محمد اقبال
جب سے کورونا نامی وبا نے دنیا میں تہلکہ مچایا ہے انسانیت مسائل میں گھرتی چلی جارہی ہے، اس وبا نے یوں تو سب سے پہلے چین کو اپنا شکار بنایا اور اس کے بعد پوری دنیا اس کی ہیبت کا شکار ہوتی چلی گئی اہل چین نے اپنی فکری صلاحیتوں کے مطابق فوری اس کا حل یہ تلاش کیا کہ جس کو یہ بیماری لاحق ہوئی اس کو تنہائی اختیار کرنے کا مشورہ دیا گیا اور جب عوام نے اس مشورے کو اہمیت نہ دی تو حکومت کی جانب سے لاک ڈاون کی ایک نئی اصطلاح متعارف کرادی گئی ساتھ ہی معلوم ہوا کہ اس وائرس کا اب تک کوئی علاج دریافت نہیں ہوا ہے اور چین نے اس بیماری کا علاج دریافت کرنے کی کوششوں کا بھی آغاز کیا۔ اس بیماری کی تباہ کاری دیکھتے ہوئے دنیا کے دیگر ممالک نے بھی اس بیماری کا علاج دریافت کرنے کی ضرورت کو محسوس کیا عوام چین کے بارے میں جان کر بے چین تھے ہی کہ اچانک سنا گیا سعودی عرب نے خانہ کعبہ اور مسجد نبوی میں بھی احتیاطی تدابیر اختیار کرنا شروع کردی ہیں اس ساتھ خبر ملی کہ ایران میں کورونا بڑی شدت کے ساتھ حملہ آور ہوگیا ایران نے بھی اس صورتحال میں فوری اہل چین کا طریقہ اختیار کرنے ہی کو اہم جانا آہستہ آہستہ پوری دنیا شدت کے ساتھ اس مرض کا شکار ہوتی چلی گئی اور انسانی تدبیریں اختیار کی جانے لگیں اور اس پر زور دیا جانے لگا۔
بحیثیت مسلمان ہمارا یہ ایمان ہونا چاہیے کہ اللہ ہی اس کائنات کا خالق اور مالک اور وہ ہی قضا و قدر کا مالک ہے اور اس نے مناظر اور مظاہر قدرت کے ذریعے انسان کو احساس دلایا کہ وہ اس کی اہمیت اور حیثیت کو جانے اور سمجھے اور سورہ رحمن تو قرآن کریم کی وہ مثالی سورہ مبارکہ ہے جس پروردگار نے اپنی عظمت اور بزرگی کا بارہا احساس دلایا لیکن انسان ہمیشہ ہی ناسمجھی کا مظاہرہ کرتا رہا ہے، کم ظرف انسان نے کبھی یہ سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کہ ربّ تبارک وتعالیٰ نے اس کو پیدا کیوں کیا ہے اور وہ اس سے کیا چاہتا ہے ہاں انسان نے جب کچھ علم حاصل کرلیا تو اپنی علمی بصیرت پر اتنا نازاں ہوا کہ معاملات قدرت پر بھی اپنی عقل ودانش کو اولیت دیتے ہوئے ان کو حل کرنے کی کوشش میں یہ بھول گیا کہ اپنا سر تسلیم خم اس کی بارگاہ میں نہ کیا بلکہ تجاویز پر تجاویز کے انبار لگا دیے اور اس سے مدد نہ مانگی جس نے اس انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کر کے متحرک کردیا۔
