ڈاکٹر رضوان الحسن انصاری
کورونا وائرس کی وبا کے باعث ملک بھر میں لاک ڈائون چل رہا ہے اس سے بدحال، نڈھال اور لہولہان پاکستانی عوام کو ایک خوشی کی خبر ملی ہے اور وہ یہ کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مجموعی طور پر 35 فی صد کمی کردی گئی ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ پٹرول کی قیمت میں 15 روپے کمی کی گئی ہے جب کہ اوگرا نے 20 روپے کی سفارش کی تھی اور اب یہ 81.58 روپے فی لیٹر ہوگیا ہے۔ اسی طرح ڈیزل میں 27 روپے کمی کی گئی ہے جب کہ اس کے لیے سفارش 34 روپے کم کرنے کی تھی اور فی لیٹر ڈیزل 82.13 روپے کا ملے گا۔ اسی طرح مٹی کا تیل میں 30 روپے کی کمی کی گئی ہے اور اس کے لیے اوگرا نے 44 روپے کم کرنے کی سفارش کی تھی اور اب یہ عوام کو 47.44 روپے فی لیٹر کے حساب سے دستیاب ہوگا۔ گویا حکومت کو عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت 30 فی صد کم ہوگئی ہے اور خام تیل مارچ کے بعد اپریل کے مہینے میں 27 ڈالر سے 20 ڈالر فی بیرل ہوگیا ہے۔ اس بڑی کمی کی وجہ سے 100 روپے کی کمی کرنا تھی وہ 70 روپے کی کمی ہے اور 30 روپے اپنی جیب میں رکھ لیے ہیں۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت کو اپنے ریونیو بھی تو بڑھانے ہیں۔ ریونیو حاصل کرنے کے تمام ذرائع تجارت، صنعت، مالیات اور تعمیرات سب لاک ڈائون کا شکار ہیں۔ ریونیو کے ذریعے حاصل ہونے والی آمدنی میں شدید کمی ہوگئی ہے جب کہ اخراجات میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔ چناںچہ سال 2019-20 کا مالی خسارہ جی ڈی پی کا 4.6 فی صد ہوسکتا ہے جب کہ یہ زیادہ سے زیادہ 4 سے 5 فی صد تک ہونا چاہیے۔ اسی طرح سعودی عرب اور اماراتی ریاستوں سے آنے والے ترسیلاب زر میں کمی ہوگئی ہے اس کے ساتھ ساتھ ایکسپورٹ آرڈر رکے ہوئے ہیں۔ چناں چہ ان دونوں ذرائع سے امریکی ڈالرز کا حصول کم ہوگیا ہے ایسے میں عالمی مارکیٹ میں خام تیل کے نرخ گرجانے سے پاکستان کا امپورٹ بل 4 سے 5 ارب ڈالر کم ہونا معیشت کو سہارا دینے کے مترادف ہے۔
حکومت کے لیے اس سے زیادہ اہم معاملہ ملکی معیشت کو اٹھانا ہے۔ جس میں زراعت کا حصہ 23 فی صد، صنعتی شعبہ 17 فی صد اور سروس کا شعبہ 60 فی صد ہے۔ موجودہ حالات میں پاکستانی زراعت زیادہ متاثر نہیں ہوئی لیکن سروسز جس میں ریٹیل، ہول سیل، ٹرانسپورٹیشن، کمیونیکیشن، مالیاتی ادارے، تعلیمی ادارے اور اسپتال و ڈسپنسریاں شامل ہیں بری طرح متاثر ہوئے۔ اسی طرح صنعتی شعبے میں آٹو موبائل، اسٹیٹ، اسٹیل، ٹیکسٹائل، الیکٹرونکس وغیرہ منفی گروتھ میں چلے گئے ہیں صرف فوڈ پروسسنگ انڈسٹری جس میں تمام کھانے پینے کی اشیا شامل ہیں وہ بہت کم متاثر ہوئی۔
ایسے میں اسٹیٹ بینک کی طرف سے چھوٹے تاجروں اور صنعت کاروں کے لیے کم شرح سود سے قرضوں کا اجرا ایک خوش آئند قدم ہے۔ مگر اس میں دیکھنا ہے کہ قرض فراہم کرنے والے بینک اس پر کتنا عمل کرتے ہیں۔ اسی طرح ڈیزل اور پٹرول کی قیمتوں میں نمایاں کمی سے ٹرانسپورٹ کے اخراجات میں کمی آتی ہے جس سے پیداواری لاگت گرجاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں مہنگائی میں کمی آنی چاہیے۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ ماضی میں جیسے ہی ڈیزل کی قیمت بڑھتی ہے تو ٹرانسپورٹرز فوراً کرایے بڑھانے کا اعلان کردیتے ہیں اب اس موقع پر پٹرول اور ڈیزل میں نمایاں کمی ہوئی ہے حکومت کو ہر سطح پر قیمتوں میں کمی کے اقدامات کرنا چاہئیں تا کہ غربت سے مارے عوام کو کچھ ریلیف مل سکے۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ ابھی تک ان منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کو کوئی سزا نہ ملی جنہوں نے چند ماہ پہلے آٹا اور چینی کا بحران پیدا کرکے قیمتیں آسمان تک پہنچادی تھیں اور کروڑوں روپے کمائے تھے، پہلے خبر ملی کہ 25 اپریل تک فرانزک رپورٹ آنے پر کارروائی ہوگی اب اس کو مزید تین ہفتے کا وقت دے دیا گیا ہے جس میں بے نامی ٹرانزیکشن، پاور پلانٹس، منی لانڈرنگ اور غیر رجسٹرڈ خریداراوں کو بھی شامل تفتیش و تحقیق کرلیا گیا۔ مگر یہ سارا وسیع اور طویل سلسلہ ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے ہیں یا ان کو بچانے کے لیے۔ ابھی شکوک و شبہات کی وجہ یہ ہے اور تمام کردار ابھی تک وزارتوں کی کرسیوں اور اعلیٰ عہدوں پر بھی فائز ہیں اور اہم میٹنگز میں بھی شریک ہورہے ہیں ایسے میں لگتا ہے یہ سارا سلسلہ معاملے پر مٹی ڈالنے کے لیے ہے۔