لاک ڈائون نہیں، اسٹیپ ڈائون

399

دُنیا بھر میں کورونا سے مقابلے یا بچائو کے لیے لاک ڈائون کا طریقہ اختیار کیا گیا۔ چین میں لاک ڈائون کی سب سے زیادہ سخت اور شدید ترین شکل دیکھنے میں آئی۔ جو جہاں تھا اسے وہیں بند کر دیا گیا، کسی کی ایک نہ سنی گئی۔ امریکا، یورپی ممالک، پاکستان، مشترق وسطیٰ وغیرہ میں رفتہ رفتہ لاک ڈائون کا طریقہ اختیار کیا گیا لیکن لاک ڈائون جس چیز کو کہتے ہیں وہ چین اور کچھ یورپی ممالک خصوصاً جرمنی، فرانس وغیرہ نے اختیار کیا۔ باقی دُنیا بھر میں جو کچھ ہوا وہ لاک ڈائون کے نام پر ڈرامے بازی ہی رہی۔ پاکستانی حکمران بھلا اس ڈرامے بازی سے الگ کیوں رہتے چنانچہ بیماری سے خوف، بیمار سے نفرت کی پالیسی اختیار کی گئی۔ ٹی وی، اخبارات اور حکمران سب کی زبان پر یہی ہے کہ باہر نکلو گے تو مر جائو گے کسی کے قریب بھی نہ جانا۔ مسجدوں کو خصوصی نشانہ بنایا گیا اور سندھ میں تو گزشتہ پانچ جمعوں سے نماز جمعہ پر پابندی کا اعلان کیا جا رہا ہے۔ ایک تاثر یہ ہے کہ سندھ میں سخت ترین لاک ڈائون ہے جس کے اچھے اثرات ہو رہے ہیں۔ ایک دن وزیراعلیٰ اطلاع دیتے ہیں کہ سندھ میں کیسز کم ہو رہے ہیں صرف 18 وینٹی لیٹرز زیر استعمال ہونے کی اطلاع دی جاتی ہے لیکن اگلے روز پھر کہتے ہیں کہ سندھ میں سب سے زیادہ تباہی ہے۔ تو پھر لاک ڈائون کا کیا فائدہ۔ اسی لاک ڈائون کے سخت، نرم، اسمارٹ وغیرہ ہونے کے معاملے پر وفاق اور صوبہ سندھ میں ایک زبانی جنگ جاری ہے۔ ایک جانب سے سندھ کو طعنہ دیا جاتا ہے دوسری جانب سے جواب میں وفاق کو ذمے دار قرار دیا جاتا ہے۔ اب وزیراعظم عمران خان نے نیا شوشا چھوڑا ہے کہ لاک ڈائون اشرافیہ نے کرایا، اگر صرف غریب کورونا کا شکار ہوتے تو اتنی تیزی نہ دکھائی جاتی۔ دُنیا کے مقابلے میں پاکستان کے حالات بہتر ہیں۔ عمران خان نے حکومت سندھ کو بھی آڑے ہاتھوں لیا کہ سب سے زیادہ امدادی رقم سندھ کو دی گئی۔ پانی کے گڑھے میں ڈوب کر مرنے والے بچوں کی کسی کو فکر نہیں۔ ایک ہی دن میں دو ذمے داران نے اپنی اپنی ناکامی کا کھلم کھلا اعتراف کر لیا ہے۔ وزیراعظم خود اشرافیہ کے نمائندے ہیں ان کا رہنا سہنا ان کا طرز زندگی بھی اشرافیہ جیسا ہے ان کے انداز بھی وہی ہیں۔ وزیراعظم وہ ہیں اور لاک ڈائون اشرافیہ نے کروایا۔ یہ اشرافیہ کون ہے جو وزیراعظم سے زیادہ طاقتور ہے۔ وزیراعظم نے یہ بات کہہ کر اپنی ناکامی کا اعتراف کر لیا ہے پہلے کسی مافیا پر الزام ڈالتے رہے ہیں۔ دوسری طرف سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے جمعہ کو اپنی ناکامی کا اعتراف یہ کہتے ہوئے کیا کہ کورونا سندھ میں تباہی پھیلا رہا ہے۔ تو پھر جناب مراد علی شاہ، مساجد، نماز جمعہ، تراویح، مذہبی جلسے، تبلیغی جماعت کے خلاف کارروائیاں کس لیے کیں۔ مرکزی حکومت کی ضد میں لاک ڈائون جاری رکھنے کے اعلانات کیے جا رہے ہیں۔ ابھی تک قوم اس جادو کو نہیں سمجھ سکی کہ تین روز میں اربوں روپے کس طرح تقسیم کر دیے گئے۔ یہ بات جس نے بھی کہی درست کہی کہ پیپلز پارٹی اسی طرح مال تقسیم کرتی ہے کہ ایک ہاتھ سے دیتی ہے تو دوسرے ہاتھ کو پتا نہیں چلتا۔ جب ہی نیب والے اب تک شوگر ملوں، آٹا چکی وغیرہ کی ملوں میں گھسے ہوئے ہیں۔ انہیں پتا ہی نہیں چلا کہ کس ہاتھ سے کس نے کس کو کتنا مال دیا۔ سب ٹھکانے لگ گیا ہے۔ لاک ڈائون کے نتائج میں سب سے اہم اور بڑا نتیجہ تو یہ ہے کہ ملک کا غریب طبقہ، روزانہ کام کرنے والا مزدور پس کر رہ گیا ہے۔ بیروزگاری الگ بڑھ رہی ہے۔ جس لاک ڈائون کا ذکر کیا جا رہا ہے وہ صرف چین میں ہوا اور 28 روز میں اسے ختم کر دیا گیا۔ آج چین کے پارک، صنعتیں، بازاروں میں ہر قسم کی سرگرمی شروع ہو چکی ہے اور پاکستان میں دو ماہ کے لاک ڈائون کے باوجود تجارتی سرگرمیوں، دکانوں اور کاروبار پر پابندی ہے۔ اس طویل پابندی کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ایک تو بیروزگاری بے انتہا بڑھے گی جو بڑھ چکی۔ دوسرا نقصان یہ ہوگا کہ جب شدید دبائو کے بعد کاروبار کھولا جائے گا تو سڑکوں، بازاروں ہر جگہ شدید رش ہوگا اور احتیاط کے سارے بندھن ٹوٹ جائیں گے۔ جن نام نہاد ایس او پیز کا صرف مساجد اور مذہبی اجتماعات پر سختی سے اطلاق کیا جا رہا تھا وہ بے معنی ہو جائیں گی، کوئی بھی نہیں روک سکے گا۔ مرکزی حکومت اور سندھ حکومت نے کورونا اور لاک ڈائون پر جتنی سیاست کی ہے اتنی تو اپنی پارٹی کے منشور پر نہیں کی ہوگی۔ سندھ میں وزیر کم پڑ گئے، مشیروں سے اس معاملے پر بات کروائی جا رہی ہے۔ وفاق میں معاون خصوصی ہلکی پڑنے لگیں تو مکمل وزیر اطلاعات کا تقرر کر دیا گیا تاکہ وہ سندھ کو بھرپور جواب دے۔ دونوں ذمے داران کی خدمت میں عرض ہے کہ نیچے مزدور طبقہ پس چکا۔ جو لوگ روزانہ کام تلاش کرنے اور مل جانے پر گزارہ کرنے، نہ ملنے پر اگلے دن کا انتظار کرتے تھے انہیں مہینے میں پندرہ سے بیس روز کام ملتا تھا۔ اب دو ماہ سے بیروزگار ہیں۔ دکانوں پر کام کرنے والے یومیہ اجرت والے دکانیں بند ہونے کی وجہ سے بیروزگار ہیں۔ چھوٹے چھوٹے کیبن، چھوٹی چھوٹی دکانوں والے بیروزگار ہیں، صنعتی اداروں نے ایک ماہ تو تنخواہ دے دی اگلے ماہ کے بارے میں متنبہ کیا ہے کہ کام کے بغیر مسلسل تنخواہیں نہیں دے سکتے۔ حکومت انہیں کارکنوں کو بیروزگار نہ کرنے کی ہدایت ضرور کر رہی ہے لیکن ایسے لاک ڈائون اور ایسی پابندیوں کا ساری دُنیا میں یہی نتیجہ نکل رہا ہے کہ لوگ بیروزگار کیے جا رہے ہیں۔ پیٹرول پمپ، ٹرانسپورٹ وغیرہ سب بند ہے اور ہر جگہ کام کرنے والے بیروزگار ہو رہے ہیں۔ وزیراعظم اسمارٹ اور خوبصورت لاک ڈائون کی اصطلاح چھوڑیں اور وزیراعلیٰ سندھ دو قوانین کا نفاذ چھوڑیں۔ سندھ کے اندر گندم کی کٹائی میں ایس او پیز کا کوئی خیال نہیں رکھا جا رہا وہاں بیماری بھی نہیں پھیل رہی۔ کراچی میں دکانیں کھلنے سے بیماریاں پھیل جائیں گی۔ صنعتی پیسہ چلنے سے بیماریاں پھیلیں گی۔ اس وقت پاکستان میں مسائل کی جڑ سندھ اور مرکز کے حکمران ہیں، ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی میں مصروف ہیں اور لاک ڈائون کی آڑ لی ہوئی ہے۔ اب تو دونوں حکمرانوں نے اپنی نااہلی اور ناکامی کا برملا اعتراف کر لیا ہے۔ اب ان کے سامنے ایک ہی راستہ ہے۔ لاک ڈائون نہیں اسٹیپ ڈائون۔ ملک کی معیشت کا بیڑا غرق ہو چکا ہے۔ بھارت کشمیر کو ہڑپ کیے جا رہا ہے اور یہاں اقلیتی کمیشن میں قادیانیوں کو شامل کرنے کی بے چینی ہے۔