نقش قدم

216

وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ ٹائیگر فورس کو سیاسی مسئلہ نہ بنایا جائے اسے کوئی فنڈ وغیرہ نہیں دیے جائیں گے۔ کورونا وائرس نے مسمریزم کی طرح دماغوں پر قبضہ جما لیا ہے۔ عام آدمی ہو یا سیاست دان سبھی کورونا وائرس کی لپیٹ میں ہیں۔ کوئی سیاست کے بارے میں نہیں سوچ رہا ہے مگر عمران خان کی کارکردگی سیاسی سوچ کے دریچے وا کر دیتی ہے۔ عمران خان کو اپنے کتے ٹائیگر سے کتنی محبت ہے وہ اہل وطن سے ڈھکی چھپی نہیں وہ بارہا اس کا اعتراف بھی کر چکے ہیں۔ ٹائیگر فورس کا قیام بھی اسی محبت کا مظہر ہے۔ خان صاحب اپنے کتے کے نام پر ایک فورس کا قیام معرض وجود میں لا چکے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اس معاملے میں سیاست نہ کی جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ ٹائیگر فورس کے قیام کا مقصد صرف یہ ہے کہ یہ فورس گھر گھر جا کر خوراک مہیا کرے گی۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے پاس ایسے ادارے موجود ہیں جوہر خاندان کے بارے میں ہر طرح کی معلومات رکھتے ہیں۔ محکمہ ڈاک، محکمہ صحت کے ویکسی نیٹر اور ہیلتھ ورکر یہ کام اچھی طرح سر انجام دے سکتے ہیں تو پھر ٹائیگر فورس کی کیا ضرورت ہے۔ محکمہ صحت سے متعلق ٹی وی چینل پر آ کر حکومت کی ترجمانی کرتے ہیں۔ وزیر صحت یاسمین راشد کا کہنا ہے کہ پینا ڈول کی گولی کورونا وائرس پر قابو پا لیتی ہے۔ المیہ یہی ہے کہ مختصر طبقہ کرو۔۔۔نا کہو وائرس میں مبتلا ہے۔ ہیلتھ ور کرز گھر گھر جا کر ویکسی نیشن کرتے ہیں مگر کاغذی کارروائی کے سوا کچھ نہیں کرتے۔ پینا ڈول کی گولیاں اور سیرپ دیں تو بہت حد تک کورونا کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ عمران خان کی ٹائیگر فورس دم ہلانے کے سوا کچھ نہیں کرے گی۔ اگر یہ فورس رضا کاروں پر مشتمل ہے تو پولیس کے بھی رضا کار ہوتے ہیں اور جو کچھ کرتے ہیں اس سے سبھی واقف ہیں۔ بھٹو مرحوم نے بھی فیڈرل سیکو رٹی فورس بنائی تھی اور شیخ مجیب الرحمن نے بھی مکتی باہنی کے نام سے فورس بنائی تھی مگر بھٹو کی فورس اور شیخ مجیب کی فورس نے جو دہشت گردی کی وہ تاریخ کا بدترین باب ہے۔ تاج نما وائرس نے بڑے بڑے تاجداروں کے تاج اچھال دیے ہیں۔ ہماری معیشت کو بھی گھن کی طرح چاٹ رہا ہے مگر حقیقت یہ بھی ہے کہ ہماری معیشت کو پہلے ہی دیمک لگ چکی تھی رہی سہی کسر کورونا وائرس نے پوری کر دی۔ ڈوبتی کشتی پر کوئی سوار نہیں ہوتا اس لیے وزیر اعظم عمران خان عدت کی طرح اپنے مدت پوری کریں گے اور معیشت کی تباہی کا سارا ملبہ کورونا وائرس پر گرا کر دھوبی کے چاند سے بیٹے بن جائیں گے۔ اسپتال جائیں تو وہاں مریض کو اچھوت سمجھا جاتا ہے۔ بہاولپور وکٹوریہ اسپتال میں امراض قلب اور ذہنی امراض کے شعبوں کے سوا سب بند ہیں، سوال یہ ہے کہ لاکھوں مریضوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے پوری قوم کو کیوں ذلیل کیا جا رہا ہے۔