کورونا کے اثرات

231

کورونا سے عالمی سطح پر ہونے والی تباہ کاریاںجاری ہیں۔ حیرت انگیز طور پر اس وبا جس کے اللہ ربّ العالمین کی جانب سے عالم انسانیت پر مسلط کیے جانے میں رتی برابر بھی کوئی شک وشبہ نہیں ہے کے بارے میں توہمات اور غلط عقائد کی بنیاد پر نہ صرف من گھڑت باتیں منسوب کی جارہی ہیں بلکہ اس مصیبت سے چھٹکارے کے لیے اللہ تعالیٰ کی جانب رجوع اور اس کی خالقیت اور ساری کائنات پر بلا شرکت غیرے حاکمیت کو تسلیم کرنے کے بجائے حضرت انسان طرح طرح کی توضیحات کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے قہر اور ناراضی کو مزید دعوت دے رہا ہے۔ رہی سہی کسر اس وبا کو سیاسی بنانے کے ذریعے پوری کی جارہی ہے جس میں امریکا، چین، ایران سمیت اکثر ممالک سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے ذریعے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھیرانے کے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں۔ دوسری جانب اس وبا جو بظاہر ایک ایسے معمولی وائرس کی پیداوار ہے جسے عام آنکھ تو کجا عام دوربینوں کے ذریعے بھی دیکھنا ممکن نہیں ہے نے پوری دنیا کی نام نہاد ترقی اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں انقلابات کے تمام تر دعوئوں کو بھی زمین بوس کردیا ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ اس بظاہر معمولی وائرس نے آج دنیا کی سب سے طاقت ور فوج ہونے کا دعویٰ کرنے والی امریکی فوج اور اس کے کمانڈر انچیف کو بے بس کر دیا ہے۔ کیا اس خوردبینی وائرس نے آج دنیا کے کونے کونے میں پھیلے ہوئے چھوٹے بڑے جوئے خانوں اور جسم فروشی کے اڈوں کو تالے نہیں لگوائے۔ وہ کون سی غیر مرئی طاقت ہے جس کے حکم سے آج دنیا کے تمام نوڈسٹ کلب، کسینائیں، ہم جنس پرستوں کے اڈے اور تمام نائٹ کلب بند ہیں۔ کیا آج سے پہلے تاریخ نے کبھی یہ منظر دیکھا تھا کہ دنیا بھر کے بڑے بڑے ہوائی مستقر یوں پلک جھپکتے میں بند ہوکر ہزاروں اور شاید لاکھوں طیارے انڈر گرائونڈہوں جائیں گے۔ دنیا کے پررونق بازار، بڑی بڑی شاہراہیں اور پرہجوم گلیاں اور سڑکیں، پارک اور باغات اور طرح طرح کی سیر گاہیں یوں بے سروسامانی کے عالم میں سنسان ہو جائیں گے۔ کیا کل تک کوئی سوچ سکتا تھا کہ فرعون نما امریکی صدر کبھی امریکا میں سود کی شرح کو گھٹا کر صفر کرنے کا اعلان بھی کرے گا۔ کیا یہ دن تاریخ بھلا سکے گی جب امریکی صدر نے کورونا سے بچنے کے لیے امریکیوں کو اسکارف یعنی حجاب پہننے کا مشورہ دیا اور اسی فرانس میں آج لوگ اسکارف کے ذریعے کورونا سے بچنے کے جتن کررہے ہیں جہاں کچھ عرصہ پہلے اسی اسکارف کے اوڑھنے پر باقاعدہ قانون سازی کے ذریعے پابندی لگائی گئی تھی۔ کیا کسی کے خیال وگمان میں بھی تھا کہ عالمی اسٹاک ایکسچینج میں محض چند ہفتوں کے دوران کھربوں ڈالر کا نقصان ہوجائے گا اور عالمی سطح پر تیل کی قیمت تاریخ کی پست ترین سطح پر آجائے گی۔ کیا تاریخ اس تلخ حقیقت کو نظر انداز کر سکے گی کہ ایک خوردبینی مخلوق کے ہاتھوں دنیا کی ساری سائنسی تحقیق۔ ٹیکنالوجی اور علم کے پہاڑ ڈھیر ہوگئے تھے۔
