آپریشن جبرالٹر: ۶۵ کی جنگ اور ملک کا دو لخت ہونا ’’قیمتی اور نایاب تحفہ‘‘

205

حقیقت میں اب کوئی شک و شبہ نہیں کہ ۵ اگست ۶۵ کو شروع ہونے والا آپریشن جبرالٹر ، ۶۵ کی جنگ کا پیش خیمہ تھا، بلکہ جنگ کا سبب بنا تھا۔ آپریشن جبرالٹر بھی عجیب و غریب آپریشن تھا۔ فیصلہ صدر ایوب خان کا نہیں تھا بلکہ وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے معتمد عزیز احمد نے ، رن آف کچھ کے معرکہ میں پاکستان کی جیت کے بعد کشمیر کی آزادی کے لیے آپریشن جبرالٹر کا ایسا جال بچھایا کہ ایوب خان بے دست و پا رہ گئے ۔ ایوب خان اس آپریشن کے حق میں نہیں تھے اور اس زمانہ کے چیف آف اسٹاف جنرل موسیٰ بھی اس نوعیت کے آپریشن کے خلاف تھے ۔ ان دونوں کا یہ استدلال تھا کہ کشمیر میں چھاپا مار جنگ صرف اسی صورت میں کامیاب ہوسکتی ہے جب کشمیر کے عوام اس میں بھرپور حصہ لیں، جس کے لیے عوام کی حمایت حاصل کرنے اور زمین ہموار کرنے میں کافی وقت درکار ہے۔ اس آپریشن کے اصل روح رواں، ذوالفقار علی بھٹو اور عزیز احمد نے ایک سال پہلے سے لبریشن سیل کے نام سے ایک خفیہ سیل قائم کر رکھا تھا، یہاں تک کہ اس زمانہ کے فضائیہ کے سربراہ نور خان کو بھی اس کی اطلاع نہیں تھی ۔
پھر جن کشمیریوں کی آزادی کے لیے یہ آپریشن تیار کیا گیا تھا ان کی قیادت کو نہ وادی میں اور نہ آزاد کشمیر میں اعتماد میں لیا گیا تھا۔ منصوبہ یہ تھا کہ سادہ لباس میں ۲۵ ہزار فوجی وادی میں داخل ہوں گے اور شیخ عبداللہ کی گرفتاری کی گیارہویں سالگرہ کے دن ۸اگست کو سری نگر کے جلسہ عام میں جو محاذ رائے شماری نے بلایا تھا ، شامل ہو کر وہاں سے شورش کا آغاز کریں گے۔ محاذ رائے شماری کے رہنماوں کو بھی اس منصوبہ کا علم نہیں تھا، اور جیسے ہی انہیں اس کی سن گن ہوئی تو محاذ کے رہنماوں نے اچانک یہ جلسہ عام منسوخ کردیا اور وہ خود روپوش ہو گئے۔
آپریشن جبرالٹر کے کرتا دھرتا اس زعم میں تھے کہ یہ آپریشن اتنا خفیہ ہے کہ کسی کو اس کا علم نہیں کہ یہ نام نہاد کمانڈوز جو اصل میں ۱۸ اور ۲۰ سال کے نئے رنگروٹ فوجی تھے کہاں سے وادی میں داخل ہورہے ہیں لیکن اسلام آباد میں سی آئی اے کے جاسوسوں کو ان کی نقل و حرکت کے بارے میں ایک ایک لمحہ کی خبر تھی ، وہ یہ خبر دلی میں امریکا کے سفیر چسٹر بولز کو پہنچا رہے تھے اور چسٹر بولز ہر شام کو وزیر اعظم لال بہادر شاستری سے ملاقات میں پاکستانی کمانڈوز کی نقل و حرکت کے بارے میں آگاہ کردیتے تھے۔ نتیجہ یہ کہ ۹ روز کے اندر اندر بیش ترپاکستانی کمانڈوز پکڑے گئے یا ہلاک کر دیے گئے۔ وادی میں کشمیری قیادت کو چوں کہ اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا لہٰذا کئی مقامات پر کمانڈوز نے مساجد میں پناہ لی تو اماموں نے ان کی اطلاع حکام کو کردی اور یہ گرفتار کر لیے گئے ۔
