انسان اور سرمایہ دارانہ نظام

694

مغرب کے ممتاز ماہر نفسیات سگمنڈ فرائیڈ نے سرمایہ دارانہ نظام پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نظام میں کوئی شخص اپنی نفسیاتی صحت کو برقرار نہیں رکھ سکتا اور اگر ایک بار وہ نفسیاتی عارضے کا شکار ہوجائے تو پھر اس کا دوبارہ مکمل طور پر صحت یاب ہونا ممکن نہیں۔ انگریزی کے ممتاز شاعر اور ادیب ایزرا پاونڈ کا ایک معرکہ آرا فقرہ یاد آگیا۔ ایزرا پاونڈ نے کہا ہے کہ تاج محل کوئی ایسی قوم ہی بنا سکتی تھی جو سود نہ کھاتی ہو۔ یہاں یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ سود سرمایہ دارانہ نظام کا جزو لاینفک ہے۔ چناںچہ ایزرا پاونڈ کے فقرے کا مفہوم یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام انسان کے جمالیاتی شعور کو اس حد تک تہہ و بالا کردیتا ہے کہ پھر انسان بڑا جمالیاتی تجربہ خلق کرنے کے قابل نہیں رہتا۔
فرائیڈ خدا اور مذہب کا منکر تھا ایسا نہ ہوتا تو وہ کہتا کہ سرمایہ دارانہ نظام صرف انسان سے اس کی نفسیاتی صحت ہی نہیں چھینتا بلکہ وہ اس کی روحانی اور اخلاقی صحت بھی سلب کرلیتا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام سرمائے کی پوجا کے سوا کچھ نہیں۔ اس نظام میں سرمایہ خدا ہے۔ سرمایہ وحی ہے۔ سرمایہ رسالت ہے۔ سرمایہ جنت ہے۔ سرمائے کی عدم موجودگی جہنم ہے۔ سرمایہ شعور ہے۔ سرمایہ ذہانت ہے۔ سرمایہ شرافت ہے۔ سرمایہ نجابت ہے۔ سرمایہ وقار ہے۔ سرمایہ عزت ہے۔ سرمایہ علم ہے۔ سرمایہ ذہانت ہے۔ سرمایہ محبت ہے۔ سرمایہ تعلق ہے۔ سرمایہ بے تعلقی ہے۔ سرمایہ عزت ہے۔ سرمایہ شہرت ہے۔ سرمایہ زندگی ہے۔ سرمائے کی عدم موجودگی موت ہے۔
رسالت اور نبوت کی تاریخ کا یہ ایک اہم پہلو ہے کہ رسولوں اور انبیا کا انکار کرنے والوں کی عظیم اکثریت طبقہ امرا پر مشتمل تھی۔ یہ وہ لوگ تھے جنہیں اپنے سرمائے کی بنیاد پر معاشرے میں سیاسی و سماجی طاقت اور سیاسی و سماجی مرکزیت حاصل تھی۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ سرمایہ اتنی ہولناک چیز ہے کہ وہ حقیقت اور انسان کے درمیان سب سے بڑا حجاب بن کر کھڑا ہوجاتا ہے۔ نبی انسان کے سامنے کھڑا ہوتا ہے اور مالدار لوگوں کی بڑی تعداد اس کو پہچاننے اور اس کی نبوت کی گواہی دینے سے قاصر ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ سرمائے اور اس کی طاقت سے پیدا ہونے والے تکبر نے منکرین رسالت کی بصیرت اور بصارت دونوں سلب کرلی تھیں۔ انسان تکبر کے سلسلے میں سرمائے اور طاقت کا محتاج نہیں ہوتا ہم نے بہت سے کمزور لوگوں کو اپنی محرومی کے تکبر میں مبتلا دیکھا ہے مگر بہرحال غریب لوگوں کی اکثریت میں وہ انا اور وہ تکبر نہیں ہوتا جو مالدار لوگوں میں عام ہے۔ چناں چہ رسالت اور نبوت کی تاریخ کا ایک پہلو یہ ہے کہ انبیا اور رسولوں پر ابتدا میں ایمان لانے والوں کی اکثریت یا تو بے وسیلہ تھی یا نوجوان۔