سوال یہ ہے کہ آج وہ خدا فراموش۔ خود غرض۔ لالچی۔ متکبر اور انسانیت دشمن لوگ کہاں ہیں جن کے خیال میں طاقت اور دولت کا سرچشمہ اللہ تعالیٰ کے بجائے وہ یا ان ہی جیسے کچھ انسان ہیں۔ آج وہ نام نہاد لبرلز کہاں ہیں جو میرا جسم میری مرضی اور ہم جنس پرستی کو انسان کا نجی معاملہ قرار دے کرکے باغیانہ نعرے لگا کر قہر خداوندی کو کھلے عام دعوت دے رہے تھے۔ کیا آج ان کا وجود زمین پر بوجھ بن کر پوری انسانیت کا منہ نہیں چڑا رہا ہے۔ کیا آج یہ تمام آوازیں مدھم ہوکرخاموش فضائوں میں گم ہو کر نہیں رہ گئیں۔ کیا آج ہر جانب سے حق وسچ پر مبنی اللہ کی کبریائی اور وحدانیت کی صدائیں بلند ہوکر انسان کو اس کی اصلیت کا پتا نہیں دے رہی ہیں۔
دوسری جانب کیا یہ بھی ایک حقیقت نہیں ہے کہ کورونا کے شور وغوغا میں آسمان کا رنگ بدل چکا ہے، دھوپ زیادہ روشن ہو گئی ہے کیونکہ موٹر گاڑیوں، ہوائی جہازوں، ٹرینوں اور فیکٹریوں کی بندش سے آسمان پر آلودگی ختم ہو گئی ہے جس کی وجہ سے درخت پھول اور پتے زیادہ تندرست اور تازہ لگ رہے ہیں، شور کم ہونے اور لوگوں کی غیر ضروری بھاگ دوڑ ختم ہونے سے چہار سو ایک سکون اور امن کی فضاء ہے۔ وہی انسان جو کل تک فرعون بنا پھرتا تھا آج ایک انجانے خوف کا شکار نظر آتا ہے اسے اس نامعلوم خوف نے دنیا کے جلوں اور رنگینیوں سے متنفر سا کر دیا ہے۔ معاشرتی تنہائی کی وجہ سے لوگ اپنے قریبی رشتوں کو مس کرنے لگے ہیں ان کی قربت کے لیے دلوں میں تڑپ سی پیدا ہو گئی ہے۔ کام کاج کی بندش سے گھر کے افراد ایک دوسرے کو وقت دینے لگے ہیں۔ کورونا کے ڈر سے ہر شخص پاک صاف رہنے کو ترجیح دینے لگا ہے بار بار منہ ہاتھ دھونے سے چہروں پر ایک عجیب سی نرمی اور تازگی کو ہرکوئی دیکھ اور محسوس کرسکتا ہے۔ موت کے انجانے خوف نے انسانوں کو خدا کے قریب تر کر دیا ہے۔ ہر کسی سے چھ فٹ کے فاصلے پر رہ کر چلنے کی مجبوری سے کسی بھی شخص کو آزادی سے کھلی جگہ چلنے کا موقع مل رہا ہے۔ ماسک لگانے کی وجہ سے چہروںکے مصنوعی بناؤ سنگھار میں کمی آ گئی ہے جس سے سادگی کو فروغ مل رہا ہے۔ برہنہ اور نیم برہنہ لباس پر فخر کرنے والے آج مکمل لباس پہننے لگے ہیں، لوگوں میں ایثار کا جذبہ بھی پہلے سے کئی گنا بڑھ کر دیکھا جاسکتا ہے۔ ٹھیرائو کی اس کیفیت کا تقاضا ہے کہ انسان کو اس عارضی جھٹکے کا لحاظ کرتے ہوئے نہ صرف اپنی گزشتہ کوتاہیوں پر اللہ تعالیٰ سے معافی کا طلب گار ہونا چاہیے بلکہ اپنے ان کرتوتوں سے مستقل توبہ کا حقیقی وعدہ بھی کرنا چاہیے۔