آپریشن شروع ہونے سے پہلے جب ایوب خان نے یہ خطرہ ظاہر کیا تھا کہ کشمیر میں آپریشن کے جواب میں ہندوستان بین الاقوامی سرحد پار کر کے پاکستان پر حملہ کر سکتا ہے تو اس وقت ذوالفقار علی بھٹو اور عزیز احمد نے ایوب خان کو باور کرایا کہ امریکیوں نے انہیں یقین دلایا ہے کہ ہندوستان بین الاقوامی سرحد کی خلاف ورزی نہیں کر ے گا ، لیکن جب پاکستانی کمانڈوز نے جوڑیاں پر قبضہ کر لیا ، جہاں سے اکھنورصرف ۶ میل دور رہ گیا تھااور اگر اکھنور پر پاکستانی فوج کا قبضہ ہو جاتا تو پونچھ جانے والی شاہراہ کٹ جاتی اور جموں اور سری نگر کے درمیان راستہ بند ہو جاتا۔ ہندوستان نے اس کے جواب میں وہی
اقدام کیا جس کا خطرہ ظاہر کیا جارہا تھا۔
میں اس زمانہ میں دلی میں جنگ گروپ کے اخبارات کے نامہ نگار کی حیثیت سے تعینات تھا۔ ۱۶ اگست کو ہندو قوم پرست جماعت جن سنگھ نے جس کے بطن سے موجودہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے جنم لیا ہے، دلی میں عام ہڑتال کا اہتمام کیا تھا اور ایک لاکھ سے زیادہ مظاہرین نے جو ملک کے مختلف علاقوں سے آئے تھے پارلیمنٹ کی جانب مارچ کیا ، جہاں انہوں نے وزیر اعظم لال بہادر شاستری پر بودی پالیسی اختیار کرنے کا الزام لگایا اور مطالبہ کیا کہ کشمیر میں در اندازوں کے حملوں کے جواب میں پاکستان پر حملہ کیا جائے۔ بلا شبہ لال بہادر شاستری کو اس وقت چومکھی دباؤ کا سامنا تھا۔ سیاسی مخالفین کے دباؤ کے ساتھ ان پر فوج بھی شکنجہ کس رہی تھی۔ ۲۰ اگست کو مشہور بین الاقوامی انقلابی ایم این رائے کی تحریک کے ترجمان جریدہ ۔تھاٹ۔ کے نائب مدیر این مکرجی نے نہایت تشویش کے عالم میں مجھے بتایا کہ حالات خطر ناک صورت اختیار کرتے جارہے ہیں اور اس بات کا خطرہ ہے کہ فوج اقتدار پر قبضہ کر لے۔ انہوں نے بتایا کہ صبح ہی کابینہ کے اجلاس میں بری فوج کے سربراہ جنرل چودھری نے شرکت کی تھی اور خبردار کیا تھا کہ رن آف کچھ کے معرکہ میں شکست کے بعد فوج کے حوصلے پست ہیں جس کے مداوے کے لیے پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی لازمی ہے ۔ مکر جی کے مطابق جنرل چودھری نے صاف صاف الٹی میٹم دیا تھا کہ اگر پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی نہ کی گئی تو ملک کی سیاسی قیادت کے لیے اس کے نتائج خطرناک ہوں گے۔ اسی الٹی میٹم کے بعد ۲۵ اگست کو لال بہادر شاستری نے لوک سبھا میں اعلان کیا تھا کہ کشمیر میں پاکستان کے در اندازوں کو روکنے کے لیے ہندوستان کی فوج جنگ بندی لائن کے پار کارروائی سے دریغ نہیں کرے گی۔ ۳ ستمبر کو جب لال بہادر شاستری نے نشری تقریر میں دلی میں بلیک آوٹ کا اعلان کیا تو کسی کو شبہ نہیں رہا تھا کہ دونوں ملکوں میں جنگ کا بگل بج گیا ہے۔ اور پھر جب ۵ ستمبر کو یہ خبر آئی کہ پاکستانی فوج نے جوڑیاں پر قبضہ کر لیا ہے اور وہ اکھنور سے صرف ۶ میل دور رہ گئی ہے، تو اسی رات کو دیر گئے ہندوستان کے فوج نے بین الاقوامی سرحد پار کر کے لاہور کی سمت پیش قدمی شروع کر دی۔ اس وقت پاکستان میں کہ کہا گیا کہ ہندوستان نے اچانک پاکستان پر حملہ کیا ہے۔ اس زمانہ میں دلی میں پاکستان کے ہائی کمشنر میاں ارشد حسین نے مجھے راز داری میں بتایا تھا کہ انہوں نے ۴ ستمبر کو ترکی کے سفارت خانہ کے توسط سے پاکستان کے دفتر خارجہ کو خبردار کیا تھا کہ ہندوستان ۶ ستمبر کو بین الاقوامی سرحد پار کر کے پاکستان پر حملہ کرے گا۔
۶ ستمبر کو شروع ہونے والی جنگ میں بلا شبہ پاکستانی فوج نے نہایت شجاعت سے وطن کی سر زمین کا دفاع کیا اور ۳ ہزار جوانوں اور افسروں نے جام شہادت نوش کیا ۔قوم پر لازم ہے کہ وطن پر جان نچھاور کرنے والے فوجیوں کو خراج عقیدت پیش کرے ۔ لیکن اسی کے ساتھ یہ لازمی ہے کہ ناکام آپریشن جبرالٹر کو پرکھا جائے جس کے نتیجہ میں، کشمیر کی آزادی کی جدوجہد دس سال پیچھے چلی گئی اور ملک کو ۶۵ کی جنگ کا سامنا کرنا پڑا۔ اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ ۶۵ کی ۱۷ روزہ جنگ کے نتیجہ میں ملک دو لخت ہوا۔ اس جنگ کے دوران ، تقریباً تمام تر فوج مغربی پاکستان کے دفاع پر مرکوز تھی اور ایک ہزار میل دورمشرقی پاکستان یکسر غیر محفوظ تھا۔ بلا شبہ اور بھی اسباب تھے ملک کے دو لخت ہونے کے ، لیکن ۶۵ کی جنگ کے دوران مشرقی پاکستان کے عوام کی نہتی تنہائی کے احساس نے علیحدگی کے سلگتے ہوئے جذبات کو ہوا دی۔ وہ لوگ جو تاریخ کے واقعات کو ایک دوسرے پر اثر انداز محرکات اور ایک دوسرے سے جڑی کڑیوں کی صورت میں دیکھتے ہیں ان کے نزدیک ۵۱ سال قبل آپریشن جبرالٹر اور اس کے نتیجہ میں جنگ در اصل ملک کو دولخت کرنے کا محرک اول ثابت ہوا۔

جرأت بھی دل سوزی، شفقت اور رحم دلی کی طرح انسانی معراج کا ایک زینہ ہے۔ آج تک کوئی جرأت اور بہادری کے بغیر ترقی کی منازل طے نہیں کر سکا۔ جرأت اس تین منزلہ مکان کا نام ہے جس کے اندر انسان بستا ہے۔ انسانی وجود کے تین حصے ہیں: پہلا جسمانی، دوسرا ذہنی اور تیسرا روحانی۔ ان تینوں حصوں یا منزلوں کا ہونا بہت ضروری ہے کہ اس کے بغیر انسان کی زندگی کا آگے بڑھنا، اس کا نشوونما پانا ناممکن ہے۔ جرأت آپ سے تقاضا کرتی ہے کہ آپ اپنے اور دوسروں کے حقوق کے لیے کھڑے ہو جائیں اور انہیں منوانے کے لیے سینہ سپر ہو جائیں۔ جرأت آپ کو مجبور کرتی ہے کہ آپ اپنے آپ کو، اپنے معاشرے کو، اپنے ملک کو تعمیر کرنے کے لیے سختی اور شقاوت کے بجائے محبت اور شفقت سے کام لیں، تشکیک کے بجائے ایمان کے اندر زندہ رہیں۔ مایوسی کے مقابلے میں امید کے سہارے، مشکلات کے نیچے دبنے کے بجائے ان پر حاوی ہو کر خود اعتمادی کی جرأت پیدا کریں۔ غلطیاں تسلیم کرنے کی جرأت اور خود کو کامل نہ پا کر رونے بسورنے سے احتراز کریں۔ یہ ہیں صحیح جرأت کے مظاہر۔۔۔!