جب معاشرہ اپنی مرضی اور منشاء کو اولیت دیتے ہوئے ایک آزاد اور خود مختار راہ کا انتخاب کررہا تھا اور اہل مغرب کی نقالی میں فیشن کے نام پر برائے نام لباس پہن کر مسلم معاشرے میں تبدیلی پیدا کرنے کی کوششیں کررہا تھا تو بارگاہ ربِّ جلیل سے اس کی حکمت کے ذریعے ان کم عقلوں کو پیغا م دیاجارہا تھا کہ تم لاکھ تدبیریں کرلو فیصلے ہمارے ہی صادر ہوتے ہیں اور پھر اس کے کارخانہ قدرت میں ایک ایسا مچھر تیار کردیا گیا جو ڈینگی پھیلا کر انسانیت کو یہ پیغام دے گیا کہ پورا لباس اختیار کرلو اس میں تمہاری بھلائی ہے اور دنیا کے فیشن کے علمبرادروں نے ایسے لباس اختیار کرلیے جس سے ان کا پورا جسم چھپ گیا، لباس تیار کرنے والوں سے کہا جانے لگا کہ پوری آستین کا لباس تیار کرنا ہے خیال رہے کہ آستینیں چھوٹی نہ رہ جائیں آجکل ڈینگی مچھر کی وبا آئی ہوئی ہے اس طرح معاشرے کو اس کا مہذبانہ انداز میسر آگیا۔
بات ابھی پوری طرح سنبھلی نہ تھی کہ ایک بار پھر مغرب کے دلدادا افراد نے اپنے آپ کو منظم کرنے کی کوششوں کا آغاز کیا خود سری ابھی تھمی نہ تھی خود ساختہ دانش مند اور ان کے مصاحبین اپنے مختصر سے علم اور اس کی بصیرت کے سہارے اس کائنات کے نظام کو اپنی مرضی اور منشاء میں ڈھالنا چاہتے کہ قوت پروردگار جوش میں آگئی اور اپنی مرضی اختیار کرنے کی تعلیم دینے والوں کو یہ فکر فراہم کردی کے وہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ سماجی فاصلے اختیار کرو، وہ جو مہذب طرز زندگی اختیار کرنے والوں کو نہ جانے کن کن القابات سے نوازتے تھے، جو پردہ نشین خواتین کہ ساتھ ظلم و زیاتی کرتے تھے ان سے ان کا حق چھین لینا چاہتے تھے آج دنیا ان کے مردوں کو بھی منہ چھپائے دیکھ رہی ہے۔ یہ ہے قوت پروردگار اللہ اکبر۔
ہم پروردگار کی حکمت کو سمجھ ہی نہیں سکے، جب دنیا میں کورونا نے سر اٹھایا اس وقت ہمیں اپنے مذہبی فکر و فلسفے کی آنکھ سے معاملات کا جائزہ لینا چاہیے تھا عقل مند قومیں مشکل حالات میں اپنے صاحباں علم ودانش سے مشورہ لیتی ہیں اہل چین نے بھی اپنے ماہرین سے مشورہ لے کر معاملات سنبھالنے کی کوشش کی لیکن ہمارے ہاں معاملہ دوسرا ہے ہمارا ملک ایک اسلامی نظریاتی ملک ہے اور ہم سب کا یہ ایمان ہے اللہ ہم سب کا حامی اور مددگار ہے وہ ہمارا حاکم اور مالک ہے وہ ہمارے ہر حال کی خبر رکھتا ہے اور وہی ہے جو زندگی بخشتا اور موت سے ہمکنار کرتا ہے، اور سب سے بڑھ کر مسلمانوں کا ایمان ہے وہ بڑی طاقت اور قدرت والا ہے اور دنیا کی ہر شے اس کے قبضۂ قدرت میں ہے، بس یہی ایمان تو ہماری اساس اور ہماری زندگی کا محور اور مرکز ہے ہم اس کے سہارے زندگی کے مشکل سے مشکل مراحل ہنستے کھیلتے پار کرجاتے ہیں۔ اس صورتحال میں ضرورت اس بات کی تھی ہمارے علماء سے رابطہ کیا جاتا ان سے اس مشکل کا حل دریافت کیا جاتا اور پھر بحیثیت مسلمان مکمل ایمان کے ساتھ ملت کا ہر فرد سجدہ ریز ہو کر اپنے رب کے حضور توبہ کرتا برائیوں سے برات کا اعلان کرتا ایمان والی زندگی گزارنے کا عہد کرتا اور اپنے رب سے مدد اور مغفرت مانگتا اور جب کیا چھوٹا اور کیا بڑا کیا حاکم اور کیامحکوم سب اس سے گڑا گڑا کر اس کی امان طلب کرتے تو ہمیں یہ لاک ڈاون کرنے اور مسجدیں بند کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ آج کی صورت حال یہ ہے کم آمدنی والوں اور روز کمانے والوں کے ہاں ہماری نادانی سے فاقوں کی نوبت ہے، امداد کا ڈھنڈھورا ہے اور ضرورت مند محروم ہے، امداد کے لیے جدید طریقے متعارف کرائے جارہے ہیں جن کو استعمال کرنا ہر ایک کے لیے آسان نہیں۔ ہمیں کیا ہوگیا ہے کہ ہمار ے ہاں مسجدیں بند کر کے مزید اللہ کی ناراضی کو دعوت دینے کا سلسلہ جاری ہے، ہم ایک ایسی قوم کی تصویر پیش کر رہے جو فکر و نظر سے عاری دکھائی دیتی ہے۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ خود کے پیدا کیے گئے ان مشکل حالات سے جلد سے جلد چھٹکارا حاصل کرلیں تو ہمیں اپنے آ پ کواپنے رب کی امان میں دینا ہو گا، حاکموں کو اپنے آپ کو محکوم سمجھتے ہوئے اپنا سر اس رب کریم کی چوکھٹ پر جاکر رکھنا ہوگا جہاں سے دنیا کہ لیے رحمت و سلامتی بٹتی ہے ہم کیسے کم ظرف ہیں کہ بھول بیٹھے ہیں کہ ہمارا رب بڑا کریم ہے، بڑا رحیم ہے وہ اپنے بندوں کو مایوس نہیں کرتا وہ تو صرف چاہتا یہی کے اس کے بندے اس کے بندے بن کر اس کی رحمت و عافیت کے طلب گار بن جائیں۔ ہماری تدبیریں اس کی عظمت اور رحمت کے سامنے بیکار ہیں ہمارا علم محدود، ہماری فکر کمزور، ہمارے انتظامات بے بنیاد کیوں کہ ہم اس فکر سے محروم ہوچکے ہیں جو ہمیں اپنے معبود سے ملادیتی ہے، ہمیں تو تعلیم ہے کہ چاہے خوشی ہو یا غم اپنے رب کے حضور ہی مڑ جانا ہے۔ نادانوں اب ہمیں اپنی تدبیروں کو چھوڑ کر اس کے بتائے ہوئے طریقوں کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے ہم تمام مشکلات پر ان شااللہ اس کی مدد سے بھاری پڑجائیں گے۔
اگر ہم آج کے بھی حالات دیکھیں تو اس کے لیے اپنے پروردگار کا بے انتہا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے ہمیں زمانے کی طرح تباہ کاریوں سے محفوظ رکھا ہے۔ اس موقع پر ہمیں سورہ العصر کا بغور مطالعہ کرنا چاہیے جس میں پرودگار نے ارشاد کیا ترجمہ۔ قسم ہے عصر کی بے شک انسان نقصان میںہے سوائے ان لوگوں کے جو حق بات کی تلقین اور صبر کی تاکید کرتے رہے (العصر)
