اپنے دائرے میں کون ہے؟؟

143

پاکستان میں بیش تر ادارے اس بات کے شاکی ہیں کہ تمام ادارے اپنے دائرے میں نہیں رہتے اور ایک دوسرے کے امور میں مداخلت کرتے ہیں۔ ایک آدھ مرتبہ فوج کی جانب سے بھی اشارہ دیا گیا ہے۔ مختلف چیف جسٹس صاحبان بھی متنبہ کر چکے ہیں کہ تمام ادارے حدود میں رہیں۔ امیر جماعت
اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق بھی اس حوالے سے تمام اداروں اور سیاست دانوں کو متنبہ کر چکے ہیں کہ ایک دوسرے کے دائرے میں مداخلت نہ کی جائے۔ لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ عدلیہ، سیاست دان، فوج اور دیگر ادارے اپنے اپنے دائروں سے باہر مداخلت بھی کرتے ہیں اور آئین و قانون سے ماورآ باتیں بھی کر جاتے ہیں۔ تازہ ترین بات پاک فوج کے ترجمان نے کی ہے۔ کہتے ہیں کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت سے متعلق قیاس آرائیاں نہ کی جائیں موقف دیا جا چکا ہے تبدیلی ہوئی تو مطلع کریں گے۔ تقریباً تمام ہی اخبارات نے لیڈ، سپر لیڈ یا 4 کالمی خبر شائع کی اور بات آئی گئی ہوگئی۔ لیکن کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ محترم ترجمان صاحب آرمی چیف کی مدت ملازمت کے حوالے سے فیصلہ نہ تو فوج کرتی ہے اور نہ خود آرمی چیف یا ان کے ترجمان۔ اس کا ایک طریقہ کار آئین میں درج ہے اس کے مطابق ہی فیصلہ ہوتا ہے۔ جہاں تک تبدیلی ہوئی تو ہم بتائیں گے کا تعلق ہے تو اسے کیا سمجھا جائے؟؟ محض یہ سمجھ لیا جائے کہ یہ ایسا ہی بیان تھا جیسا دوسرے دیتے ہیں۔ یا یہ سمجھا جائے کہ تبدیلی ہوئی تو ہم بتائیں گے کہ اب آرمی چیف توسیع لے لیں گے یا یہ کہ کوئی بڑا اقدام کرکے حکومت کو چلتا کریں گے اور ترجمان صاحب بتائیں گے کہ یہ تبدیلی تھی۔ ایسا تو نہیں ہے طاقت، قوت، عالمی سطح پر پزیرائی، یا ملکی سطح پر مقبولیت کے باوجود کسی بھی آرمی چیف کے تقرر، مدت میں توسیع اور نئے آرمی چیف کا تقرر ایک طریقہ کار کے تحت ہوتا ہے۔ خیر فوج پر براہ راست زیادہ تبصرے کی ضرورت نہیں۔
رینجرز کے ڈی جی نے اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں اچانک ایک بات کہہ دی کہ کوٹا سسٹم ختم کریا جانا چاہیے اس سے دیہی و شہری میں نفرتیں جنم لے رہی تھیں تفریق پیدا ہو رہی تھی۔ حیرت ہے انہیں 40 سال بعد پتا چلا۔ خیر پتا چل گیا تو یہ کیوں نہیں پتا تھا کہ کوٹا سسٹم کو آئینی تحفظ حاصل ہے اس کے لیے پارلیمنٹ جانا ہوگا۔ ایپکس کمیٹی یا وزیر اعلیٰ کچھ نہیں کرسکتے۔ اور پارلیمنٹ میں متحدہ نے مسلسل 28 سال موجودگی کے باوجود اس مسئلے کو حل نہیں کیا۔ اب تو معاملات کوٹا سسٹم سے آگے کے ہیں۔ پاکستان میں غیر ملکی مداخلت اس قدر ہے کہ اب تو بھارت کے اشارے پر بلوچستان، وزیرستان اور کراچی میں بدامنی ہو جاتی ہے۔ امریکی مفادات موجود ہیں چینی مفادات آچکے ہیں افغان ایجنٹ موجود ہیں۔ پاکستان، امریکی جنگ سے نکلے یا کوٹا سسٹم کے خاتمے جیسے مسائل حل کرے۔ بہرحال ڈی جی رینجرز بھی وہی بات کی جو ترجمان نے کی تھی۔ یعنی آئین اور دستوری طریقہ کار سے بالا بالا فیصلے کی بات۔ عمران خان اور طاہر القادری کسی عدالتی عمل کے بغیر نواز شریف کو سزا دلوانا چاہتے ہیں۔ چلیں ان کو چھوڑیں عدلیہ میں ایک درخواست زیر سماعت ہے اس پر تبصرہ ہے کہ وسیم اختر جیل سے کس طرح معاملات چلا سکتے ہیں۔ اب عدلیہ سے کسی نے یہ تو پوچھا نہیں کہ معاملات جیل سے چلائے جاسکتے ہیں یا نہیں۔ یہ کہا گیا ہے کہ وسیم اختر جرائم میں ملوث ہیں ان کے میئر کے الیکشن کو کالعدم قرار دیا جائے لیکن عدالت جیل سے میئر شپ چلانے کے مسئلے پر سوال کر رہی ہے۔ کیوں۔۔۔ بتا دیں کہ وسیم اختر مجرم ہیں یا نہیں۔ اور جہاں تک جیل سے میئر شپ چلانے کا تعلق ہے تو یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے، جیل میں بیٹھ کر غیر قانونی طور پر کراچی انڈر ورلڈ پر حکمرانی کی جاسکتی ہے۔ جیل سے نکل کر رات کو اہم تعمیراتی منصوبوں کے مالکان کے گھروں پر پہنچ کر وصولی کی جاسکتی ہے۔ جیل میں رہتے ہوئے بھتوں کا نظام چلایا جاسکتا ہے تو کسی آفس کے بغیر جیل میں رہتے ہوئے میئر شپ بھی چلائی جاسکتی ہے۔ بس ہر فائل جیل حکام دیکھیں گے۔ تو اس میں کون سی مشکل ہے۔ دیکھنے دیں ان کو ویسے بھی فائل پر تو کچھ غلط نہیں لکھا جاتا۔ چوں کہ اوپر کی سطح پر اپنے دائرے سے باہر باتیں دیکھی جاتی ہیں تو نیچے کی سطح پر بھی یہ کام شروع ہوگیا۔ اب ڈائریکٹر اینٹی کرپشن احتساب کے بجائے فیصلے پہلے سنانے لگے ہیں یا کم از کم ایک اخبار کی خبر سے تو ایسا ہی لگتا ہے۔ جس میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ انٹر بورڈ میں ساری خرابی دو ہی افراد کے سبب ہے۔ لیکن نہ جانے کیوں غلام قادر تھیبو نے تحقیقات سے قبل فیصلہ سنا دیا کہ عمران چشتی اور اختر غوری کو ہٹائے بغیر تحقیقات نہیں ہوسکتیں۔ ممکن ہے اس خبر میں اخبار کی شرارت زیادہ ہو۔ لیکن تھیبو صاحب دو دن سے تو اس خبر پر کچھ نہیں بولے۔ اور نیچے چلیں تو سابق وزیر بلدیات اور موجودہ اسپیکر آغا سراج 8 برس سے بلدیہ کی دو گاڑیاں استعمال میں رکھے ہوئے ہیں اور نیچے چلیں تو بلدیہ کراچی کے افسران ریٹائرمنٹ کے بعد بھی گاڑیاں لے جاتے ہیں۔ یہ سلسلہ نیچے سے نیچے چلتا ہوا عوام تک پہنچ رہا ہے پھر سارا شہر رانگ سائڈ کیوں نہ جائے۔