باوجود اس کے کہ آپ اپنے اندر ایک جزیرہ ہیں لیکن یہ جزیرہ انسانوں کی دنیا میں آباد اور ان کے درمیان واقع ہے۔ کسی نے کہا ہے کہ ہم فکر مند نہیں ہوں گے تو بھوکے مر جائیں گے، اور اگر فکر کرتے رہیں گے تو پاگل خانے میں جا کر فوت ہو جائیں گے۔ زندگی ان دنوں اس قدر مشکل ہو گئی ہے کہ ہمیں ڈھنگ سے فکر کرنا بھی نہیں آتا۔ ہم فکر مندی کے فن سے بھی نا آشنا ہوگئے ہیں۔ فکر کرنا ایک اچھی بات ہے اور اس سے بہت سے کام سنور جاتے ہیں۔ بچے پل جاتے ہیں، گھر چلتے ہیں، دفتر کا نظام قائم ہوتا ہے، بزرگوں کی نگہداشت ہوتی ہے۔ فکر مندی ایک صحت مند اقدام ہے، یہ کام کرنے پر اکساتی ہے لیکن سب سے ضروری فکر اپنی روح کی ہونی چاہیے اور سب سے اہم فیصلہ یہ ہونا چاہیے کہ ہم اپنا ابد کہاں گزار رہے ہیں اور کیسا گزار رہے ہیں۔ یہ سوچنا چاہیے کہ اگر ہمیں ساری دنیا کی دولت مل جائے اور ہماری روح میں گھاٹا پڑ جائے‘ تو پھر یہ کیسا سودا ہے؟
انسان ضرورت سے زیادہ فکر کیوں کرتا ہے؟ یہ اس وقت شروع ہوتی ہے جب انسان خود کو خدا سمجھنا شروع کر دیتا ہے۔ وہ یہ سمجھنا شروع کردے کہ اب ہر شے کا بوجھ میرے کندھوں پر ہے۔ انسان خدا کا بوجھ بھی اپنے کندھے پر اٹھانا چاہتا ہے جو وہ کبھی بھی نہیں اٹھا سکتا۔ اس فکر مندی کے وجود میں آنے کی وجہ ایک چھوٹا سا لفظ ’’اگر‘‘ ہوتی ہے۔ اگر یہ ہو گیا، اگر وہ ہو گیا اگر اس نے یہ کہہ دیا اگر لوگوں نے باتیں بنانا شروع کر دیں!!! ایک اعلیٰ عہدے پر فائز اپنے اندیشوں اور فکر مندیوں کی ڈائری لکھا کرتے تھے جن سے وہ خوف زدہ رہتے تھے۔ سال بعد جب ڈائری دیکھتے تو ان ہزارہا اندیشوں اور فکروں میں سے کوئی ایک آدھ ہی ان کو چھو کر گزرے تھے۔ اس کے مقابلے میں ایک دنیاوی طور پر ان پڑھ عورت، جو بھرپور جوانی میں بیوہ ہو گئی۔ چھ معصوم بچوں کا بوجھ کام نہ کاج۔۔۔! کہنے لگی کہ میں نے صرف دو روپے کے کاغذ پر اپنے اللہ سے شراکت نامہ کر لیا۔ ایک بھوکے آدمی نے صدا لگائی، جیب میں دو ہی روپے تھے، نکال کر اس کے ہاتھ پر رکھ دیے۔ اس طرح میرے ربّ سے میری شراکت شروع ہو گئی اور کہا کہ کام میں کرتی جاؤں گی، فکر میری جگہ تم کرنا۔ میرا کریم و رحیم ربّ راضی ہو گیا، بس اسی دن سے ہمارا شراکت کا کاروبار بڑی کامیابی سے چل رہا ہے۔
