پاکستانی جمہوریت

521

مغربی جمہوریت کی ’’اصل‘‘ بھی خراب ہے اور ’’نسل‘‘ بھی خراب ہے۔ مگر پاکستانی جمہوریت کا معاملہ اور بھی سنگین ہے۔ پاکستانی جمہوریت کی ’’اصل‘‘ بھی خراب ہے۔ ’’نسل‘‘ بھی خراب ہے، اور ’’عقل‘‘ بھی خراب ہے۔
جمہوریت کی تعریف یہ ہے کہ عوامی حکومت، عوام کے ذریعے اور عوام کے لیے ہوتی ہے۔ مگر پاکستان میں جمہوریت پہلے دن سے امریکا مرکز ہے۔ امریکا چاہتا ہے تو ملک میں مارشل لا آجاتا ہے۔ امریکا چاہتا ہے تو جمہوریت بحال ہوجاتی ہے۔ امریکا چاہتا ہے تو انتخابات ہوجاتے ہیں۔ امریکا چاہتا ہے تو انتخابات نہیں ہوتے۔ یہ امریکا کا ایجنڈا ہے کہ پاکستان کی جمہوریت پر سیکولر اور لبرل عناصر کا غلبہ رہے اور حد تو یہ ہے کہ جرنیلوں اور سیاست دانوں کے درمیان معاہدے ہوتے ہیں تو ان میں بھی امریکا کا کردار بنیادی ہوتا ہے۔ امریکا کی سابق وزیرخارجہ کونڈا لیزا رائس نے جنہیں اینا کونڈا لیزا رائس بھی کہا جاتا تھا اپنی تصنیف No Higher Honour میں لکھا ہے کہ انہوں نے جنرل پرویز مشرف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان این آر او کرایا۔ ظاہر ہے کہ جو جمہوریت اتنی ’’امریکا مرکز‘‘ ہو اس کی ’’اصل‘‘ ٹھیک ہوسکتی ہے نہ نسل ٹھیک ہوسکتی ہے۔ یہاں تک کہ اس کی ’’عقل‘‘ بھی ٹھیک نہیں ہوسکتی۔
پاکستانی جمہوریت ایک سطح پر امریکا مرکز ہے تو دوسری سطح پر ’’اسٹیبلشمنٹ مرکز‘‘ ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ہمارے جرنیل بھٹو ’’تخلیق‘‘ کرتے ہیں۔ ہمارے جرنیل نواز شریف ’’ایجاد‘‘ کرتے ہیں۔ ہمارے جرنیل الطاف حسین ’’وضع‘‘ کرتے ہیں۔ یہ تو ہماری سیاست کے چند نام ہیں ورنہ ملک کی کوئی جماعت ایسی نہیں جس میں ’’جنرل مارکہ‘‘ سیاست دان نہ پائے جاتے ہوں۔ یہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے کہ ہمارے سیاست دان ’’Made in GHQ‘‘ ہونے پر فخر کرتے ہیں۔ ہمارے جرنیل صرف سیاست دان پیدا کرنے والا کارخانہ ہی نہیں چلاتے وہ سیاسی جماعتیں بھی ’’خلق‘‘ کرتے ہیں۔ جنرل ایوب سیاست، سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں کے سخت خلاف تھے مگر انہوں نے کنونشن لیگ ایجاد کی۔ جنرل ضیا الحق کو سیاسی جماعتوں کے نام سے بھی چڑ تھی مگر انہوں نے ملک و قوم کو ’’جونیجو لیگ‘‘ کا تحفہ دیا۔ جنرل پرویز کو سیاسی جماعت ایک آنکھ نہ بھائی تھی مگر انہوں نے ملک و قوم کے سر پہ ق لیگ مسلط کی۔ دنیا کے اکثر ملکوں میں انتخابات میں دھاندلی ہوتی ہے مگر یہ دھاندلی آٹے میں نمک کے برابر ہوتی ہے مگر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ بہت ’’Creative‘‘ ہے۔ چناںچہ وہ نمک میں آٹے کے برابر دھاندلی کی راہ ہموار کرتی ہے۔ یہ ایک مشہور زمانہ بات ہے کہ جنرل یحییٰ نے 1970ء کے انتخابات میں کوئی دھاندلی نہیں کی لیکن یہ رائے جتنی مشہور ہے اس سے زیادہ غلط ہے۔ 