بھارت اقلیتوں کے لیے خطرناک

340

اب امریکی کمیشن برائے عالمی مذہبی آزادی نے یہ بات کہہ دی ہے کہ بھارت اقلیتوں کے لیے خطرناک ملک ہے تو سب اسے اچھالنے لگے لیکن گزشتہ 70 برس سے پاکستان کی مختلف حکومتیں پاکستان کی اسلامی جماعتیں اور آزاد کشمیر کی تمام جماعتیں بھارت کی انتہا پسندی کی جانب توجہ مبذول کراتی رہی ہیں۔ جماعت اسلامی پاکستان کے سابق امیر مرحوم قاضی حسین احمد نے تو بھارتی مظالم کے خلاف اور کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لیے 5 فروری کی ہڑتال اور یوم یکجہتی کشمیر کا اعلان کیا تھا جو آج تک جاری ہے۔ بھارت صرف کشمیر میں مسلمان اقلیت کے خلاف مظالم نہیں ڈھا رہا ہے، پورے بھارت کی ہر ریاست، ہر اقلیت بھارتی مظالم کی گواہ ہے۔ پاکستان کو آج کل جو حکومت ملی ہے اس نے اقوام متحدہ یا مغربی اداروں سے تعریف کے دو بول سننے کے لیے پاکستان کے عوام کے مذہبی جذبات اور مسلمہ مذہبی اقدار کے خلاف اقدامات کیے۔ آسیہ ملعونہ کو رہا کیا۔ امریکی کمیشن نے اس کی اور دیگر قیدیوں کی رہائی کی تعریف کر دی۔ کرتارپور بارڈر کھولنے، سکھ یونیورسٹی بنانے کا اعلان اور مندر کی تزئین کردی لیکن نہ سوچا کہ توہین رسالت کرنے والی عورت کو ملک سے باہر جانے کی اجازت دے کر پاکستان نے تو مذہبی اکثریت کے جذبات کو کچل ڈالا۔ بہرحال بھارت موضوع ہونے کے ناتے اس کے بارے میں امریکی کمیشن کا کہنا ہے کہ مودی حکومت نے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوںکے خلاف مہم چلائی۔ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے متنازع شہریت بل نافذ کیا، بابری مسجد سے متعلق بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی باعث تنقید ہے اور بھارت اس بنیاد پر باعث تشویش ملکوں میں شامل ہے۔ پاکستانی حکومت نے اس پر بڑی خوشی کا اظہار کیا ہے لیکن اس رپورٹ میں ہے کیا؟ صرف ایک جملہ بھارت اقلیتوں کے لیے خطرناک اور باعث تشویش ممالک میں شامل ہے۔ امریکیوں کا معاملہ یہ ہے کہ آج تشویش ظاہر کرتے ہیں کل تشویش جاتی رہے گی اور مودی کو کھلی چھوٹ مل جائے گی۔ یہی مودی ہے جس کے بارے میں امریکا کا فیصلہ تھا کہ اسے امریکا آتے ہی گرفتار کر لیا جائے۔ یہ گجرات کا قسائی مشہور تھا۔ لیکن جوں ہی مودی وزیراعظم بنا اس کے خلاف تمام الزامات ہوا میں تحلیل ہو گئے۔ پرتپاک استقبال ہوا، بھارت اور امریکا کا گٹھ جوڑ ہوا اور پھر مودی نے پاکستان اور کشمیر کے خلاف اپنے انتہا پسندانہ ایجنڈے کی تکمیل امریکی سرپرستی میں کی۔ امریکی ریاست اس پر خاموش ہے۔ یہ رپورٹ ایک امریکی کمیشن کی ہے جس پر عمل کرنا حکومت کے لیے لازم نہیں ہے البتہ فی الحال امریکا نے ایسا تاثر دیا ہے کہ اسے مودی حکومت کی پالیسیاں مناسب نہیں لگیں چنانچہ وائٹ ہائوس نے بھارت کے ٹوئٹر اکائونٹ کو فالو کرنا چھوڑ دیا ہے۔ پاکستانی حکومت اور فوج نے بھی بھارت کے بارے میں کمیشن کی رپورٹ پر مسرت کا اظہار کیا ہے۔ ہمارے حکمرانوں کا ہمیشہ سے یہی کہنا ہے کہ اجازت نہیں دی جائے گی۔ کشمیریوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ اب بھی یہی کہا گیا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنے ایک خط میں او آئی سی کے سیکرٹری جنرل سے کہا ہے کہ بھارت کو گجرات کی تاریخ دہرانے نہیں دیں گے۔ مسلمانوں کو کورونا کے پھیلائو کا ذمے دارٹھیرانا خطرناک ہے۔ مسلم امہ کو بھارت میں جاری اسلامو فوبیا اور نسل پرستی پر مبنی کارروائیوں سے روکنے کے لیے عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ لیکن اب بیان بازیوں کا وقت گزرے ہوئے بھی عرصہ ہو چکا۔ اجازت نہیں دیں گے، منہ توڑ دیں گے، اب کی مار والی بڑھک ہے۔ بھارت روز کنٹرول لائن کی خلاف ورزی کرتا ہے ہم منہ توڑنے کی بات کرتے ہیں۔ اس نے 3 لاکھ ہندوئوں کو کشمیر کی شہریت دے ڈالی ہے۔ ہمارے وزیر خارجہ گجرات کی تاریخ دہرانے کی اجازت نہیں دے رہے۔ بھارت تو اب 5 اگست کی تاریخ پر عمل کر رہا ہے۔ کشمیر اس وقت طویل ترین لاک ڈائون والا دُنیا کا دوسرا خطہ بن گیا ہے۔ ایک خطہ غزہ ہے جہاں اسرائیلی فوج نے مسلسل محاصرہ کر رکھا ہے، دوسرا خطہ کشمیر ہے۔ کسی امریکی کمیشن کو یہ سب نظر نہیں آیا۔ اب بھی ان کے مقاصد کچھ اور ہیں۔ یہی کمیشن آج پاکستان کی تعریف کر رہا ہے اگر آسیہ اور قادیانیوں کو سہولتیں نہ دی جاتیں تو پاکستان ان کے لیے باعث تشویش ملک ہوتا۔ پاکستانی حکمران دوسروں کے اعلان یا رپورٹ کا انتظار نہ کریں کشمیر اور بھارتی مسلمانوں کے لیے کچھ کر سکتے ہیں تو آگے بڑھ کر عملی اقدام کریں، قوم ساتھ دے گی۔ بیان بازیوں سے کشمیر آزاد نہیں ہو سکتا۔