ایک اور پنڈورا باکس

500

سابق معاون خصوصی برائے اطلاعات اور وزیراعظم کی ترجمان فردوس عاشق اعوان پی ٹی آئی میں اپنے تمام عرصہ ملازمت میں سابق وزیراعظم نوآز شریف پر طنز کرتی رہیں کہ نااہل قرار دیے جانے کے بعد وہ یہی رونا روتے رہے کہ مجھے کیوں نکالا۔ اب یہی وقت ان پر آن پڑا ہے اور وہ پوچھتی پھرتی ہیں کہ مجھے کیوں نکالا بلکہ اس سے آگے بڑھ کر یہ کہ مجھے کس نے نکالا؟ ایک بڑا فرق یہ ہے کہ میاں نواز شریف کو تو عدلیہ نے نااہل قرار دیا تھا لیکن فردوس عاشق اعوان کو تو خود ان کے ممدوح عمران خان نے نااہل قرار دے کر نکال دیا تاہم وہ اس کا الزام وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان پر عاید کرتی ہیں۔ ان کا فوری ردعمل یہ تھا کہ یہ کپتان کا اختیار ہے کہ وہ بیٹنگ آرڈر میں تبدیلی کرے اور جس کھلاڑی کو جہاں چاہے کھلائے۔ لیکن ان کو تو ٹیم سے باہر ہی کر دیا گیا ہے۔ جس دن انہیں فارغ کیا گیا اس دن ابھی ان کا بیان تھا کہ عمران خان حقائق چھپانے میں یقین نہیں رکھتے۔ گویا ان کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ عمران خان کا سچ اور حق تھا۔ فردوس عاشق نے اپنے ایک طویل انٹرویو میں بڑی متضاد باتیں کی ہیں، بہت بولنے کا نقصان انہیں پہلے بھی ہوتا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مجھ پر غلیظ الزامات لگائے گئے، ہتک عزت کا دعویٰ کروں گی۔ انہوں نے وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری کے بارے میں کہا کہ ان کو اس بات کا کوئی اختیار نہیں کہ وہ کسی وزیر یا معاون خصوصی سے استعفا مانگے، یہ اختیار صرف وزیراعظم کے پاس ہے، وہ مجھے بلا کر استعفا دینے کے لیے کہتے لیکن پرنسپل سیکرٹری نے استعفا طلب کیا، بصورت ڈی نوٹیفائی کرنے کی دھمکی دی۔ ان کے اس مطالبے پر فردوس عاشق نے کہا کہ آپ وزیراعظم سے میری ملاقات کرا دیں، وہ کہیں گے تو استعفا دے دوں گی۔ اس کا مطلب ہے کہ حالات اتنے خراب ہو چکے تھے کہ معاون خصوصی اپنے طور پر وزیراعظم سے ملاقات بھی نہیں کر سکتی تھیں۔ انہوں نے اپنے معاملات کی خرابی میں شہباز گل کی طرف بھی اشارہ کیا اور یہ بھی کہا کہ وہ کوئی پنڈورا باکس نہیں کھولنا چاہتیں۔ لیکن کھول تو بیٹھی ہیں اور اس طرح کہ واپسی کے سب راستے بند کر دیے۔ وہ پیپلز پارٹی کی حکومت میں بھی وزیر اطلاعات رہ چکی ہیں، وہاں بھی واپسی کی گنجائش نہیں۔ عمران خان نے دو سال سے بھی کم عرصے میں وزارت اطلاعات میں یہ تیسری تبدیلی کی ہے۔ اس سے پہلے فواد چودھری کو وزیر اطلاعات کے منصب سے ہٹا کر وزارت سائنس و ٹکنالوجی میں بھیج دیا گیا جس کے بارے میں انہیں اب بھی کچھ معلوم نہیں۔ تاہم وہ اب بھی حکومت کی ترجمانی کرتے نظر آتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ وزارت اطلاعات بھی عمران خان کے قابو میں نہیں ہے۔ اب وہ سینیٹر شبلی فراز کو وفاقی وزیر اطلاعات کے طور پر لائے ہیں لیکن ان کے ساتھ ریٹائرڈ جنرل عاصم باجوہ بھی لگا دیا ہے جو بہرحال تجربہ کار ہیں۔ گمان ہے کہ اصل کام وہ ہی کریں گے اور شبلی فراز حسب روایت عمران خان اور ان کی حکومت کا دفاع کرتے رہیں گے۔یہی کام تمام وزرا اطلاعات کرتے رہے ہیں حتیٰ کہ شیخ رشید بھی جو چار مرتبہ وزیر اطلاعات رہ چکے ہیں اور پوری شدومد سے جنرل پرویز مشرف کی حماقتوں کا دفاع کرتے رہے ہیں جس میں اہم کام پاکستانیوں کو امریکا سے ڈرانا اور پاکستان میں اس کے حملوں کا دفاع کرنا بھی شامل تھا۔ شبلی فراز کی آمد پر پی ٹی آئی ہی نے نہیں حزب اختلاف نے بھی اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ یہ اطمینان کب تک باقی رہتا ہے یہ محض چند دن میں واضح ہو جائے گا۔ انہوں نے بولنا شروع کردیا ہے اور کورونا وائرس کے حوالے سے وفاق اور سندھ میں جو مناظرہ ہو رہا ہے اس میں کود پڑے ہیں۔ سب سے پہلے بلاول زرداری کو نشانہ بنایا ہے کہ وہ اشرافیہ کے نمائندہ ہیں، سندھ کی نااہلی وفاق پر تھوپنے کی کوشش کی ہے۔ بلاول نے ثابت کردیا کہ مزدوروں اور محنت کشوں سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ اس قسم کی تبرا بازی فیاض الحسن چوہان جیسے لوگوں کو زیب دیتی ہے۔ شبلی فراز وقار کا مظاہرہ کریں۔ ان سے پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا خود ان کا تعلق مزدور طبقے اور محنت کشوں سے ہے یا وزیراعظم عمران خان کا تعلق ان پسماندہ طبقات سے ہے۔ ایک دوسرے پر الزامات کا سلسلہ چند دن کے لیے بند کر کے دیکھیں، الزام لگائیں گے تو جواب بھی ملے گا۔ شبلی فراز کہتے ہیں کہ کورونا قومی مسئلہ ہے، اس پر سیاست کرنے والوں کو قوم معاف نہیں کرے گی۔ ٹھیک ہے لیکن سیاست تو دونوں طرف سے ہو رہی ہے اور قوم دونوں ہی کو معاف نہیں کرے گی۔ حکومت کی صفائی میں حزب اختلاف پر الزامات عاید کرنے کا کام فردوس عاشق بخوبی کر چکی ہیں، اب اس سے ہٹ کر کچھ کر لیا جائے۔