدہ میڈیا ، شیروں سے بھی زیادہ بہادر ہوگیا ۔ صبح شام دن رات الطاف غدار غدار کی رٹ لگا رکھی تھی۔ لیکن جس شخص نے پاکستان توڑا، اس کی بیٹی نے گزشتہ تین چار برس سے شدید ظالمانہ رویہ اختیار کررکھا ہے۔ اس کی انتقام کی آگ بجھ نہیں رہی ہے اسے کوئی روک ٹوک بھی نہیں ہے۔ دنیا نے سوائے افسوس کے بیانات کے کچھ نہیں کیا وہ بھی پھانسیوں کے بعد۔ ہم پاکستانی حکمرانوں کو روتے رہے انہوں نے پہلی پھانسی پر جو رویہ اختیار کیا وہ حسینہ واجد کو شہ دینے کے لیے کافی تھاکہ یہ بنگلا دیش کا اندرونی معاملہ ہے۔ ہفتے کے روز پاکستان پر چھٹا جاں نثار اپنی جاں قربان کرگیا۔ اب تک بنگلا دیش میں جماعت اسلامی کے 6رہنماؤں کو پھانسی دی جاچکی ہے۔ دنیا کے دوسرے ممالک کو تو کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا کہ ان کا اس معاملے سے براہ راست کوئی تعلق بھی نہیں لیکن پاکستان،بھارت اوربنگلا دیش اس سارے معاملے کے فریق ہیں ۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی گزشتہ برس بنگلا دیش جا کر یہ اعلان کر چکے ہیں کہ پاکستان ہم نے توڑا، مکتی باہنی نے ہم نے بنائی۔ میں خود مکتی باہنی کا سرپرست ہوں ۔ حسینہ واجد کو کون نہیں جانتا ایک ملک کے وزیر اعظم کے اس اعتراف کے بعد تو پاکستان کو عالمی اداروں کے سامنے یہ ثبوت پیش کرنے چاہیے تھے کہ ہم ان ہی سطور میں پہلے بھی بار بار توجہ دلا چکے ہیں کہ حسینہ واجد کے قدم اس وقت رکیں گے جب اس کے خلاف پاکستان توڑنے کا مقدمہ درج کرایا جائے گا ۔ حسینہ واجد اس کے باپ شیخ مجیب اس کے تمام سہولت کاروں کو عدالت میں طلب کیا جائے۔ اگر بین الاقوامی سطح پر کوئی مقدمہ نہیں درج کراسکتے۔ جس کا کوئی امکان بھی نہیں تو پاکستان میں ہی ایک ٹریبونل بنایا جائے جس میں ان پھانسیوں کو بھی قتل قرار دے کر ان کا مقدمہ بھی بنایا جائے اور پاکستان توڑنے والوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف مقدمہ چلایا جائے۔ اگر یہ لوگ حاضر نہ ہوں تو بھی اس مقدمے کی کارروائی کھلی رکھی جائے۔ اور ساری دنیا کو اس کی خبر کی جائے۔ ہم ایک بار پھر یہ توجہ دلاتے ہیں کہ الطاف حسین نے نہایت غلط زبان استعمال کی۔ نہایت غیر اخلاقی تقریرکرتا ہے لیکن وہ تو اب تک جو کچھ کررہا ہے وہ کہنے تک محدود تھا را سے مدد طلب کرنا غلط۔ لیکن جس را نے ملک توڑ دیا اس کی پروردہ حسینہ واجد کے حوالے سے سیاسی و عسکری قیادت کی زبانیں کیوں خاموش ہیں ۔ ہم یہ انتباہ بھی دے چکے ہیں کہ بنگلا دیشی حکومت کے قدم رکیں گے نہیں ۔ آنے والے دنوں میں وہ ’’ اصل مجرموں ‘‘ کے خلاف کارروائی کریں گے اب تک جتنے بھی لوگ پھانسی چڑھائے گئے ہیں انہیں سہولت کار ہی تو کہا گیا ہے۔ یہ بات ہمارے سیاستدان، حکمران اور فوجی سربراہ سب جانتے ہیں کہ سہولت کار سے زیادہ سزا اصل مجرم کو ملتی ہے۔ بنگلا دیش اور بھارت کس کو اصل مجرم قرار دیتے ہیں ۔ یہ بات بھی ڈھکی چھپی نہیں ۔ پاکستان میں تو محض وسائل کی منصفانہ تقسیم کے مطالبے پر بلوچوں کو غدار قرار دیا جاتا ہے۔ پختونوں کو طالبان سے ملایا جاتا ہے ۔ اب متحدہ مل گئی ہے جس کے نام پر پورے کراچی کو تباہ کیا جارہا ہے اور یہاں ساری قوت بھی صرف کی جاتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ جن طاقتوں کو پاکستانی جنرل راحیل نے للکارا تھا کہ مودی ہو ، را ہو یا کوئی اور ہم دشمن کی سازشوں کو سمجھ چکے ہیں ۔ اس کے اگلے دن مردان میں دھماکا ہوگیا۔ ایک پیغام جنرل صاحب نے دیا اگلے دن دہشت گردوں نے پیغام دے دیا۔ پاکستانی قوم ویسے بھی بنگلا دیش میں پھانسیوں کے سارے عمل سے زیاد ہ واقف نہیں ہے۔ بس انہیں یہ پتا چل جاتا ہے کہ کسی کو پھر پاکستان سے تعلق کی وجہ سے پاکستان کی محبت پر پھانسی دے دی گئی ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں ۔ اسے پاکستانی حکمران صرف جماعت اسلامی کا مسئلہ سمجھ رہے ہیں یا قرار دے کر آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں اور پاکستانی میڈیا کو یوں بھی بائیکاٹ یا وائٹ واش کرنا تھا ۔باقی کسر عمران خان اور قادری کے دھرنوں اور جلسوں نے پوری کردی ۔ پورا میڈیا عین اس وقت ان کی تقریریں ، جلسے، ریلیاں دکھا رہا تھا جب میر قاسم کو پھانسی دی گئی۔ کسی ٹی وی چینل پر بریکنگ نیوز نہیں تھی۔ اگر بریکنگ نیوز تھی تو یہ تھی کہ شیخ رشید نے دایاں پاؤں اسٹیج پر رکھ دیا۔ عمران خان چیئرنگ کراس پہنچ گئے ۔ طاہر القادری کرسی پر بیٹھ گئے۔ اس نومولود نابالغ الیکٹرانک میڈیا کے لیے یہی بریکنگ نیوز ہے۔ اسے ہم سازش تو نہیں کہہ سکتے کہ پھانسی اور یہ ریلیاں ایک ہی دن کیوں ہوئیں لیکن میڈیا کو تو توجہ دلا سکتے ہیں کہ اس تماشے کے علاوہ دنیا میں اور بھی خبریں ہیں ۔