میاں برادران کی سیاست

402

کل ایک دوست کہہ رہے تھے کہ کورونا کے ہنگامے میں پوری قوم سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کو فراموش کر بیٹھی ہے۔ حالاںکہ جب وہ پاکستان میں جیل کی سزا کاٹ رہے تھے تو روزانہ ان کے بارے میں ہیلتھ بولیٹن جاری ہوتا تھا۔ پوری حکومت ان کی تیمار داری میں لگی ہوئی تھی۔ ڈاکٹروں کے بورڈ پر بورڈ بن رہے تھے اور ان کی بیماری کا سراغ لگانے کی اَن تھک کوشش کی جارہی تھی لیکن ڈور کا سِرا ہی کسی کے ہاتھ نہیں لگ رہا تھا اور سارے ڈاکٹر یہ جاننے سے قاصر تھے کہ میاں صاحب کی اصل بیماری کیا ہے اور اس کا علاج کیسے اور کہاں ممکن ہے۔ چناںچہ سب ڈاکٹروں نے سرجوڑ کر یہی رائے دی کہ کم از کم پاکستان میں تو ان کا علاج ممکن نہیں ہے۔ انہیں لندن بھیجنا پڑے گا جہاں وہ اپنی وزارت عظمیٰ کے دور میں چار ماہ تک زیر علاج رہ چکے تھے اور صحت یاب ہو کر وطن واپس آئے تھے۔ اُس وقت میاں صاحب کو دل کا عارضہ درپیش تھا اب ان کی جان کو نجانے کتنی بیماریاں چمٹی ہوئی ہیں۔ باقی بیماریوں کو چھوڑیے، پلیٹ لیٹس ہی ان کے قابو میں نہیں آرہے۔ چناں چہ اس میڈیکل رپورٹ کی پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد صاحبہ نے بھی تصدیق کی۔ وزیراعظم عمران خان میاں صاحب کو لندن بھیجنے کے حق میں نہیں تھے لیکن انہیں بتایا گیا کہ معاملہ بہت سیریس ہے، اگر میاں صاحب کو لندن جانے سے روکا گیا تو وہ ان کے متھے لگ جائیں گے اور یہ سانحہ ان کی حکومت برداشت نہیں کرپائے گی۔ خان صاحب کو جُھرجُھری آگئی اور انہوں نے میاں صاحب کو اپنی دعائوں کے ساتھ لندن جانے کی اجازت دے دی۔ انہیں کیا خبر تھی کہ ان کی دعائیں اتنی کارگر ثابت ہوں گی کہ میاں صاحب لندن پہنچتے ہی بھلے چنگے ہوجائیں گے اور خان صاحب کفِ افسوس ملنے لگیں گے۔
ہم نے اپنے دوست کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ ’’میاں صاحب کی صحت یابی کا محض پروپیگنڈا ہے وہ تو اب بھی بیمار ہیں لیکن کورونا کے سبب ان کی بیماری کا چرچا نہیں ہورہا‘‘۔
دوست نے جواب دیا ’’آپ صحیح کہتے ہیں۔ لندن سے خبر آئی ہے کہ میاں صاحب نے کورونا کے خاتمے تک اپنا علاج ملتوی کردیا ہے اور خود قرنطینہ میں چلے گئے ہیں‘ چلو چھٹی ہوئی‘‘۔
یار لوگ بھی مین میکھ نکالنے میں جواب نہیں رکھتے۔ ان کا کہنا ہے کہ میاں صاحب کی ڈرامائی بیماری نے سب کو چکرا دیا تھا اب اس کی پَرتیں کھلی ہیں تو سب کو چُپ لگ گئی ہے۔ جس عدالت نے انہیں علاج کے لیے چار ہفتے کی رخصت دی تھی وہ بھی خاموش ہے۔ حکومت بھی خاموش ہے اور میڈیا بھی خاموش ہے۔ شاید یہ خاموشی بھی اس اسکرپٹ کا حصہ ہے جس کے تحت میاں صاحب کو لندن بھیجا گیا تھا۔ میاں صاحب کے ساتھ ان کے برادرِ خورد میاں شہباز شریف بھی لندن گئے تھے۔ مقصد یہ بتایا گیا کہ وہ اپنے بڑے بھائی کی دیکھ بھال کریں گے اور بیماری میں انہیں تسلی دیں