رات کو سونے سے پہلے میں یہ ضرور دعا کرتا ہوں: یا اللہ! دن میں نے پورا زور لگا کر تیری مرضی کے مطابق گزار دیا، اب میں سونے لگا ہوں، رات کی شفٹ اب تو سنبھال، بڑی مہربانی ہوگی۔ جب ہم ایسا کچھ کرتے ہیں کہ ہمارا اندر بتاتا ہے کہ یہ تو گناہ ہے، تو ہم اپنی عزتِ نفس سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں پھر اپنے ساتھ رہنا بھی مشکل ہو جاتا ہے پھر ہم ندامت کا مقابلہ بھی نہیں کر سکتے۔ زندگی مشکل ہو جاتی ہے، ضمیر ہر وقت ملامت کرتا رہتا ہے۔ اب ہم تو یا اس کو بھول جائیں یا اسے دماغ سے نکال دیں، لیکن یہ دونوں کام ہی مشکل ہو جاتے ہیں۔ اس کے برعکس ایک فعلِ ندامت، پشیمانی اور توبہ ہے۔ جب ہم اپنے کریم ربّ کے سامنے اپنی تمام بے بسی، ندامت کے احساس کے ساتھ سجدے میں گر کر توبہ کی درخواست اپنے آنسوؤں کی تحریر کی شکل میں، اس کی عدالت میں اس کی رحمت کا استغاثہ دائر کرتے ہیں، تو نہ صرف توبہ قبول ہوجاتی ہے بلکہ اگر اس مناجات میں اخلاص بھی ہو تو ہم بھی قبول ہو جاتے ہیں، پھر زندگی آسان ہو جاتی ہے۔
دوستی کیا ہے؟ اگر میں تمہارا دوست ہوں اور تم میرے دوست ہوتو یہ ہمارے لیے ایک بڑا اعزاز ہے کہ ہم نے دنیا کے بڑے بڑے مشہور، لائق فائق، اعلیٰ درجے کے لوگوں کو چھوڑ کر ایک دوسرے کو پسند کیا۔ کیا پاکیزہ رشتہ باندھا، واہ واہ۔ دوستی کا رشتہ عمر بھر چلتا ہے۔ جوان ہوئے تو شادی ہو گئی۔ بہن بھائی، عزیز رشتہ دار، گھر، محلہ، شہر چھوٹ گیا۔ بوڑھے ہوئے تو اولاد چھوڑ گئی، لیکن دوستی میں یہ تبدیلی نہیں آئی، دوستی کا رشتہ بے لوث ہوتا ہے، یا یوں کہیے کہ یہ روحانی ہوتا ہے۔ دیگر رشتوں میں تو کچھ جسمانی ضرورتوں کو پورا کرنا پڑتا ہے، مگر دوستی میں صرف روح کی ضرورتوں کو پورا کرنے کا تقاضا ہوتا ہے۔ روحیں ایک دوسرے کے ساتھ ہم آغوش ہو جاتی ہیں اور جسمانی تقاضا ایک بھی نہیں ہوتا۔ والدین بچپن میں ملتے اور پھر ساتھ رہتے ہیں۔ پھر وہ ہمیں یا پھر ہم ان کو چھوڑ دیتے ہیں۔ بیوی یا شوہر جوانی کی عمر میں ملتے ہیں۔ بچے شادی کے بعد کی عمر میں نصیب ہوتے ہیں۔ اسی طرح بہن بھائی بھی ہوتے ہیں مگر وقت کے ساتھ ساتھ ہر کوئی اپنی ذمے داریوں کے بوجھ میں مگن ہوجاتے ہیں۔