قرآن مجید فرقان حمید کہتا ہے کہ بعض لوگ اپنے نفس کی خواہشات کو اپنا خدا بنالیتے ہیں اور نفس کے معاملات کا علم رکھنے والے جانتے ہیں کہ نفس کو جو چیزیں مرغوب ہیں ان میں سے بہت سی چیزوں کا تعلق سرمائے سے ہے۔ انسان سیاسی قوت حاصل کرنا چاہتا ہے اور سرمایہ اس سلسلے میں انسان کے بڑے کام آتا ہے۔ انسان پُرتعیش زندگی کی خواہش کرتا ہے اور یہ خواہش صرف سرمائے سے حقیقت بن سکتی ہیں۔ انسان زن اور زمین کی جانب لپکتا ہے اور سرمایہ اس سلسلے میں اس کا سب سے بڑا مددگار ہوتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ نفس کی خواہشات کو خدا بنانے میں سرمائے کا کردار اساسی ہوتا ہے۔ اس تناظر میں کہا جاسکتا ہے کہ اس سے بڑا روحانی اور نفسیاتی مرض کیا ہوگا کہ انسان سرمائے کو خدا بنالے۔
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ سرمایہ زندگی کی ’’ضرورت‘‘ ہے۔ لیکن سرمایہ دارانہ ذہنیت کا ’’کمال‘‘ یہ ہے کہ وہ ’’ضرورت‘‘ کو انسان کی سب سے بڑی ’’محبت‘‘ بنادیتی ہے۔ ضرورت اور محبت میں وہی فرق ہے جو ’’مطلوب‘‘ اور ’’محبوب‘‘ میں ہوتا ہے۔ ضرورت زندگی کا تقاضا ہے۔ محبت زندگی کی معنویت ہے اس کا جمال ہے۔ سرمایہ داری کا وبال یہ ہے کہ اس نے ضرورت کو محبت میں ڈھال دیا ہے۔
آپ ذرا معاشرے کا جائزہ تو لیجیے۔ امریکا اور یورپ کے ’’سیکولر معاشرے‘‘ کا نہیں پاکستان اور سعودی عرب کے ’’اسلامی معاشرے‘‘ کا۔ ہمارا معاشرہ طبقات میں منقسم ہے۔ سرمائے کی بنیاد پر ایک ’’بالائی طبقہ‘‘ ہے۔ دولت کی بنیاد پر ایک ’’متوسط طبقہ‘‘ ہے۔ زر کی بنیاد پر ایک زیریں یا ’’نچلا طبقہ‘‘ ہے۔ مال کے حوالے سے ایک ’’مفلوک الحال طبقہ‘‘ ہے۔ بالائی طبقہ محض دولت کی بنیاد پر ’’برہمنوں‘‘ کا طبقہ ہے۔ متوسط طبقہ صرف دولت کی بنیاد پر ’’شتریوں‘‘ کا طبقہ ہے۔ نچلا طبقہ صرف مال کی بنیاد پر ویشیوں کا طبقہ ہے۔ مفلوک الحال طبقہ صرف زر کی وجہ سے ’’شودروں‘‘ کا طبقہ ہے۔ لاحول ولاقوۃ۔ ہم ہندوئوں کو کہتے ہیں کہ وہ ذات پات کی بنیاد پر امتیازی معاشرہ قائم کیے ہوئے ہیں۔ مگر اسلامی معاشرے دولت کی بنیاد پر ذات پات کا نظام چلارہے ہیں اور کسی کو اس صورت حال پر کوئی اعتراض نہیں۔ آپ فرد کی سطح پر دیکھ لیجیے۔ اسلام کہتا ہے اصل اہمیت انسان کے تقوے اور علم کی ہے۔ ان فضیلتوں کے سوا اسلامی معاشرے میں کوئی اور فضیلت نہیں ہونی چاہیے۔ مگر اسلامی معاشروں میں عملاً تقوے اور علم کی کوئی عزت اور کوئی توقیر نہیں۔ آدمی کے پاس دولت نہ ہو تو تقوے اور علم کو کوئی پوچھتا ہی نہیں۔ یہ معاشرے کا کتنا بڑا روحانی اور نفسیاتی مرض ہے مگر کوئی اسے روحانی اور نفسیاتی مرض کے طور پر دیکھتا ہی نہیں۔ ہمارے دفتر میں ایک صاحب کام کیا کرتے تھے۔ ہم نے ان سے کئی بار پوچھا آپ کہاں رہتے ہیں؟ وہ بات کو ہر بار ٹال جاتے۔ بالآخر کسی اور سے معلوم ہوا کہ وہ صاحب کسی کچی بستی میں رہتے ہیں۔ چناں چہ وہ کسی کو بھی نہیں بتاتے کہ وہ کہاں رہتے ہیں۔ بعض بچے فخر سے بتاتے ہیں کہ ہم فلاں معروف انگلش میڈیم اسکول میں پڑھتے ہیں۔ ہمارے شہروں میں علاقے انسانوں کی بستیاں نہیں ہیں۔ مرتبے کے نشانات یا Status Symbols ہیں۔ مذہبی اعتبار سے تو یہ گناہ کبیرہ ہے۔ مگر صرف انسانی اعتبار سے بھی ایک عظیم جرم ہے۔ ایک وقت تھا کہ شہر ’’اہل کمال‘‘ کی وجہ سے پہچانے جاتے تھے۔ میر نے اس کے بارے میں کہا ہے۔
کیا بودوباش پوچھو ہو پورب کے ساکنو
ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے
دلی کہ ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے
دلی کے بارے میں میر کا ایک اور شعر ہے۔
دلی کے نہ تھے کوچے اوراق مصور تھے
جو شکل نظر آئی تصویر نظر آئی
مگر اب شہروں اور بستیوں کا تشخص افراد کا ’’معاشی مرتبہ‘‘ ہے۔ یہ صورتِ حال عالمی سطح پر بھی موجود ہے۔ معاشی بنیاد پر ایک ’’ترقی یافتہ دنیا‘‘ ہے۔ ایک ’’ترقی پزیر دنیا‘‘ ہے۔ ایک ’’غریب اور پسماندہ دنیا‘‘ ہے۔ یہ دنیائیں ایک ہی زمین پر موجود ہیں مگر اس کے باوجود ان کے درمیان صدیوں کے فاصلے ہیں۔ والدین سے زیادہ اہم رشتہ کون ہوگا مگر ہم نے کئی جگہوں پر دیکھا ہے کہ بعض والدین بچوں کی معاشی یا پیشہ ورانہ اہلیت کی بنیاد پر بچوں میں فرق کرتے ہیں۔ اللہ اکبر۔ معاش اہم ترین انسانی رشتوں کو بھی تہہ و بالا کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔
کیا آپ نے کبھی چارلی چپلن کی خاموش فلم Modern Times دیکھی ہے؟ کہنے کو یہ ایک مزاحیہ فلم ہے مگر درحقیقت یہ ایک فلسفیانہ فلم ہے۔ اس فلم میں جدیدیت، صنعتی انقلاب اور سرمایہ دارانہ نظام کے انسانی زندگی پر پڑنے والے ہولناک اثرات کو موضوع بنایا گیا ہے۔ یہ فلم 1936ء میں منظر عام پر آئی۔ اس وقت چارلی چپلن نے جدیدیت، صنعتی انقلاب اور سرمایہ دارانہ نظام کی روح کو جس طرح سمجھا کوئی بڑے سے بڑا دانشور بھی اس کا تصور نہیں کرسکتا تھا۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہیں کہ ’’ماڈرن ٹائمز‘‘ جیسی فلم نہ 1936ء سے پہلے دنیا میں کہیں بنی۔ نہ 1936ء کے بعد بنی اور نہ اس بات کا کوئی امکان نظر آتا ہے کہ ایسی فلم کبھی کوئی بنا سکے گا۔ اس فلم کا ایک ایک سین ’’معنویت‘‘ سے لبریز ہے۔ فلم میں چارلی چپلن کام کی ’’یکسانیت‘‘ اور ’’دبائو‘‘ کی وجہ سے نروس بریک ڈائون کا شکار ہو کر اسپتال پہنچ جاتا ہے۔ علاج سے چارلی چپلن کی طبیعت اتنی ٹھیک ہوجاتی ہے کہ وہ دوبارہ ’’نارمل زندگی‘‘ شروع کرسکے۔ چارلی چپلن ڈاکٹر کے پاس سے روانہ ہوتا ہے تو ڈاکٹر کہتا ہے۔
Take it easy and avoid excitement
لیکن بیسویں صدی کی زندگی میں کچھ بھی ’’Easy‘‘ نہیں ہے اور اس زندگی میں ہرطرف شور شرابہ ہے۔ یعنی Excitement ہی Excitment ہے۔ اسی لیے فرائیڈ نے کہا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں کوئی نفسیاتی طور پر صحت مند نہیں رہ سکتا اور اگر وہ بیمار ہوجائے تو کبھی پوری طرح صحت یاب نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کہ سرمایہ دارانہ نظام کی زندگی زہر سے بھری ہوئی ہے۔ چارلی چپلن کی ’’ماڈرن ٹائمز‘‘ دیکھتے ہوئے اکبر الٰہ آبادی کی عظیم شاعری یاد آجاتی ہے۔ جس کا ظاہر مزاح پر کھڑا ہے اور باطن المیے پر۔ ماڈرن ٹائمز کا ظاہر بھی مزاح پر کھڑا ہے اور باطن المیے پر۔ جدیدیت، صنعتی نظام اور سرمایہ دارانہ نظام زندگی کو اسی طرح مسخ کرتا ہے۔ مگر ایزرا پاونڈ کے معرکہ آرا فقرے کی تفہیم تو رہ ہی گئی۔
ایزرا پاونڈ نے تاج محل پر گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ سود خور قوم تاج محل تخلیق نہیں کرسکتی۔ اس فقرے کو صرف لغوی سطح پر لیا جائے تو تاریخ بتاتی ہے کہ ہندو تہذیب چھ ہزار سال پرانی ہے مگر اس نے چھ ہزار سال میں کبھی تاج محل تعمیر نہیں کیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندو سود خور ہیں۔ یہودی تہذیب نے تین ہزار سال میں کبھی تاج محل تعمیر نہیں کیا اس لیے کہ یہودی بھی سود خور ہیں۔ عیسائیوں نے گزشتہ دو ہزار سال میں تاج محل تعمیر نہیں کیا اس لیے کہ عیسائی بھی سود خور ہیں۔ ایزرا پاونڈ کے اس فقرے کو بلند ترین معنوی سطح پر سمجھنا ہو تو کہا جائے گا کہ بڑا آرٹ یا تو بڑے تجربے سے پیدا ہوتا ہے یا بڑی آرزو سے یا زبان کے بڑے سانچے سے۔ بدقسمتی سے سود خور معاشرے میں نہ بڑا تجربہ ممکن ہے نہ بڑی آرزو اس معاشرے میں جنم لے سکتی ہے اور نہ زبان کا بڑا سانچہ اس معاشرے میں جنم لے سکتا ہے۔ چناں چہ تاج محل اس قوم نے بنایا جس کے پاس تجربہ بھی بڑا تھا۔ آرزو بھی بڑی تھی اور اظہار کا سانچہ بھی بڑا تھا۔