1971ء میں آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل بریگیڈیئر صدیقی نے کچھ سال پہلے جیو نیوز کو ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ جنرل یحییٰ اور سابق مشرقی پاکستان کے ممتاز سیاست دان مولانا بھاشانی کے درمیان ایک معاہدہ ہوگیا تھا۔ اس معاہدے کے تحت مولانا بھاشانی کی جماعت کو دیہی مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب کی پارٹی کے خلاف انتخابات میں حصہ لینا تھا۔ اس سلسلے میں جنرل یحییٰ نے مرحوم بھاشانی کو 2 کروڑ روپے دینے کا وعدہ کیا تھا۔ مگر بریگیڈیئر صدیقی کے بقول اس معاہدے پر اس لیے عمل نہ ہوسکا کہ بقول ان کے جنرل یحییٰ ملک توڑنے کا فیصلہ کرچکا تھا۔ بعض جرنیلوں نے اپنی کتابوں میں یہ بات بھی لکھی ہے کہ جنرل یحییٰ نے 1970ء کے انتخابات میں شیخ مجیب اور ان کی عوامی لیگ کو دھاندلی سے روکنے کی رتی برابر بھی کوشش نہ کی۔ سوال یہ ہے کہ جو جمہوریت اتنی ’’اسٹیبلشمنٹ مرکز‘‘ ہو اس کی اصل، نسل اور عقل ٹھیک کیسے ہوسکتی ہے؟۔
جمہوری سیاست شخصی، خاندانی اور موروثی سیاست کی ضد ہے مگر پاکستان کی پوری سیاست پر شخصیات یا خاندانوں اور موروثیت کا غلبہ ہے۔ پیپلز پارٹی بھٹو خاندان کا موزہ ہے۔ نواز لیگ شریف خاندان کا جوتا ہے۔ ایم کیو ایم الطاف حسین کی ’’ملکیت‘‘ ہے۔ پی ٹی آئی اس وقت تک زندہ رہے گی جب تک عمران خان اس کے سربراہ رہیں گے۔ دنیا بھر میں سیاسی جماعتوں کے ’’نظریات‘‘ ہوتے ہیں۔ کوئی دائیں بازو کی جماعت ہوتی ہے۔ کوئی بائیں بازو کی جماعت ہوتی ہے۔ کوئی کمیونسٹ پارٹی ہوتی ہے۔ کوئی اسلام پسند جماعت کہلاتی ہے۔ مگر پیپلز پارٹی کا نظریہ اب صرف ’’سندھیت‘‘ ہے۔ نواز لیگ کا نظریہ صرف ’’پنجابیت‘‘ ہے۔ ایم کیو ایم کا نظریہ صرف ’’مہاجریت‘‘ ہے۔ اے این پی کا نظریہ صرف ’’پشتونیت‘‘ ہے۔ اس منظرنامے میں جمہوریت کی اصل، نسل اور عقل کیسے ٹھیک ہوسکتی ہے؟ دنیا بھر کی تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ جو جماعتیں لسانیت یا صوبائیت کی سیاست کرتی ہیں وہ اپنے ’’لسانی‘‘ یا ’’صوبائی‘‘ ہونے کا ’’اعتراف‘‘ کرتی ہیں۔ مگر نواز لیگ اور پیپلز پارٹی میں یہ اخلاقی جرأت بھی نہیں ہے کہ وہ کھل کر کہیں ہم ’’پاکستانیت‘‘ پر نہیں صرف ’’پنجابیت‘‘ اور ’’سندھیت‘‘ پر یقین رکھتے ہیں۔
پاکستانی جمہوریت کا ایک چہرہ وہ بھی ہے جو دی نیوز کی ایک خبر میں پوری طرح آشکار ہے۔ 22 اپریل 2020ء کے دی نیوز میں موجود خبر کے مطابق ملک کے 96فی صد عوام نے کہا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا کے دوران کسی منتخب نمائندے نے ان کی کوئی مدد نہیں کی۔ عام حالات میں سب اپنے اپنے مفادات، معاملات اور معمولات سے چمٹے رہتے ہیں مگر کسی آفت کی صورت میں بہت سے ’’شیطان‘‘ بھی ’’انسان‘‘ بن جاتے ہیں۔ وہ دامے، درمے، قدمے، سخنے زلزلے، سیلاب یا کسی اور آفت سے متاثرہ افراد کی مدد کرتے ہیں مگر مذکورہ خبر بتارہی ہے کہ ہمارے منتخب نمائندے شیاطین سے بھی آگے کی چیز ہیں۔ ایسا نہ ہوتا تو ملک کے پچیس تیس فی صد لوگ یہ ضرور کہتے کہ کورونا کی وبا کے دوران ہماری منتخب نمائندوں نے مدد کی ہے۔ جیسا کہ ظاہر ہے یہ صرف ’’انفرادی‘‘ معاملہ نہیں بلکہ یہ ’’اجتماعی‘‘ معاملہ بھی ہے اس لیے کہ اس خبر سے ظاہر ہے کہ ملک کی بڑی جماعتیں یعنی نواز لیگ، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کے منتخب نمائندوں نے جماعتی سطح پر بھی کورونا کے دوران قوم کی کوئی خدمت اور کوئی مدد نہیں کی۔ ہم اخبارات سے آپ کو ایسے سیکڑوں بیانات نکال کر دکھا سکتے ہیں جن میں نواز لیگ، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کے رہنمائوں نے اپنی جماعتوں کو ’’بڑی پارٹی‘‘ کہا ہے۔ مگر ہماری یہ نام نہاد ’’بڑی پارٹیاں‘‘ مشکل حالات میں ’’تانگہ پارٹیاں‘‘ بھی ثابت نہیں ہوتیں۔ ملک میں زلزلہ آیا نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کو کہیں متاثرہ علاقوں میں قوم کی خدمت یا مدد کرتے نہیں دیکھا گیا۔ سندھ میں دو سال سیلاب آیا مگر نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کو کہیں جماعت کی حیثیت سے سیلاب سے متاثرہ افراد کی مدد کے لیے بروئے کار آتے نہ دیکھا جاسکا۔ اب کورونا نے کروڑوں لوگوں کی معاشی زندگی کو اتھیل پتھل کردیا ہے لیکن ملک کے 96 فی صد عوام کہہ رہے ہیں کہ کسی بڑی سیاسی جماعت کا منتخب نمائندہ ان کی مدد کو نہیں آیا۔ اتفاق سے نواز لیگ، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کھرب پتیوں اور ارب پتیوں کی جماعتیں ہیں۔ آپ کل ملک میں انتخابات کا اعلان کرادیں نواز لیگ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کا ایک ایک انتخابی امیدوار اپنے الیکشن پر کروڑوں اور اربوں روپے لٹا دے گا۔ ایک خبر کے مطابق نواز لیگ اور تحریک انصاف نے گزشتہ انتخابات میں صرف ٹی وی کی اشتہاری مہم پر دس دس ارب روپے صرف کیے مگر آج ملک و قوم کورونا وبا کی زد میں ہیں لیکن نواز لیگ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف متاثرہ افراد کو چار آنے دینے کی روادار نہیں۔ یہاں تک کہ ان کے منتخب نمائندے بھی عوام کی مدد کے لیے کچھ نہیں کررہے۔ یہ ہے ہماری بڑی سیاسی جماعتوں کی ’’سیاست‘‘ یہ ہے ہماری بڑی جماعتوں کی ’’جمہوریت‘‘۔ یہ ہے ہماری بڑی جماعتوں کی ’’حب الوطنی‘‘۔ یہ ہے ہماری بڑی جماعتوں کی ’’عوام دوستی‘‘۔ اس صورت حال کے باوجود آخر وہ کون لوگ ہیں جو نواز شریف زندہ باد کے نعرے لگاتے ہیں۔ جو جئے بھٹو کے نعرے پر رقص کرتے ہیں۔ کیا ایسے لوگوں کا سرے سے کوئی ضمیر ہی نہیں؟ کیا ایسے لوگوں کی کوئی اخلاقیات ہی نہیں؟ کیا ایسے لوگوں کی کوئی ’’اسلامیت‘‘ ہی نہیں؟ کیا ایسے لوگوں میں کوئی ’’پاکستانیت‘‘ ہی نہیں۔ ان حقائق سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ پاکستانی جمہوریت کی اصل بھی خراب ہے، نسل بھی خراب ہے اور عقل بھی خراب ہے۔ کہنے کو جماعت اسلامی ایک چھوٹی سی جماعت ہے مگر وہ کورونا کی وبا کے دوران قوم کی جو خدمت کررہی ہے اس سے ثابت ہے کہ جماعت ہی ملک کی سب سے بڑی جماعت ہے۔