ڈاکٹر سید محبوب
کائنات اللہ کی، زمین اللہ کی، اس میں موجود خزانے اللہ کے، زمین پر موجود وسائل اللہ کی امانت، مرضی بھی اس کی، ہماری جان، مال، ہماری صلاحیتیں، سب کچھ اللہ کی اور مرضی بھی اُسی کی۔ جب بھی جہاں بھی انسان نے اللہ کی مرضی کو نظر انداز کرکے اپنی مرضی کرنے کی کوشش کی وہ شدید گمراہی میں مبتلا ہوا، اس نے ٹھوکر کھائی۔ 2020ء عجیب تبدیلیوں کا سال ہے۔ یہ سال عالمی طاقتوں کے تکبر کے بت پاش پاش ہونے کا سال ہے۔ امریکا 19 سال تک دنیا کے ایک انتہائی چھوٹے سے ملک کے چند ہزار سرپھرے لوگوں سے 39 ممالک کی بھرپور مدد، دنیا کی جدید ترین ٹیکنالوجی، سیٹلائٹ، میزائل، ڈرونز، وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار، دنیا بھر کا میڈیا پروپیگنڈے کے انتہائی موثر ہتھیار کے طور پر استعمال کرائے گئے۔ 840 ارب ڈالر، 15 ہزار امریکی فوجی، 8 ہزار ناٹو اور اتحادی ملکوں کے فوجی ساڑھے 3 لاکھ افغان فوجی اور عالمی سرمائے کی مدد کے باوجود بھی افغانستان کے صرف 40 فی صد علاقے پر اپنی کٹھ پتلیوں کی عملداری کروا سکے اور بالآخر انہیں افغان سربراہوں کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر امن کی التجا کرنے پر مجبور ہوئے جنہیں دہشت گرد، شدت پسند، وحشی اور امن دشمن قرار دیتے رہے۔
ہم نے 2020ء میں کورونا کی صورت میں انسانی ترقی، ٹیکنالوجی، میڈیکل سائنس کو بے بس ہوتے دیکھا۔ موجودہ صدی کے آغاز میں پورے زور و شور سے دنیا بھر کو بتایا گیا کہ اب عالمی دیہہ یعنی گلوبل ولیج کا دور ہے۔ ٹیکنالوجی نے فاصلے سمیٹ دیے ہیں، دنیا بھر کے انسان ایک دوسرے کے قریب آگئے ہیں۔ لیکن صرف 19 سال بعد دنیا گلوبل ولیج کے بجائے عالمی صحرا دکھائی دے رہی ہے۔ آزاد تجارت تو ٹرمپ نے پہلے ہی زنجیروں میں جکڑ کر اسے پابند کردیا تھا۔ کورونا کے ڈر سے دنیا کے 195 ممالک نے اپنی سرحدیں بند کردیں۔ مقبوضہ کشمیر میں ٹرمپ کے منظور نظر مودی نے جب لاک ڈائون کیا تو مظلوم، مجبور کشمیریوں کی فریاد پر کسی نے کان نہ دھرا۔ مظلوم کشمیری خواتین کی چیخ و پکار پر کسی نے توجہ نہیں دی۔ آج دنیا کے پالیسی ساز، عالمی سامراجی وڈیرے، خود بھی تنہائی کا شکار ہیں۔ جب کہ چند ماہ پہلے تک ان عالمی وڈیروں کی جو تابعداری کرنے سے انکار کردیتا تھا اسے ’’عالمی تنہائی‘‘ کی سزا دی جاتی تھی۔ اب وہ خود ’’عالمی تنہائی‘‘ کا شکار ہوچکے ہیں۔
کورونا وائرس سے اب تک 25 لاکھ (شائع ہونے تک یہ تعداد بڑھ چکی ہوگی) سے زائد افراد متاثر ہوچکے ہیں جب کہ ہلاک شدگان کی تعداد 2 لاکھ (شائع ہونے تک بڑھ چکی ہوگی) سے زائد ہے۔ سب سے زیادہ افراد یورپ میں متاثر ہوئے۔ جب کہ خالی اٹلی میں 10 ہزار سے زائد افراد اس موذی مرض سے انتقال کرچکے ہیں۔ کورونا نے عالمی حیثیت اور سرمایہ داری کے ستونوں کو لرزہ دیا ہے۔