گے۔ خیر یہ کام تو میاں صاحب کے دونوں بیٹے بھی بخوبی انجام دے سکتے تھے۔ مقصد کچھ اور تھا۔ میاں شہباز شریف نیب کی گرفت سے بچنا چاہتے تھے جو ہاتھ دھوکر ان کے پیچھے پڑا ہوا تھا۔ پھر لندن میں بیٹھ کر عمران حکومت کے خلاف بھی افواہوں اور سازشوں کا تانا بانا بُنا جاسکتا تھا۔ شہباز شریف کا خیال تھا کہ اگر حکومت کے خلاف سازشیں کامیاب رہیں تو وہ اپنے بڑے بھائی کے ساتھ فاتحانہ انداز میں وطن واپس آئیں گے اور عنانِ اقتدار سنبھال لیں گے۔ کیوں کہ بڑے بھائی تو پاناما کیس میں پہلے ہی نااہل ہوچکے ہیں اور ان کی اقتدار میں واپسی کا کوئی امکان باقی نہیں رہا۔ شہباز شریف ویسے بھی گزشتہ 20 سال سے وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار چلے آرہے تھے لیکن ہربار بڑے بھائی راستہ کاٹ جاتے تھے۔ اب بھی ان کی خواہش تھی کہ شہباز کو نہیں ان کی ہونہار صاحبزادی مریم نواز کو یہ چانس ملنا چاہیے۔ اس کے لیے مریم کو وزیراعظم آفس میں بٹھا کر تربیت بھی دی گئی تھی۔ اِدھر مریم پاکستان میں تھیں اور ان کی خواہش تھی کہ وہ بھی جلد از جلد لندن پہنچ جائیں تا کہ جب فاتحانہ واپسی ہو تو وہ بھی اپنے والد کے پہلو میں کھڑی نظر آئیں اور کارکن حسب ہدایت ’’وزیراعظم مریم نواز زندہ باد‘‘ کے نعرے لگا کر ماحول کو گرما دیں۔ اس منصوبے کے تحت لندن سے مسلسل ایسی خبریں جاری ہورہی تھیں کہ میاں نواز شریف اپنی صاحبزادی مریم کے بغیر دل کا علاج کرانے کو تیار نہیں ہیں اور ان کے پلیٹ لیٹس
بھی بتدریج گر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی شہباز شریف سے یہ بیان دلوایا جاتا تھا کہ میاں نواز شریف کی زندگی کو شدید خطرہ لاحق ہے اگر مریم کو لندن نہ آنے دیا گیا تو اس کی تمام تر ذمے داری عمران خان پر عائد ہوگی، لیکن اب کی دفعہ عمران خان اس ڈرامے سے متاثر نہ ہوئے۔ ویسے اندر کی بات یہ ہے کہ خود شہباز شریف بھی یہ نہیں چاہتے تھے کہ مریم لندن آئیں اور ان کی راہ کھوٹی کریں۔ چناں چہ شنید ہے کہ انہوں نے اسلام آباد میں اپنے دوستوں سے کہہ رکھا تھا کہ وہ عمران خان کے کان بھرتے رہیں اور مریم کی دال نہ گلنے دیں۔ کہا جاتا ہے کہ میاں نواز شریف کو بھی اس کی سن گن لگ گئی اور انہوں نے کورونا کے بہانے شہباز شریف کو پاکستان واپس بھجوادیا، خود آئیسولیشن اختیار کرلی۔
شہباز شریف جب سے واپس آئے ہیں اپنی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ انہوں نے یہ خبر لیک کروائی ہے کہ 2018ء کے انتخابات سے پہلے شہباز شریف کو وزیراعظم بنانے کا فیصلہ ہوگیا تھا لیکن پھر پانسا پلٹ گیا۔ لوگ کہہ رہے ہیں کہ اِس ’’خبر‘‘ کو لیک کرانے کا مقصد یہ تاثر دینا ہے کہ اب بھی پانسا پلٹ سکتا ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ شہباز شریف نے پنجاب میں بیورو کریسی کو بالواسطہ طور پر ہدایات دینا بھی شروع کردی ہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ پنجاب کی بیوروکریسی پر شہباز شریف کا اثر ہے لیکن جو بات ان سے منسوب کی جارہی ہے وہ مبالغے سے کم نہیں ہے۔ سیاست دائو پیچ کا کھیل ہے، فی الحال یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ میاں برادران سیاست میں غیر موثر ہونے کے باوجود ہوا میں گرہ لگانے میں مصروف ہیں۔