سندھ میں کورونا اور کرپشن وائرس کا مستقبل!

443

کورونا وائرس کب ختم ہوگا؟ ہر دوسرا شخص یہ سوال پوری شدت سے کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ مگر اس سوال کا مناسب جواب کسی کے پاس نہیں، کوئی دے بھی نہیں سکتا۔ وہ بھی نہیں جنہوں نے اس کا ’’شوشا‘‘ چھوڑا اور وہ بھی نہیں جو کہتے رہے تھے کہ اس علاج دریافت نہیں ہوسکا۔ ایک خیال جس کی بازگشت خاص و عام میں تیزی سے ہورہی ہے وہ یہ ہے کہ یہ کوئی ایسا وائرس ہے ہی نہیں جس کو بہت تیزی سے وبا کی صورت میں پھیلایا گیا۔ ہر بیماری، ہر مرض کسی نہ کسی وائرس کا نتیجہ ہوتی ہے۔ وائرس بھی اللہ کی تخلیق ہے۔ لیکن حقیقت تو یہ بھی ہے کہ کوئی بیماری ایسی نہیں ہے جس کا علاج اللہ نے نہیں بتایا۔ قرآن مجید میں واضح طور پر کہا کہ ’’اور جب میں بیمار ہوتا ہوں تو اللہ ہی شفاء یاب کرتا ہے‘‘۔ مگر ایمان کے کمزور لوگ اپنی عقل سے یہ طے کر بیٹھے کہ اس مرض کا کوئی علاج نہیں ہے اور یہ تیزی سے ایک انسان سے دوسرے انسان تک پہنچتا ہے اور اسے نقصان پہنچانے کا باعث بنتا ہے۔ دلچسپ امر یہ کہ اس وائرس کے ایک انسان سے دوسرے انسان تک پہنچنے کی رفتار کا تعین وہ لوگ بھی نہیں کرسکے جنہوں نے وائرس کو کورونا کا نام دے کر اسے زبانی اور تحریری طور پر دنیا بھر میں پھیلا دیا۔
اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے یہ وائرس ہے مگر اس پر یقین نہیں کرنا چاہیے کہ اس کا کوئی علاج نہیں ہے اور یہ ایک سے دوسرے انسان کو اپنی لپٹ میں لیتا ہے۔ یہ صرف افوا نہیں بلکہ اللہ کے نظام کے ساتھ جنگ ہے اور نظام کو کنٹرول کرنے کی سازش ہے۔ جو اس لیے تیار کی گئی ہے کہ دنیا میں مخصوص شیطانی اذہان کی قوتیں اپنا نظام مسلط کرنا چاہتی ہیں۔ بدقسمتی سے یہ سازشی عناصر دنیا کے نظام زندگی کو کسی حد تک مفلوج کرکے کامیاب بھی ہوچکے مگر ان کی یہ کامیابی بہت جلد ان سب کی رسوائی اور ذلت کا باعث بن جائے گی ان شاء اللہ۔
سازشی عناصر نے اپنے گھناؤنے منصوبے کے تحت جو سب سے غلیظ کام کیا وہ یہ ہے کہ اس وائرس سے انسانی جسم کے بے جان ہونے کے بعد بھی پھیلنے کی افوا پھیلائی اور اس وائرس کی لپیٹ میں آکر جاں بحق یا ہلاک ہونے والوں کی تدفین کا نیا اور لاش کی بے حرمتی کے مترادف طریقہ بتانے کی کوشش کی اور اس پر عمل بھی کروایا۔ دراصل یہ سازشی عناصر بخوبی جانتے تھے کہ انسان پیدائشی طور پر ’’ڈرپوک‘‘ ہے اس لیے اسے ڈرانا زیادہ مشکل نہیں ہے۔ انسانوں کو اس وائرس سے ڈرانے کے لیے یہ بات اڑادی گئی کہ یہ بہت تیزی سے ایک انسان سے دوسرے انسان کو لگتا۔ جدید سائنس کے انوکھے طالب علموں نے بغیر سوچے سمجھے یہ افوا بھی خوب اڑائی کہ یہ کسی چرند، پرند اور درند کو نقصان نہیں پہنچاتا۔ گو کہ اللہ نے جس انسان کو اشرف المخلوق کا درجہ دیا ان سب کو دیگر مخلوق سے نیچا دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔
سازشی عناصر یہ کام 2002 سے کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ آج سے 18 سال قبل بھی کانگو وائرس کے مریض کو خطرناک قرار دے اس کے سائے سے بھی دور رکھنے کی کوشش کراچی میں کی جاچکی ہے جس پر راقم مارچ میں کالم لکھ چکا ہے۔ سلام ہے اس مریض کی جوان بیوی پر جس نے ڈاکٹرز کے دباؤ کے باوجود ایک لمحے کے لیے اپنے شوہر کو خود سے دور کیا ہو۔ نوجوان تو اللہ کو پیارا ہوگیا مگر اپنے ایمان کی پکی اس نوجوان خاتون کو بیوہ ہونے کے باوجود کسی وائرس نے کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔
راقم سمیت اللہ اور اس کے نظام پر اعتماد رکھنے والوں کو اسی اللہ پر یقین ہے کہ اس وائرس کے بارے میں اپنے دماغوں سے الٹی سیدھی باتیں اخذ کرکے وائرس کی طرح پھیلانے والوں کو وہ جلد اپنی سخت گرفت میں لے چکا ہوگا یا جلد لے لے گا۔ فی الحال تو میں اتنا ہی جانتا ہوں کہ امریکا کے آفس آف دا ڈائریکٹر آف نیشنل انٹیلی جنس کا ایک بیان میں کہنا ہے کہ انٹیلی جنس کمیونٹی کورونا کے حوالے سے اس وسیع سائنسی اتفاق رائے سے بھی متفق ہے کہ وائرس انسانی تخلیق یا جینیاتی ترمیم سے نہیں بنائی گئی ہے۔ پوری انٹیلی جنس کمیونٹی مسلسل امریکی پالیسی سازوں اور کووڈ 19 کا مقابلہ کرنے والوں کو مدد فراہم کرتی رہی ہے۔ اب یہ بات واضح نہیں ہے کہ انسانوں کی انٹیلی جنس کرنے والی امریکی ایجنسی کب سے جراثم کی انٹیلی جنس کررہی ہے اور کیوں کررہی ہے؟ ہاں البتہ یہ تو سب ہی کو معلوم ہے کہ ’’چور کی ڈاڑھی میں تنکا‘‘ ہوتا ہے۔
یہ بات بھی عیاں ہے کہ امریکا سمیت اسلام دشمن قوتیں اور ممالک ایک عرصے سے دنیا خصوصاً مسلمانوں پر اپنا غلبہ ظاہر کرنے کے لیے مختلف سازش کررہے ہیں۔ کورونا وائرس کو لے کر جس طرح عالمی اداروں نے خوف و ہراس پھیلایا ہے اس سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ ہم مسلمانوں کی اکثریت کو بھی اللہ کے خوف سے زیادہ ’’کورونا وائرس کا خوف ہے۔ حالانکہ اگر ہم اپنے گریبانوں میں جھانکیں تو پتا چلے گا کہ یہ اپنے ہی اعمالوں کی سزا ہے جس کا تقاضا تو یہی ہے کہ تمام مسلمان اجتماعی توبہ و استغفار کریں۔ با جماعت نمازِ توبہ ادا کریں۔ لیکن یہاں تو ہم مسلمانوں کی اکثریت بھی یہودی اور لادین قوتوں کی افواہوں کے چکر میں آکر باجماعت فرض نمازوں کی ادائیگی سے دور ہوچکی ہے۔ سچ تو یہ بھی ہے کہ یہ بھی ہمارے اعمال کی سزا ہی ہو، ممکن ہے کہ اللہ ہم سے ناراض ہوکر اپنے گھروں کے دروازے ہی ہمارے لیے بند کرچکا ہو۔ اللہ جو دلوں کو پھیر دیا کرتا اور آنکھوں پر پٹیاں باندھ دیا کرتا ہے ہم سے اس قدر ناراض ہو کہ ہم سب کے دل و دماغ کو بھی اس نے مائوف کردیا ہو جس کے نتیجے میں ہم سب کو صحیح سمت اور صراط مستقیم کا راستہ بھی نظر نہیں آرہا اور ہم گمراہ باتوں کو درست باتیں سمجھ رہے ہوں۔
