پوری دنیا کی آبادی ساڑھے چھ ارب ہو گی جس میں سے کورونا وائرس سے مرنے والوں کی تعداد چالیس ہزار سے کچھ زائد ہے اگر دیکھا جائے تو فی صد میں اس کی کوئی نسبت ہی نہیں بنتی۔ 2015 میں کراچی میں ہیٹ اسٹروک آیا تھا جس میں ایک ہفتے میں 2000 سے زائد لوگ جاں بحق ہو گئے تھے لیکن کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ہلاکتیں پانچ ہزار سے زائد ہوئی تھیں۔ ہیٹ اسٹروک ایک ملک کے ایک شہر کا مسئلہ تھا اس لیے اس کی بین الاقوامی پبلسٹی اس طرح نہ ہو سکی جیسی کورونا وائرس کی ہو رہی ہے کہ اس نے پوری دنیا کو بالعموم اور امریکا سمیت پورے یورپ کو بالخصوص متاثر کیا ہے۔ کہتے ہیں بیماریاں کئی قسم کی ہوتی ہیں اس حوالے سے احادیث بھی ہیں بیماری کی ایک قسم یہ بھی ہوتی ہے کہ جو انسان خود اپنے ہاتھوں سے اپنے اوپر مسلط کرتا ہے۔ اس کو ہم اس طرح سمجھتے تھے کہ ایک شخص کو چھینکیں آرہی ہیں ہلکے سے نزلے کے آثار بھی ہیں اس کو منع کیا جاتا ہے کہ ٹھنڈے پانی سے کچھ دن پرہیز کرلیں لیکن وہ مسلسل ٹھنڈا پانی پیتا رہتا ہے جس کے نتیجے میں اس کو نزلے کے ساتھ بخار بھی ہو جاتا ہے اس وقت ہم اس سے کہتے ہیں کہ یہ بیماری تم خود جان بوجھ کر لائے ہو اگر پہلے پرہیز کر لیتے تو بیمار نہ پڑتے۔
کورونا وائرس کے بارے میں تو کئی آرٹیکلز شائع ہو چکے ہیں جن میں بتایا گیا کہ برطانیہ کی لیبارٹری میں یہ وائرس بنایا گیا، کینیڈا کی لیبارٹری میں امریکا برطانیہ کینیڈا اور چین کے سائنس دانوں (چینی سائنسدانوں میں میاں بیوی کا نام آرہا ہے) نے مل کر اس وائرس پر مزید ریسرچ کی اور چین کے شہر ووہان کی لیب میں مزید اس پر کام ہوا۔ ایک مضمون میں یہ خیال ظاہر کیا گیا ہے کہ غلطی سے کوئی چینی سائنسدان لیب سے باہر شہر کچھ خریداری کے لیے آیا اس کے ساتھ یہ وائرس آیا اور پھر ووہان شہر ڈینجر زون بن گیا اور روزآنہ سیکڑوں لوگ اس سے مرنے لگے۔ چین امریکا برطانیہ کے اس بائیولوجیکل ہتھیار کے کیا مقاصد تھے یہ بات تو کچھ برسوں کے بعد سامنے آئے گی ابھی تو ان ہی ممالک کا بہت زیادہ جانی نقصان ہو رہا ہے امریکا، اسپین اور اٹلی میں روزآنہ 800 سے زائد افراد ہلاک ہو رہے ہیں اور یہاں کی حکومتیں پریشان ہیں کہ اس مصیبت کو کیسے قابو کیا جائے۔ اب سے کچھ ماہ قبل کی بات ہے کہ جاپان نے کچھ فوجی روبوٹ بنائے تاکہ جنگ میں ان روبوٹس کو استعمال کیا جائے لیکن اس سے پہلے کہ ان روبوٹس کو کسی جنگ میں استعمال کیا جاتا اس کے تجرباتی آپریشن میں کوئی فریکیونسی غلط ہو گئی اور ان روبوٹس نے جاپان کے 48 حقیقی انسانی فوجیوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا۔ بڑی مشکل سے ان پر قابو پایا گیا اور اب جاپان سے اس طرح کی کوئی خبریں نہیں آرہی ہیں کہ وہ فوجی روبوٹس پر کام کررہے ہیں۔
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہم دوسروں کے لیے گڑھا کھودتے ہیں اور خود اس میں گر جاتے ہیں۔ امریکا، برطانیہ اور یورپی ممالک نے کسی طویل المعیاد منصوبہ بندی کے تحت بائیو لوجیکل ہتھیار بنایا کہ غیر محسوس طریقے سے انسان کو موت کی دہلیز تک پہنچا دیا جائے اس سے پہلے امریکا نے افغانستان اور شام میںکیمیکل بم کا استعمال کیا اس کی جو تصاویر دیکھنے کو ملتی ان کو دیکھ کر دل پھٹ جاتا ہے کہ چھوٹے بچے ہوں یا بڑے وہ تڑپ تڑپ کر موت کے منہ میں جاتے ہوئے نظر آتے۔ یہودیت اور عیسائیت کی دنیا مسلمانوں سے نفرت کی اس انتہا تک پہنچی ہوئی تھی کہ وہ مسلمانوں کو جان سے مارنے سے پہلے ان کو شدید اذیت میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں شاید وہ اپنی انا کی تسکین کے لیے ایسا کرتے ہوں، بہر حال اب سے کئی سال قبل کسی مشہور ڈرامے کا ریلیز ہونا یا کسی کارٹون کے ذریعے آج کی صورتحال کی عکاسی کرنا کسی گہری سازش کی نشاندہی کرتا ہے۔ آج امریکا سمیت یورپی ممالک میں اوسطاً ہزار افراد روز موت کے منہ میں جارہے ہیں۔ اگر کسی مسلم ملک میں غیر مسلموں کی لاشوں کو اس طرح سے رسی سے باندھ کر گھسیٹا جائے اور کسی بہت بڑے گڑھے میں مشینوں سے دھکیل کر اسے دفنایا جاتا تو پوری مغربی دنیا میں ایک طوفان برپا ہو جاتا۔ آج ہم اپنی آنکھوں سے یہ دیکھ رہے ہیں کہ یہی یورپی ممالک اپنے ملکوں میں کورونا وائرس سے مرنے والوں کو اسی طرح اچھوت سمجھ کر دفنا رہے ہیں۔ فاعتبرو یا اولی الابصار۔ یکم اپریل کو امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا بیان آیا کہ اگلے دو ہفتے امریکا کے لیے بڑے دردناک ہوں گے اس کا مطلب ہے کہ اموات کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوجانے کا اندیشہ ہے۔ ویسے بھی علم نجوم جاننے والوں کی پیشگوئی ہے کہ امریکا میں ایک کروڑ سے زائد افراد لقمہ اجل بن سکتے ہیں۔
یہ ہمارے لیے خوشی کی بات نہیں ہے ہمیں تو افسوس اس بات کا ہے پچھلے سات ماہ سے پورا کشمیر لاک ڈائون ہے لیکن عالمی برادری بے حسی کی چادر تانے خراٹے لیتی رہی اور مظلوم کشمیریوں کی حالت زار پر کسی نے کوئی توجہ نہ دی آج پورا یورپ امریکا سمیت لاک ڈائون ہے۔ کورونا وائرس شاید اتنا خطرناک نہ ہو لیکن اس کا جو خوف پوری دنیا میں پھیلا دیا گیا اس میں ایسا محسوس ہوتا ہے اس بیماری سے لوگ اتنا نہیں مرے جتنا اس کے خوف سے مررہے ہیں ،کہیں لوگ چھلانگیں مار کر خود کشی کررہے ہیں، کہیں بڑی تعداد میں لوگ ڈیٹول پی کر مررہے ہیں، کہیں کسی کی دوا پی کر مررہے ہیں۔ اس میں تشویش کی بات یہ ہے کہ اس بیماری سے مرنے کے بعد جس طرح پلاسٹک بیگ میں ڈال کر تابوت میں ڈال کر رشتہ داروں کو چہرہ بھی نہیں دکھایا جاتا، میری حکومت سے یہ درخواست ہے کہ وہ اس بیماری سے مرنے والوں کو اسی عزت و احترام سے دفن کرے جس طرح عام مردوں کو دفنایا جاتا ہے، اس کے لیے ڈاکٹروں سے مشورہ کرکے کچھ لوگوں کی اس حوالے سے تربیت کی جائے اور کورونا سے مرنے والوں کو سرکاری طور پر دفنانے کا اہتمام کیا جائے۔
اب ہم تھوڑی سی بات اس مضمون کے عنوان کے حوالے سے کر لیتے ہیں کہ جب سے اس بیماری کے حوالے سے صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے فیصلے سامنے آرہے ہیں عام لوگ اس کی تائید کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تمام لوگ تمام سیاسی جماعتیں اور حکومت ایک صفحے پر آگئے ہیں۔ 2019 کی 27فروری کو پوری قوم ہندوستان کے خلاف ایسی متحد ہو گئی تھی کہ اگر اس وقت حکومت پاکستان یہ اعلان کرتی بھارت سے جنگ کے لیے نوجوان اپنے نام لکھوائیں تو ہر تھانوں کے باہر لوگوں کی لائن لگ جاتی کیونکہ اس دن ہماری فضائیہ کے شاہینوں نے بھارت کے دو جہاز مار گرائے تھے بالکل اسی طرح اس برس اس کورونا نے پورے ملک میں ایک ایسی اتحاد کی فضاء بنادی ہے کہ لوگ ہلکی پھلکی تنقید کے ساتھ بہر حال حکومتی فیصلوں کا ساتھ دے رہے ہیں۔