نیب قوانین میں ترمیم کی بے چینی کیوں؟

523

نیب کے پر کاٹنے کی خبریں عام ہو رہی ہیں۔ ایک خبر آئی کہ چیئرمین نیب سے گرفتاری کا اختیار واپس لیا جا رہا ہے۔ اس خبر میں مجوزہ ترمیمی آرڈیننس کا پورا مسودہ ہے۔ جبکہ وزیراعظم کے معاون خصوصی شہزاد اکبر کہتے ہیں کہ نیب آرڈیننس کا ترمیمی مسودہ تیار ہی نہیں ہوا تو آ کہاں سے گیا۔ وزیر قانون فروغ نسیم کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر پورے کا پورا جعلی مسودہ کیسے آگیا۔ مسئلہ یہ ہے کہ حکومتیں سارے کام چھپ چھپا کر کرتی ہیں چنانچہ جب فیصلہ آجاتا ہے تو واپس نہیں لیا جاسکتا۔ اب چوری چھپے کوئی ان کی سازشوں یا منصوبوں کو لیک کر دیتا ہے اس میں آدھا سچ آدھا جھوٹ بھی ڈال دیا جاتا ہے تو حکمران ناراض ہوتے ہیں لیکن اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ حکومت نیب کے اختیارات کم کرنا چاہتی ہے۔ اپنی تردید میں بھی حکومتی نمائندوں نے نیب کے نئے قانون کی تیاری کا اعتراف کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ قانون میں ایسا کیا سقم ہے کہ پارلیمنٹ کے اجلاس کا انتظار بھی نہیں کیا جا رہا اور اس قسم کی بحثیں سامنے آرہی ہیں، آخر نیب کے چیئرمین یا ادارے کے اختیارات سے حکومت کو کیا پریشانی ہے۔ جو چیز سامنے آئی ہے وہ تو یہ ہے کہ چیئرمین نیب سے گرفتاری کا اختیار واپس لیا جائے گا ایک دلچسپ تجویز بھی ہے کہ 50 کروڑ سے کم کی کرپشن پر نیب کارروائی نہیں کرے گا۔ پانچ سال پرانے کھاتے کھولنا بھی ممکن نہ ہوگا۔ اس کے علاوہ ملزمان کو 90 روز حراست میں رکھنے اور کسی مقام کو سب جیل قرار دینے کا اختیار بھی واپس لے لیا جائے گا۔ اس طرح ضمنی ریفرنس بھی دائر نہیں کیا جا سکے گا۔ ایک اور دلچسپ شق یہ ہے کہ کرپٹ لوگوں کو پلی بارگین کی اجازت رہے گی۔ ایک وزیر نے کہا کہ نیب قوانین میں تبدیلی کی خبر درست ہے لیکن مسودہ جعلی ہے۔ اس مسودے کو جعلی تسلیم کر لیا جائے تو بھی یہ سوال اپنی جگہ برقرار ہے کہ نیب قوانین اور چیئرمین نیب کے اختیارات سے حکومت کو کیا تکلیف ہے۔ یہ بھی تسلیم کر لیا جائے کہ ابھی فیصلہ نہیں ہوا اور مسودہ تیار نہیں ہوا ہے تو بھی اس سے تو کوئی انکار نہیں کر رہا کہ حکومت نیب قوانین تبدیل کرنا چاہتی ہے۔ جو چیزیں سامنے آ رہی ہیں ان سے تو لگتا ہے کہ کچھ خاص شخصیات کو گرفتاری سے بچانے کے لیے ایسی تجاویز سامنے لائی گئی ہیں۔ 50 کروڑ سے کم کی شرط بھی احمقانہ ہے۔ بلکہ کرپشن کرنے والوں کو باقاعدہ حد سے آگاہ کر دیا گیا ہے کہ 49 کروڑ کی کرپشن کرلو تو نیب سے بچ جائو گے۔ ویسے نیب کو جو اختیارات دیئے گئے تھے لامحدود دنوں کے لیے کسی کو حراست میں رکھنا، خبر ملتے ہی یا رپورٹ درج ہوتے ہی گرفتاری وغیرہ کے مقام کو سب جیل قرار دینا ایسے معاملات ہیں جو قابل اعتراض تو تھے ہی سیشن کورٹ، سٹی کورٹ، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کی موجودگی میں ایک اور عدالت نیب عدالت بن گئی۔ پولیس، ایف آئی اے اور دیگر ایجنسیوں کی موجودگی میں نیب کو بھی گرفتاری کا اختیار دے دیا گیا۔ اس سے ان اداروں پر عدم اعتماد کا تاثر ابھرتا ہے۔ یقیناً نیب کے لامحدود اختیارات میں توازن ہونا چاہیے لیکن پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ حکومت ایسے موقع پر نیب کے اختیارات میں تبدیلی کرنے کی باتیں کیوں کر رہی ہے جب اس کے دو تین اہم وزرا اور حامی کرپشن کے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت اس طرح کچھ لوگوں کو گرفتاری اور سزائوں سے بچانا چاہتی ہے۔ اسی طرح پلی بارگین برقرار رکھنے کی باتیں بھی ایسی ہیں کہ جو نیب کے پورے فلسفے کے خلاف ہے۔ اگر احتساب کیا جا رہا ہے تو صرف دس فیصد رقم دے کر کرپٹ آدمی آزادی کے مزے لوٹتا ہے، غائب بھی ہو جاتا ہے اور مزید کرپشن بھی کرتا ہے۔ اسے احتساب تو نہیں کہا جاسکتا۔ وفاقی وزیر اسد عمر دو تین روز قبل واضح الفاظ میں کہہ چکے ہیں کہ نیب کے قوانین میں ترمیم کی جا رہی ہے۔ دراصل وفاقی حکومت اور اپوزیشن رہنمائوں میں بھی کئی دن نیب قوانین زیر بحث رہے ہیں۔ اس معاملے میں چونکہ دونوں ایک ہی پیج پر ہیں اس لیے وہ ایسے قوانین تبدیل کرنا چاہتے ہیں جن سے آج کی حکومت کے کل اپوزیشن میں آنے سے اسے نقصان ہو یا موجودہ اپوزیشن بھی ایک خاص حد سے زیادہ لپیٹ میں نہ آئے۔ گزشتہ 18 ماہ سے تو احتساب کے نام پر سیاست ہو رہی ہے۔ احتساب کے لیے تو پارلیمنٹ سے بہتر کوئی ادارہ نہیں تھا لیکن رفتہ رفتہ پارلیمنٹ کو ربر اسٹیمپ سے بھی بدتر بنا دیا گیا ہے۔ ارکان پارلیمنٹ کو کچھ پتا ہی نہیں ہوتا کہ انہیں کرنا کیا ہے۔ انگوٹھا چھاپنے آتے ہیں اور تنخواہیں اور مراعات سمیٹ کر چلے جاتے ہیں۔ عوامی مسائل کے حل کی کوئی بات اسمبلیوں میں قانون نہیں بنتی بس تقریریں ہوتی ہیں۔اس وقت پوری دُنیا کی طرح پاکستان کو بھی سب سے بڑا مسئلہ کورونا وائرس اور اس کے نتیجے میں بے روزگاری، غربت اور افلاس کا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنی تمام توانائیاں اور وسائل ان سے نمٹنے پر صرف کریں، بعد میں جو چاہیں کریں۔ کبھی 18 ویں ترمیم، کبھی نیب کے ناخن کترنے اور پر کاٹنے کی تدابیر، کیا یہ وقت ان باتوں کا ہے۔ کورونا وائرس اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل سے نمٹنے کے لیے پوری قوم کو متحد کرنے کی ضرورت ہے اور یہ ذمے داری حکومت پر عاید ہوتی ہے لیکن طرح طرح کے اختلافی معاملات سامنے لا کر افتراق پیدا کیا جا رہا ہے۔ نیب قانون میں مجوزہ ترمیم سے اب ایک نئی بحث چھڑ جائے گی۔