کاروبار یا فساد، حکومت فیصلہ کر لے

358

دُنیا کے مزید چار بڑے ممالک نے لاک ڈائون ختم کرنے کا اعلان کردیا۔ یہ وہ ممالک ہیں جن میں ہلاکتیں پاکستان سے بھی کہیں زیادہ ہوئی ہیں اور جن ممالک میں لاک ڈائون ختم نہیں کیا جا رہا یا نرم نہیں کیا جارہا۔ اب وہاں کے لوگ سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ ہلاکتوں سے بھرپور شہر لندن میں لوگوں نے سڑک پر ایک دوسرے سے گلے لگ کر احتجاج کیا۔ امریکی شہر کیلی فورنیا میں پابندیاں ختم کرانے کے لیے لوگوں نے احتجاجی ریلیاں نکالیں۔ اسپین میں ہزاروں لوگ گھروں سے باہر نکل آئے۔ یہی حال تمام ممالک میں ہے۔ آسٹریا اور سنگاپور میں شاپنگ مالز پر رش ہو گیا ہے۔ لاک ڈائون کے حامی حکمرانوں کو بھی اندازہ ہو گیا ہے کہ لاک ڈائون کس قسم کا اور کتنی مدت تک ہونا چاہیے تھا۔ سخت ترین لاک ڈائون چین میں تھا اور وہاں اب سیاحتی مقامات بھی کھل گئے ہیں۔ ساری دُنیا میں سوال اٹھ رہا ہے کہ آپ کس طرف جانا چاہتے ہیں معاشی تباہی یا بھوک۔ امریکا میں لوگ لاک ڈائون کے خلاف سڑکوں پر ہیں، پاکستان میں صورتحال یہ ہے کہ لاک ڈائون ہے نہ کاروبار۔ نام لاک ڈائون اور ایس او پی کا چل رہا ہے اور بہت کچھ ہو رہا ہے۔ صرف کاروبار بند ہے۔ اب سندھ اور خصوصاً کراچی میں چھوٹے تاجر اور کاروباری لوگ تنگ آمدبہ جنگ آمد کے مصداق کسی بھی وقت پھٹ پڑیں گے، سندھ کے ٹرانسپورٹرز نے 5 مئی سے ٹرانسپورٹ چلانے کا اعلان کر دیا ہے اور متنبہ کیا ہے کہ اگر گاڑیوں کو روکا گیا تو نتائج کی ذمے داری سندھ حکومت پر ہوگی۔ اسی طرح کراچی کے تاجروں نے پیر کو کاروبار کھولنے کے لیے حکومت سے سختی کے ساتھ مطالبہ کیا ہے اور اگر پیر سے کاروبار نہ کھولا گیا تو منگل سے تاجر احتجاج کریں گے۔ ایس او پی کے نام پر عوام اور تاجروں کے کاروبار کا بیڑا غرق کرکے رکھ دیا گیا ہے۔ اس بارے میں بھی متضاد رویہ ہے۔ امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے اس تضاد پر سوال اٹھایا ہے کہ کیا کورونا صرف کراچی میں ہے۔ یہاں کی صنعتوں کو بھتہ لے کر کھولا جا رہا ہے، چھوٹے دکانداروں کو کام بھی نہیں کرنے دیا جا رہا۔ ٹھیلے والوں تک سے پانچ پانچ ہزار روپے رشوت لی جا رہی ہے۔ دوسری طرف حکومت سندھ کے وزرا، مشیروں اور ارکان اسمبلی کے حلقوں میں گندم کی کٹائی بھرپور طریقے سے ہو رہی ہے وہاں ایس او پیز پر کتنا عمل ہو رہا ہے؟ جب گندم کی کٹائی ہو جائے گی تو سرکار گندم خرید کر ان زمینداروں کے کھاتے میں رقم جمع کرا دے گی۔ پھر اس حکومت کا حصہ آٹا مل والے گندم خرید کر آٹا تیار کریں گے اور گھر گھر آٹا پہنچے گا۔ ان کا کاروبار تو چل رہا ہے اور چلتا رہے گا۔ اس اعتبار سے تو وزیراعظم عمران خان کا طنز حکومت سندھ پر ہے کہ اشرافیہ نے لاک ڈائون کرایا ہے۔ سندھ کی حد تک تو اشرافیہ کا کچھ نہیں بگڑ رہا اس کے تمام کاروبار جاری ہیں۔ لیکن چھوٹا دکاندار، درمیانے درجے کے تاجر اور صنعتکار سب پریشان ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے تعمیراتی صنعت کو کام کرنے کی اجازت دی تھی لیکن اس صنعت کو کام کرنے کی اجازت دینے کا مطلب ڈیڑھ درجن کاروباروں اور صنعتوں کو کھولنا تھا۔ لیکن حکومت سندھ کی ضد کی وجہ سے کوئی کاروبار نہیں کھل سکا۔ اس طرح تعمیراتی صنعت کو دی گئی رعایت بھی غیر موثر ہوتی جا رہی ہے۔ اس وقت صورتحال اتنی خراب ہے کہ معاشرے کا ہر فرد نہایت غصے میں ہے۔ کسی بھی وقت لاوا پھٹ سکتا ہے۔ اچھے خاصے بڑے کاروبار کرنے والے لوگ بھی شدید غصے میں ہیں۔ اس شدید غصے کے باوجود کوئی احتجاج نہ ہونے کا سبب یہ ہے کہ کراچی میں طویل عرصے سے ایم کیو ایم کے ذریعے عوام میں سے حکومت کے خلاف حقیقی احتجاج کی حس اور عادت ختم کروا دی گئی ہے۔ 35 برس تک جعلی احتجاج اور جعلی سیاست کی گئی اب امت مسلمہ کے درد کے لیے لوگ خود بخود نہیں نکلتے۔ اپنے مسائل کے حل کے لیے نہیں نکلتے۔ اگر جماعت اسلامی نہ نکلتی تو کے۔الیکٹر، واٹر بورڈ اور نادرا کے مظالم بھی سہتے رہتے۔ ایک مرتبہ پھر تاجروں نے جماعت اسلامی سے رابطہ کیا ہے تو امکان ہے کہ اب ان کے مسائل بھی حل ہو جائیں۔لیکن اگر کاروبار نہ کھولا گیا تو لوگ احتجاج کریں گے، حکمران سختی کریں گے تو فساد ہو گا، دونوں صورتوں میں نقسان عوام کا ہوگا۔ ہمارے حکمران تو محفوظ رہیں گے۔