غیظ سے بھرے مگر لنگڑے جملہ ہائے تیموریہ

169

امریکا کے باب میں ہمارا وہی حال ہے جو مرچوں کے گودام سے باہر آنے پر ہوتا ہے۔ انسان کئی کئی دن تک چھینکتا رہتا ہے۔ ہر بات کے ساتھ ناک اور آنکھوں سے سلسل�ۂ اخراج آب جاری رہتا ہے۔ ہم دہشت گردی کی چرخی تھامے کھڑے ہیں عشق کے پیچ بھارت سے لڑرہے ہیں۔ کوئی تنہائی سی تنہائی ہے۔
پھر ہری بیلوں کے نیچے بیٹھنا شام و سحر
پھر وہی خواب تمنا پھر وہی دیوار و در
آج کل ہمارے حکمران ردعمل میں جی رہے ہیں۔ امریکا کے حوالے سے ہر بات سے یوں لگتا ہے جیسے آج ہی کشف ہوا ہے۔ ہر بات انتہائی وثوق سے، ہر بات رعب ڈالنے کی غرض سے۔ یکم ستمبر کو سپہ سالار اعظم نے کہا ملکی سلامتی پر آخری حد سے بھی آگے جائیں گے۔ مودی ہو، را یا کوئی اور، دشمن کی چالوں کو سمجھ چکے ہیں۔ اسی روز فوج کے ترجمان نے ایک پریس بریفنگ میں کہا افغان خفیہ ایجنسی این ڈی ایس اور بھارتی انٹیلی جنس ادارے را کے گٹھ جوڑ اور پاکستان میں ان کی سر گرمیوں پر گہری نظر ہے۔ را کے افسر کل بھوشن یادو کی گرفتاری پاکستان میں بھارتی مداخلت کا کھلا ثبوت ہے۔ یہ مداخلت پہلے بھی تھی اور اب بھی ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف کا ارشاد ہے دہشت گردی کی دم بھی جلد ختم ہوجائے گی۔ ان جملہ ہائے تیموریہ کی ادائیگی کے اگلے ہی روز مردان میں کچہری میں خودکش دھماکا ہوگیا۔ 14افراد شہید 54 زخمی۔ اسی روز کرسچین کالونی میں بھی حملہ ہوا۔ چار دہشت گرد ہلاک اور دو اہل کار جاں بحق۔ دہشت گرد ہمارے حکمرانوں کے بیانات کا مقابلہ پُرفتن دھماکوں سے کرتے ہیں۔ مجال ہے ذرا رعب میں آجائیں۔
پاکستان میں دہشت گردی ہو یا دنیا میں کوئی اور عالمی تنازع اس کے پس منظر میں امریکا موجود ہے۔ 2001ء خطہ میں امریکا کی آمدکے بعد دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں پاکستان کے تقریباً سات ہزار فوجی شہید ہوچکے ہیں جب کہ 60ہزار عام پاکستانی اپنی جانیں گنوا چکے ہیں اور مالی نقصان کا تو کیا کہنا، اربوں ڈالرز۔ لیکن ان تمام قربانیوں کا صلہ یہ ہے کہ دہشت گردی کے ہر واقعہ پر امریکا پاکستان کا پیپر ویٹ اس طرح رکھتا ہے جیسے دنیا بھر میں دہشت گردی کے تمام فتنے پاکستان میں دبے ہیں۔ پاکستان ہی دہشت گردی کا مرکز ومنبع ہے۔ مجال ہے پاکستان کے ساتھ دہشت گردی کا ذکر نہ ہو اور اس دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستان سے ڈومور کا مطالبہ نہ ہو۔ تالیف قلب کے لیے پاکستان کو باتوں سے بہلانے کا عمل بھی جاری رہتا ہے۔ پاکستان کی قربانیوں کا ذکر بھی ضمناً کردیا جاتا ہے۔ امریکا کے وزیر خارجہ کو دہلی میں جاکر خبر ملتی ہے، موصوف فرماتے ہیں ’’پاکستان دہشت گردی کے خلاف دیگر اقوام کی کوششوں میں شامل ہوگیا ہے‘‘۔ ان سے کوئی پوچھے کہ حضور پاکستان کب دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شامل نہیں تھا اور دیگر اقوام میں کون ہے جس نے اس جنگ میں پاکستان سے بڑھ کر قربانیاں دی ہیں۔ پہلے ہی دن سے پاکستان ان کوششوں میں عملاً شامل ہے اور قربانیوں میں سب سے آگے۔
خطہ میں جو تبدیلیاں ہو رہی ہیں ان میں اب امریکا پاکستان کا حلیف نہیں حریف ہے۔ پاکستان نہیں اب بھارت امریکا کا اتحادی ہی نہیں بلکہ فطری اتحادی ہے۔ جان کیری نے دورہ بھارت میں بھارت سے کچھ زیادہ ہی گرم جوشی کا اظہار کیا ہے۔ ان ہی دنوں بھارتی وزیر خارجہ منوہر پاریکر بھی امریکا کے دورے پر تھے۔ ان دو طرفہ دوروں میں امریکا اور بھارت میں جو کچھ کہا گیا جن معاہدوں پر دستخط کیے گئے بالواسطہ اور بلاواسطہ ان کا ہدف پاکستان ہے چاہے وہ دونوں ممالک کے درمیان زمینی، بحری اور فضائی اڈے استعمال کرنے کا معاہدہ ہویا امریکا کے تعاون سے بھارت کا چار بحری بیڑے تیار کرنے کا معاملہ۔ اڈوں کے معاہدے پر روسی خبر رساں ادارے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت امریکا کے ساتھ اسٹرٹیجک تعاون کے تحت اپنی سر زمین پر امریکی فوج کو اڈے فراہم کرکے اپنے بھارتی عوام کو سماجی انتشار سے دوچار کررہا ہے۔ امریکا اس معاہدے کے تحت بحرہ ہند اور بحر الکاہل میں اپنی 60فی صد بحری قوت تعینات کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ ایک امکان یہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ شاید بھارتی پارلیمنٹ اس معاہدے کی توثیق نہ کرے کیوں کہ اس معاہدے کے تحت بھارت امریکی فورسز کو اپنی سرزمین پر اڈے فراہم کرنے کا پابند ہے۔ لیکن غالب امکان یہی ہے کہ بھارتی پارلیمنٹ اس کی توثیق کردے گی کیوں کہ پاکستان دشمنی میں بھارت کی حکومت، اپوزیشن اور میڈیا سب ایک ہیں۔
اب بھارت امریکا کو اور امریکا بھارت کو پاکستان کے خلاف استعمال کررہا ہے۔ امریکا بھارت کو فوجی ساز وسامان کا سب سے بڑا برآمدکنندہ ہے اور 2007 سے اب تک چودہ ارب ڈالر کے معاہدے کر چکا ہے اور سب سے زیادہ فوجی مشقیں بھی بھارت کے ساتھ کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ امریکا نے بھارت کو اپنا اہم فوجی اتحادی قرار دے رکھا ہے۔ اس حیثیت سے بھارت امریکا سے ایسی فوجی ٹیکنالوجی حاصل کر سکتا ہے جو اب تک اس کے پاس نہیں ہے۔ بھارت اور امریکا کے درمیان بڑھتے ہو ئے فوجی تعلقات کو چین دشمنی پر محمول کیا جاتا ہے لیکن بھارت کے لیے چین نہیں پاکستان کا وجود ناقابل برداشت ہے اور امریکا کا ہدف ایک ایسا بے بال و پر پاکستان ہے جو بھارت کا حقیر طفیلی سیارہ ہو۔
امریکا اور پاکستان کے مفادات کا تصادم نئی بات نہیں۔ 1965کی جنگ کے دوران اسلحے کی پابندی ہو یا 1971 میں امریکا کے ساتویں بحری ۔
(باقی صفحہ 11 بقیہ نمبر 1)
بیڑے کی آمد کا معاملہ، F16طیاروں کی رقم وصول کرکے بدلے میں جلا دینے کے قابل گندم دینے کی پیشکش ہو یا پھر پاکستان کے جوہری پروگرام کی بے حد وحساب مخالفت، نائن الیون کے معاملے میں پاکستان کے بال بھر ملوث نہ ہونے کے باوجود امریکا کا پاکستان کو تباہ کرنے کی حقیقت اور اس کے باوجود ڈو مور کا مسلسل اور متواتر مطالبہ، امریکا پاکستان کا بھارت سے بڑھ کر دشمن ہے اور اس نے بھارت سے بڑھ کر پاکستان کو نقصان پہنچایا ہے۔ اور اب امریکا بھارت اور افغانستان کے ساتھ مل کر اگلے ماہ مذاکرات کا انعقاد کرہا ہے۔ کن مقاصد کے تحت۔ کیا طالبان کو مذاکرات کی میز تک لانے کے لیے۔ اس کے لیے تو امریکا، چین، پاکستان اور افغانستان پر مشتمل چار فریقی میکنزم موجود ہے۔ افغانستان کے سیاسی اور معاشی مسائل کے حل کے لیے استنبول پراسس اور ہارٹ آف ایشیا جیسے پلیٹ فارم موجود ہیں۔ پھر ان سرگرمیوں کا نشانہ کون ہے۔ یقیناصرف اور صرف پاکستان۔ بھارت، امریکا اور افغانستان کس ایجنڈے پر جمع ہو رہے ہیں۔
یہ وقت ہے کہ ہم اپنی پالیسیوں اور مستقبل کی حکمت عملی کو تو سیع دیں۔ چین، روس اور دیگر علاقائی طاقتوں کے ساتھ مل کر اپنے دفاع میں نیا پلیٹ فارم تشکیل دیں تاکہ امریکا کو بھی ہماری اہمیت کا احساس ہو۔ ہر دھماکے کے بعد صرف بھارت کی مذمت اور اسے الزام دینا کافی نہیں۔ یہ ایک نامکمل عمل ہے۔ جب آپ یہ کہتے ہیں کہ بھارت پاکستان کے خلاف افغانستان کی سر زمین استعمال کر رہا ہے تو بھارت کو پاکستان کے خلاف افغانستان کی سر زمین استعمال کرنے کی اجا زت کس نے دی۔ کس نے بھارت کو افغانستان میں لا کر بٹھایا ہے۔ امریکا بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کو کمزور کررہا ہے۔ ہم بھڑکی ہوئی آگ پر پانی تو ڈال رہے ہیں لیکن جو گیس لائن آگ بھڑکانے کا سبب ہے اسے بند کرنا تو درکنار اس کی نشان دہی کرنے کی جرات بھی نہیں کرتے۔ پھر یہ آگ کیسے بجھے گی، یہ دھماکے کیسے بند ہوں گے۔ تر جمانوں کے بیانات اور آگاہی کی دھمکیوں سے تو یہ دھماکے بند نہیں ہوسکتے۔