لیکن دوستی کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں۔ آپ ۸ کے ہوں یا ۸۰ کے، ۹ کے ہوں یا ۹۰ کے، ۱۶ کے ہوں یا ۶۰ کے۔۔۔ آپ میں اگر اخلاص ہے، اور اگر آپ دوستی کا مطلب جان گئے ہیں تو پھر آپ کسی بھی عمر میں دوستی کر سکتے ہیں، دوست بن سکتے ہیں۔ ایمان کیا ہے؟ ایک اختیار ہی تو ہے۔ ایک (Choice) ہی تو ہے۔ کوئی مباحثہ یا مکالمہ نہیں، یہ ایک فیصلہ ہے، قطعاً مباحثہ نہیں ہے۔ ایک کمٹمنٹ ہے، زبردستی نہیں ہے۔ یہ ہمارے دل کے خزانوں کو بھرتا ہے اور ہماری ذات کو مالامال کرتا رہتا ہے۔ بالکل ایک پر خلوص دوست کی طرح۔ پھر دوستوں میں تحائف کے تبادلے بھی ہوتے ہیں۔ یادیں ایک بہترین اور خوب صورت تحفوں کی طرح ہر دم آپ کو گھیرے رکھتی ہیں، اور وہ تحفہ جس میں کچھ قربانی شامل ہو جائے، وہ تحفہ جس نے آپ کو جینے کا ڈھنگ سکھایا ہو، جس نے آپ کو سر اٹھا کر چلنے کا فخر عطا کیا ہو، وہ تحفہ تو پھر سرمایہ حیات بن جاتا ہے۔ پھر ایسے تحفے کی حفاظت کے لیے ایک جان تو بہت کم محسوس ہوتی ہے۔
اگر ربّ کریم دوست ہیں تو پاکستان اس رحیم دوست کا سب سے بڑا قیمتی اور نایاب تحفہ ہے۔ ایک ایسا انمول ہیرا ہے جس نے آپ کے سر پر رکھے ایمانی تاج کو باقی دنیا سے ممتاز کر رکھا ہے لیکن کیا ہم اپنی جان سے زیادہ عزیز دوست کی شہ رگ کسی دشمن کے حوالے کرسکتے ہیں؟ کشمیر جنت نظیر پاکستان کی شہ رگ ہے جہاں آج بھارتی درندے ہمارے معصوم اور بے گناہ بہن بھائیوں کے ساتھ خون کی ہولی کھیل رہے ہیں۔ اس مرتبہ تو وہ بلاتمیز جانوروں کا شکار کرنے والی پیلٹ گن کے استعمال سے ہمارے نوجوان بچوں کی بصارت اور زندگیاں چھین رہا ہے اور فرعون صفت نریندر مودی نے اپنے یومِ آزادی پرجس دریدہ دہنی سے پاکستان میں اپنے ایجنٹوں کو آواز دیکر کشمیرکے مسئلے سے توجہ ہٹانے کی عملی دعوت دی، ہمارے حکمرانوں کا اس کااب تک تسلی بخش جواب سامنے نہیں آسکا جس کے لیے قوم کا ہر فرد دن بدن حکومت کی موجودہ پالیسیوں سے متنفر ہوتا جارہا ہے اور نجانے اب کیوں یقین ہوتا جارہا ہے کہ اس دفعہ کشمیر پر ہونے والے مظالم کا جواب عرش سے فرش تک آنے میں کوئی دیر نہیں۔ کیا موجودہ حکومت آنے والے عذاب الٰہی کے لیے تیار ہے؟
اجازت دیں۔ میں تو منادی کرنے آیا تھا۔ ملتے رہیں گے جب تک سانس کی ڈور بندھی ہوئی ہے۔
nn