عالمی حصص مارکیٹ میں ایک ہزار ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری ڈوب گئی۔ دنیا کی بڑی اسٹاک مارکیٹس بشمول فٹسے، ڈائو جوئز گرگئی ہیں، نکئی 28.7 فی صد، ڈائو جونز 31.11 فی صد، فٹسے 34.110 فی صد تک نیچے آئیں۔ ڈائو جونز اور فٹسے نے 1987ء سے اب تک یعنی 33 سال سب سے بڑی گراوٹ کا مظاہرہ کیا ہے۔ صنعتی اور ترقی یافتہ ممالک کے سرمایہ داروں اور صنعت کاروں کو ڈر ہے کہ معاشی ترقی اپنی بدترین سطح پر آسکتی ہے اور حکومت کے اس پستی کو روکنے کے لیے اقدامات موثر نہیں ہوسکیں گے۔ دنیا کے پچاس سے زائد ممالک نے معیشت کو سہارا دینے کے لیے شرح سود میں کمی کردی ہے۔ ٹریول انڈسٹری بری طرح تباہ ہوچکی ہے۔ دنیا کی تقریباً تمام ہی قابل ذکر ہوائی کمپنیوں نے اپنی پروازیں معطل کردی ہیں، سیاحوں کی آمد و رفت ختم ہوچکی ہے۔ دنیا کے سو سے زائد ممالک نے سفری پابندیاں عائد کردیں۔ یورپی یونین نے بلاک سے باہر ممالک کے داخلے پر 30 دنوں تک پابندی عائد کردی ہے اور اپنی سرحدیں بند کردی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 48 ہزار 2 سو سے زائد پروازیں اور ایک کروڑ سے زائد مسافروں نے اپنا سفر ملتوی کیا۔ سب سے زیادہ برے اثرات ائر فرانس پر پڑے۔ امریکا میں ٹرمپ حکومت نے یورپی یونین کے لوگوں کی آمد و رفت پر پابندی عائد کردی۔ دنیا کے بڑے ہوٹلز کا کاروبار تباہ ہوچکا ہے۔ برطانیہ میں ہوٹل بکنگ 82 فی صد، امریکا میں 84 فی صد، آئر لینڈ میں 86 فی صد، جرمنی 90 فی صد، کینیڈا میں 94 فی صد گر گئی ہے۔ کورونا وائرس سے معاشی سرگرمیاں تو بُری طرح متاثر ہوئی ہیں تاہم فضائی آلودگی میں نمایاں کمی آئی ہے۔ چین جہاں سب سے پہلے اس وبا نے تباہی پھیلائی، چینی حکومت، عوام، طبی عملے، میڈیا اور دانشوروں نے ایک قوم ہو کر اس وبا کا مقابلہ کیا اور اسے کافی حد تک کنٹرول کرنے میں کامیاب رہے۔ اٹلی، اسپین، ایران اور امریکا اس وبا سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ امریکا اس وبا سے متاثر ہونے والے ممالک میں سرفہرست آگیا ہے۔ امریکا کے بعد اٹلی میں سب سے زیادہ متاثرین ہیں۔
پاکستان میں بھی 15 ہزار سے زائد افراد متاثر ہوچکے ہیں۔ کورونا نے پاکستانی معیشت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں روپیہ کم ترین سطح پر آکر 166.15 روپے کا ہوگیا ہے۔ قرضوں میں مزید اربوں روپے کا اضافہ ہوگیا ہے۔ حکومت آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے مزید قرضے حاصل کرنے کا پروگرام بنا رہی ہے۔ بیروزگاری کا سونامی منہ پھاڑے سامنے کھڑا ہے۔ گزشتہ 15 ماہ میں پاکستان کے قرضے میں 40 فی صد سے زائد اضافہ ہوچکا ہے جو قرضوں کی آئینی حدود 60 فی صد سے تجاوز کرکے 85 فی صد تک جا پہنچا ہے جب کہ حکومتی قرضے جی ڈی پی کے ریکارڈ 77 فی صد تک پہنچ چکے ہیں۔