ہماری بڑی بدقسمتی ہے کہ ہمارے ہاں مقتدر طبقات میں اکثر وہی افراد شامل ہیں جو فکر و نظر کی ان صلا حیتوں سے محروم ہیں جو ماضی میں ہمارے حکمرانوں اور صاحبان اقتدار کا کمال رہا ہے، جب ہم تاریخ کی ورق گردانی کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مسلم حکمرانوں نے ہمیشہ کٹھن سے کٹھن معاملات میں دین سے رہنمائی حاصل کی اور کامیابی سے مسائل پر قابو پا لیا نہ معیشت نے انہیں کبھی ڈرایا اور نہ کبھی معاشرت نے کیوں کہ جب کسی بھی معاشرے کے افرد اپنی معاشرت دین کے تابع کر لیتے ہیں تو ان کے ہاں کبھی ایسے مسائل جنم ہی نہیں لیتے کہ سماجی فاصلے کی تعلیم دینا پڑے۔ اسلام دین فطرت ہے اور اس کی تمام تر تعلیمات معاشرتی ضرورتوں کے عین مطابق ہیں، اللہ کے گھر سے پکاری جانے والی اذان پر اگر ہم غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اللہ اپنے بندوں کو بھلائی کے لیے اپنے گھر بلانے کی تعلیم دے رہا ہے ( حئی یا الفلاح کے معنی یہی ہیں کے آئو بھلائی کی طرف۔ تو کیا اس کے گھر جانے والے کبھی بیمار ہوسکتے ہے ہاں اس کے گھر جاکر بیماری سے صحت حاصل کی جاسکتی ہے)
ہماری ملی بدقسمتی ہے کہ ہمارا اپنے دین کے ساتھ رشتہ بڑا کمزور ہے ہمارا دین دار طبقہ جو اللہ اور اس کے رسولؐ کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزار رہا ہے ہمارا سرمایہ ہے یہ انھی کی دعائوں کا طفیل ہے کہ وہ مالک حقیقی سے گڑ گڑا کر زمانہ کی بھلائی اور بہتری کی دعائیں مانگ رہے ہیں اور ہم ہیں کہ ربّ کے ساتھ ساتھ ان افراد کے ساتھ جڑ جانے سے لوگوں کو روک رہے ہیں ارے نادانوں ربّ کعبہ پر بھروسا رکھو توبہ اختیار کرو اپنی اہمیت کو سمجھو تمہیں اس نظام کی دیکھ بھال کی ذمے داری دی ہے اس معبود برحق نے اس نظام میں تبدیلی کا ہرگز تمہیں اختیار نہیں دیا، ڈرو اس کے جاہ وجلال سے اور اس کی پناہ مانگو اسی سے مدد مانگو تمہارا ربّ بڑی کریم ذات ہے، وہ اپنے بندوں کو ہمیشہ اپنا احساس دلاتا ہے کبھی ایسی ہوائیں چلاتا ہے کہ لوگ خوف کا شکار ہو کر اس کی پناہ مانگتے ہیں اور کبھی ایسی بارش برساتا ہے کہ ہر طرف جل تھل کردیتا ہے بجلیاں ایسی کڑکتی ہیںکہ لوگ سہم کرڈر جاتے ہیں اور اس سے مدد اور مغفرت مانگتے ہیں تو اے نادانوں اسی ربّ کریم کی اطاعت اختیار کرلو کیوں کہ اسی میں ہم سب اور اس جہاں کی بھلائی ہے۔ کیا دنیا میں اس سے بڑی بڑی مصیبتیں نہیں آئی ہیں اور کون ہے جس نے ان مصیبتوں سے ہمیں نکالا ہے ہم پھر کیوں بھول جاتے ہیں اپنے حاکم کو جو سب بادشاہوں کا بادشاہ، سب حکیموں سے بڑا حکمت والا اور سب مدد کرنے والوں سے بڑا مدد کرنے والا ہے کون ہے جو اس سے نہیں مانگتا سب ہی چھوٹے بڑے اور سب ہی اقوام اور مذاہب کے لوگ کسی نہ کسی طرح اس سے مانگتے اور اس کی بڑائی بیان کرتے ہیں تو ہم کیوں ادھر ادھر بھٹک رہے ہیں اٹھو وگرنہ حشر نہ ہو گا پھر کبھی دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا۔