حالات و واقعات بتارہے ہیں کہ شیخ رشید سیاست سے سبک دوش ہونے والے ہیں۔ موصوف نے وزارت اعلیٰ سے مایوس ہوکر اعلیٰ حضرت بننے کی تیاری کر لی ہے۔ ہر معاملے کے حل ہونے پر شیخ جی فرماتے ہیں یہ میرے دم کا اثر ہے ورنہ کالی قوتیں اسے اپنے حصار میں لینے والی تھیں۔ گزشتہ دنوں موصوف نے ریلوے ہیڈ کوارٹر میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا شہباز شریف کا پاکستان میں کوئی مستقبل نہیں وہ اب تک گرفتار ہوچکے ہوتے مگر میں نے ایسا تیر ہدف پڑھا کہ وہ گرفتار ہونے سے بچ گئے مگر کب تک؟ کسی بھی دن جیل یاترا یا لندن جاسکتے ہیں۔ اعلیٰ حضرت شیخ رشید نے فرمایا کہ وزیر اعظم عمران خان کسی کو نہیں چھوڑے گا۔ شاید موصوف نے چھوڑے اور چھیڑنے کی ذمے داری لے رکھی ہے۔ چینی آٹا کے بحران میں اپنے قریبی دوست جہانگیر ترین کو نہیں چھوڑا تو دوسرے کس کھیت کی مولی ہیں۔ جہانگیر ترین نے ایسی خبروں کو افواہیں قرار دیا ہے ان کا کہنا ہے کہ عمران خان کے ساتھی ہیں ہمارے درمیان اختلاف کی افواہیں پھیلائی جارہی ہیں۔
نیب ترجمان کا کہنا ہے کہ17اپریل 2002 کو شہباز شریف کو گرفتار کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ صرف چند سوالات کے مفصل اور جامع جوابات درکار تھے اور جہاں تک شیخ رشید کے دم کا تعلق ہے نیب پر کسی جنتر منتر کو کوئی اثر نہیں ہوتا جو لوگ کرسی کے حصار میں ہوں ان کی طرف کالی شکتیاں آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتی۔ نیب کا کہنا ہے کہ ہر کاروائی آئین اور قانون اور شواہد کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ نیب کے ترجمان نے گزارش کی ہے براہ کرم نیب کی بنیاد پر سیاست نہ کی جائے تو بہتر ہوگا۔ نیب ایک قومی ادارہ ہے جس کے افسروں کا تعلق کسی سیاسی جماعت یا گروہ سے نہیں، ان کی وابستگی صرف اور صرف ریاست پاکستان سے ہے۔ ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ نیب کو شیخ رشید کے دم سے کیا پریشانی ہے۔ وہ ایسے بیانات دے کر اپنا دل پشوری کرتے ہیں۔ تو لاہور کے محل وقوع اور جغرافیہ پر کوئی اثر نہیں پڑ سکتا۔ شیخ رشید کی سیاسی زندگی پر نظر ڈالی جائے تو احساس ہوتا ہے کہ شیخ صاحب نے کبھی سیاست نہیں کی۔ پہلے وہ چھیڑ چھاڑ کیا کرتے تھے اب پیش گوئی کے نام پر چھوڑ رہے ہیں۔ محترمہ بے نظیر کے بارے میں جو کچھ کہا کرتے تھے وہ سیاسی تاریخ کا حصہ ہے اور قوم یہ بھی نہیں بھول سکتی کہ میاں شہباز شریف کو اپنا پارٹی کا آدمی کہا کرتے تھے۔ تازہ بیان کے مطابق شہباز شریف کا سیاسی مستقبل ختم ہوگیا ہے۔ ان کی قسمت میں جیل یاترا یا لندن یاترا کے سوا کچھ نہیں گویا بین السطور یہ کہا گیا ہے کہ شیر جی کی پارٹی ختم ہو گئی ہے اور جہاں تک جہانگیر ترین کا تعلق ہے وہ واضح الفاظ میں کہہ چکے ہیں کہ عمران خان ان کے لیڈر ہیں وہ کبھی تحریک انصاف کا ساتھ نہیں چھوڑ سکتے۔ نیب کے ترجمان نے بھی وضاحت کر دی ہے کہ اکسویں صدی میں جنتر منتر کرنے والی کی عقل کا ماتم کیا جا سکتا ہے مگر اس امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ سیاست کی بنیاد امکانات پر رکھی جاتی ہے جو امکانات کے بین السطور کا ماہر ہو وہی کامیاب اور شاد کام ہوتا ہے سیاست اس کے گھر کی لونڈی بن جاتی ہے اور جمہوریت خانہ زاد۔