ڈاکٹر مراد علی شاہ اور مولانا عبدالرئوف کی رحلت

253

گزشتہ دو روز میں تحریک اسلامی کے دو اہم ستون اپنے رب کے پاس چلے گئے۔ ہر ذی نفس کو موت کا مزا چکھنا ہے اس فیصلے کے مصداق سب ہی کو باری باری اپنے مقررہ وقت پر جانا ہے۔ ہمارا امتحان تو دراصل یہ ہے کہ رب کی دی ہوئی زندگی رب کی رضا کے لیے گزار پائیں۔ شیخ القرآن مولانا عبدالرئوف اور افغان جہاد کے علمبردار جماعت اسلامی پاکستان کے سابق مرکزی رہنما و سینیٹر مراد علیشاہ اپنی زندگی کی مدت پوری کرکے اللہ رب العالمین کے حضور حاضر ہو گئے۔ سینیٹر مراد علی شاہ نے اپنے امیر قاضی حسین احمد کے حکم پر افغانستان میں کمیونزم کے خلاف بند باندھا اور ان کے لگائے ہوئے پودے آج بھی افغانستان میں برگ و بار لا رہے ہیں۔ اسی طرح شیخ القرآن مولانا عبدالرئوف کی سازی دندگی قال اللہ اور قال رسول پڑھاتے ہوئے گزری ان کے شاگردوں کی تعداد بلاشبہ ہزاروں میں ہوگی۔ جمعیت اتحاد العلما کے صدر کے طور پر انہوں نے مختلف مکاتب فکر کے علما کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرکے بڑا گراں قدر کام کیا اور اب تک جمعیت اتحاد اعلما ان کی رہنمائی میں کام کر رہی تھی۔ مولانا عبدالرئوف کی شخصیت بھی ڈاکٹر مراد علی شاہ کی طرح محبت اور خلوص کا پیکر تھی۔ جو مولانا سے مل لے اسے بار بار ملنے کی خواہش ہوتی تھی۔ آج کل کے پرفتن دور میں کوئی ایک فرد دین سے جڑ جائے تو اس کو اس کے لیے اللہ کی رحمت کہا جاتا ہے۔ لیکن اللہ نے مولانا عبدالرئوف پر یہ خاص کرم کیا کہ ان کے تمام سات بیٹے دین سے جڑے ہوئے ہیں۔ حافظ عالم اور مدرس ہیں اسی طرح ان کی بیٹیاں بھی جماعت اسلامی کے کاموں میں مصروف ہیں۔ اللہ پاک مولانا کے خاندان کو بھی اور ان کے احباب کو بھی ان کے لیے صدقہ جاریہ بنائے۔ ڈاکٹر مراد علی شاہ کی خدمت جمیلہ کو قبول فرمائے اور دونوں بزرگوں کی قبروں کو جنت کے باغوں میں سے ایک بنائے۔ آمین