اقلیتی کمیشن میں قادیانیوں کی شمولیت؟

848

وفاقی حکومت نے عوام کو الجھائے رکھنے کے نئے نئے طریقے نکال لیے ہیں۔ وفاقی کابینہ میں اس پر بحث ہوئی ہے کہ اقلیتی کمیشن میں قادیانیوں کو بھی شامل کیا جائے۔ گو کہ ابھی اس کا فیصلہ نہیں ہوا ہے لیکن حکومت ایک نیا شوشا چھوڑنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ کیا قادیانی خود کو اقلیت میں شامل سمجھتے ہیں؟ وہ تو صرف خود کو مسلمان اور باقی سب کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتے ہیں۔ جعلی نبی کے جعلی خلیفہ مرزا ناصر محمود کے اسی اعتراف پر قادیانیوں کو دائرہ اسلام سے خارج کیا گیا۔ جعلی نبی تو یہاں تک بڑھ گیا تھا کہ جو اس پر ایمان نہیں لائے وہ کنجری کی اولاد ہیں۔ اور یہ بات غلام قادیانی کی کتابوں میں موجود ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ قادیانی پاکستان کے آئین کو بھی تسلیم نہیں کرتے۔ دیگر اقلیتیں ہندو، سکھ، عیسائی وغیرہ خود کو مسلمان نہیں کہلواتیں جب کہ یہ منکرین ختم نبوت صرف خود کو مسلمان کہتے ہیں۔ پہلے یہ تسلیم تو کریں کہ یہ مسلمان نہیں بلکہ اقلیتی فرقہ ہیں اور اس کے ساتھ ہی آئین پاکستان کو تسلیم کریں۔ کچھ عرصہ پہلے ایک پاکستانی صوفی محمد نے پاکستان کے آئین کو تسلیم کرنے سے انکار کیا تو انہیں غدار قرار دیا گیا۔ پھر قادیانیوں کو بھی غدار کیوں نہ قرار دیا جائے۔ پاکستان کا آئین انہیں دائرہ اسلام سے خارج کر چکا ہے تو اب موجودہ حکومت کو کیا تکلیف ہے کہ اقلیتی کمیشن یا کسی بھی قسم کے آئینی کمیشن میں شامل کیا جائے۔ عمران خان اس سے پہلے بھی ایک قادیانی کو اہم منصب پر لانے کی کوشش کر چکے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ ان کی محبت بڑھتی جا رہی ہے۔ شاید وہ یہ سمجھتے ہیں کہ قادیانیوں کو سر پر بٹھانے سے یورپ و امریکا میں ان کی وقعت بڑھ جائے گی۔ ایسا نہیں ہوگا۔ قادیانی اسلام اور پاکستان کے دشمن بھی ہیں۔ اسرائیل میں ان کے اہم مراکز قائم ہیں۔ بھارتی وزیراعظم مودی جب اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو سے ملنے گیا تھا تو اس موقع پر قادیانیوں نے بھی اس کا استقبال کیا تھا۔ کرتار پور راہداری کھولنے کا ایک مقصد قادیان کے رہنے والوں کو فائدہ پہنچانا بھی ہو سکتا ہے۔ ان کو اقلیتی کمیشن میں شامل کرنا آئین پاکستان سے کھلواڑ اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی ناراضی کا سبب بن سکتا ہے۔ کیا عمران خان خود سوچنے سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے؟