صوبہ سندھ جہاں آج کی حکومت اگر اپنی حکمرانی کی طاقت ظاہر کرنے کے لیے فعال نظر آتی ہے تو اس کا مقصد جمعہ کی نماز اور اس کے اجتماع کو روکنا ہوتا ہے۔ یہ وہی سندھ ہے جسے ایک 17 سالہ مجاہد عماد الدین محمد بن قاسم نے 711ء میں فتح کیا۔ کمسن مجاہد محمد بن قاسم کے سندھ فتح کرنے کا مقصد یہاں اسلام کا بول بالا کرنا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس فتح کو مذہبی، معاشرتی اور عملی طور پر بے شمار اثرات کی حامل قرار دیا گیا تھا۔ مگر آج 2020 میں سندھ میں مسلمانوں کی اکثریت کے باوجود مسلمانوں کو مساجد میں نماز کے اجتماعات کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ یہ مناظر دیکھ کر عماد الدین محمد بن قاسم کی روح تڑپ اٹھی ہوگی اور ممکن ہے کہ اس نیک مجاہد کی روح سندھ حکمرانوں کو تلاش کررہی ہو تاکہ ان سے پوچھے کہ ’’اے حاکم ابن عبداللہ یہ کون سی مراد پوری کررہے ہو، یہ کس کی خواہشات کی تکمیل میں سندھ کی آباد و پر رونق مساجد کو بے رونق کردیا ہے، اے مراد کیا تجھے اللہ کا ڈر نہیں ہے، اللہ کے سامنے کس منہ سے پیش ہوگے؟‘‘۔
سندھ کے لوگوں خصوصاً کراچی والوں کی بدقسمتی ہے جہاں ایک ایسی سیاسی پارٹی کی حکومت ہے جن کے بڑے بڑے لیڈرز دین اسلام کے بنیادی اصولوں اور چند سورتوں سے بھی نابلد ہیں۔ ایسی صورت میں وہ بھلا کس طرح صوم و صلوٰۃ کی پابندی کراسکتے ہیں انہیں تو کسی نے ان کہ اہمیت کا بھی شاید ہی درس دیا ہو؟ میں تو یہ سوچ کر ہی کانپ جاتا ہوں کہ مساجد میں نماز کے اجتماعات روکنے کے گناہ پر ان ظالم حکمرانوں کو اللہ کیسی سزا دے گا۔ سچ تو یہ ہے کہ کورونا وائرس سے زیادہ خطرناک یہاں کے حکمرانوں کی کرپشن اور طرز حکمرانی ہے جس نے محمد بن قاسم کے مفتوح علاقے کو عملی طور پر باب الاسلام بنانے کے لیے بھارت سے ہجرت کرکے یہاں آباد ہوجانے والوں میں ہی تفریق پیدا کی ہوئی ہے۔ کیونکہ ان حکمرانوں نے اسلام کو زندہ جاوید رکھنے سے زیادہ بھٹو کو زندہ رکھنے کے نعرے بلند کیے ہوئے ہیں۔ ضرورت تو اس بات کی ہے کہ کورونا وائرس کے ساتھ موجودہ صوبائی حکومت کی کھلی کرپشن بھی ختم ہو۔ اس کرپشن کے سلسلہ نے کورونا وائرس کی وجہ سے حکمرانوں کو مزید لوٹ مار کا موقع فراہم کردیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ کورونا وائرس کٹس کے نام پر سرکاری خزانے سے ہنگامی بنیاد پر ماہ فروری میں حاصل کیے گئے دس کروڑ روپے کا بھی یہ حکومت حساب نہیں دے سکتی تو سرکاری ملازمین کی تنخواہوں سے کاٹے جانے والے اربوں اور بیرون ممالک کی اربوں ڈالر کی فنڈنگ کا یہ حکومت کیا حساب دے گی؟؟