پہلے ایک خبر یا شوشا چھوڑا جاتا ہے پھر تردید کی جاتی ہے ردعمل کی شدت دیکھی جاتی ہے اور اس کے بعد ایک قدم آگے بڑھادیا جاتا ہے۔ 1974ء میں قادیانیوں کو پاکستان اسمبلی سے بھی غیر مسلم قرار دیے جانے کے بعد سے قادیانی پاکستان کے آئین کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں کبھی آئین ہی کو معطل کرواتے ہیں کبھی ایسی شقیں نکلوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ تازہ حملہ ایک نئے انداز میں کیا گیا ہے۔ خبر ہے کہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں اقلیتی کمیشن میں قادیانیوں کو شامل کرنے کی تجویز زیر غور آئی تاہم اس خبر کے پھیلتے ہی علمائے کرام کی جانب سے زبردست ردعمل سامنے آیا اور سحری کے وقت وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نور الحق قادری نے سختی سے تردید کی کہ قومی اقلیتی کمیشن میں قادیانیوں کو شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ قادیانی آئین اور دستور پاکستان کو نہیں مانتے کسی گروہ یا جماعت کو اس وقت تک کسی کمیشن کا حصہ نہیں بنایا جاسکتا جب تک وہ دستور کو تسلیم نہ کرتے ہوں اور دستور کے مطابق قادیانی غیر مسلم ہیں۔ وفاقی وزیر کی تردید اپنی جگہ درست ہے لیکن اس خبر کی تردید کے باوجود کئی حلقوں کی جانب سے اس سازش پر متوجہ کیا گیا ہے۔ ایک خیال یہ ہے کہ اگر قادیانی خود کو اقلیت تسلیم کرلیں گے تو اس طرح انہیں اپنے اس دعوے سے دستبردار ہونا پڑے گا کہ وہ مسلمان ہیں۔ لیکن ایک اور خیال اور خدشہ اپنی جگہ موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر قادیانیوں نے خود کو غیر مسلم تسلیم کرکے اقلیتی کمیشن میں شامل کرالیا تو بھی وہ اس سے بہت سے فائدے اٹھائیں گے اور دوسری طرف ساتھ ساتھ اپنی ڈھٹائی جاری رکھیں گے۔ کہنے کو تو یہ ہوگا کہ قادیانی اقلیت میں شامل کرلیے گئے تو اقلیتی کمیشن کے
ذریعے ان کے کفر پر مزید مہر تصدیق ثبت ہوگی۔ اس کے بعد پہلے کی طرح وہ خود کو مسلمان کہلانے پر اصرار نہیں کرسکیں گے۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ اس کمیشن میں شامل ہونے کے بعد ان میں سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی صلاحیت کم ہوجائے گی یعنی اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ وہ تسلیم کریں گے کہ ہم ’’غیر مسلم‘‘ ہیں۔ یقینا یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ دوسری صورت یہ ہے (اللہ کرے کہ ایسا نہ ہو) کہ ان کو اقلیت کے نام پر تحفظ دیا جائے گا۔ عیسائیوں اور ہندوئوں کی طرح وہ سرعام اپنے ایام مناسکیں گے۔ سرعام جلسے کریں گے۔ اجتماعات ہوں گے۔ عبادت گاہیں قائم ہوں گی۔ جو بھی ان کے آگے رکاوٹ کھڑی کرنے کی کوشش کرے گا اسے ’’اسلام میں اقلیت کے حقوق‘‘ کا راگ سنا کر کچل دیا جائے گا۔ پھر یہ امریکی کمیشن حرکت میں آئے گا جس نے بھارت کو اقلیتوں کے لیے خطرناک ملک قرار دیا ہے۔ ایک اور فائدہ یہ لوگ اس طرح اٹھائیں گے کہ ’’قادیانیوں‘‘ عبادت گاہیں تعمیر کی جائیں گی۔ ان کے ایام پر ’’سربراہان‘‘ مبادکبادیں دیں گے۔ اس طرح چالیس پچاس سال کی جدوجہد کے بعد قادیانی پھر طاقتور اور قانونی پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ سب سے پہلے تو امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے اس کا نوٹس لیا اور سینیٹ میں اس پر تحریک جمع کرادی کہ اس معاملے پر بحث کی جائے۔ اس کے علاوہ ختم نبوت رابطہ کمیٹی کے کنوینر عبدالطیف خالد چیمہ نے اس معاملے کی جڑ پکڑلی اور تمام علمائے کرام اور سیاسی جماعتوں سے رابط کمیٹی نے رابطہ کرکے قادیانیوں کو کسی چور دروازے سے داخل ہونے سے روکنے کی حکمت عملی اختیار کرنے کے لیے مشورے شروع کردیے۔ فی الحال وزارت مذہبی امور نے نئی سمری بھیجی ہے کہ قادیانیوں کو شامل نہ کیا جائے لیکن پاکستان میں ہر کچھ عرصے بعد یہ مسئلہ کیوں کھڑا ہوجاتا ہے۔ یہ سوال ہے کہ کیا قادیانی اقلیتی کمیشن میں شامل ہورہے تھے۔ ایسا فیصلہ ہوگیا تھا یا حتمی نہیں ہوا تھا۔ حکومت کہتی رہے گی کہ ایسا نہیں ہورہا تھا۔ کسی تجویز کو فیصلہ نہیں کہا جاسکتا وغیرہ وغیرہ، کچھ عرصہ قبل ایک قادیانی جماعت کو مشیر بنانے کا اعلان کیا گیا جب دینی و سیاسی حلقوں نے احتجاج کیا تو یہی کہا گیا کہ ایسا کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ بالکل اسی طرح اس مرتبہ کہا گیا کہ ایسا کوئی فیصلہ نہیں ہوا پھر ایک ایک کرکے سارے جھوٹ سامنے آتے گئے۔ کابینہ میں اس معاملے پر غور بھی ہوا اس کو وزارت مذہبی امور کو بھیجا بھی گیا اور قریب تھا کہ قادیانی کو شامل کرلیا جائے، بھانڈا پھوٹ گیا۔ اس سوال کا جواب کہ ایسا بار بار کیوں ہوتا ہے، یہ ہے کہ جس طرح بھارت پاکستان کا دشمن ہے وہ بار بار پاکستان کو نقصان پہنچانے والے اقدامات کرتا ہے۔ کنٹرول لائن کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ حملے کرتا ہے جاسوسی کرتا ہے، معاشی نقصان پہنچاتا ہے۔ اس کا سبب صرف یہ ہے کہ وہ پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کرتا۔ اسے ختم کرنا چاہتا ہے۔ قادیانی دستور پاکستان کو نہیں مانتے، اسی لیے ان کے روابط بھارت سے ہیں اسی لیے وہ اسرائیل میں نرم گوشہ پاتے ہیں اور اس لیے ان کے لوگوں کو بڑی آسانی سے امریکی ویزا مل جاتا ہے۔ 1974ء میں پاکستان کی قومی اسمبلی میں قادیانیوں کے موقف کو تفصیلی طور پر سننے کے بعد ملک کے تمام مکاتب فکر کے علما اور تمام سیاسی پارٹیوں نے آئینی ترمیم کے ذریعے قادیانیوں کو آئینی طور پر کافر قرار دیا گیا۔ اس وقت کی قومی اسمبلی میں مضبوط لوگ تھے، خصوصاً ذوالفقار علی بھٹو کے سیاسی فلسفے یا سیاست سے اختلاف کے باوجود انہوں نے اس معاملے میں مکمل تعاون کیا، بہت اہم کردار ادا کیا۔ قادیانیت کے خلاف تو ہر دور میں جدوجہد رہی ہے لیکن 1974ء میں ایک بڑا بند اس غلاظت کے خلاف باندھا گیا تھا۔ یہ بند باندھنے والے ملک کے جید علما اور قدآور سیاستدان تھے۔ ان کی پشت پر اسلامی جمعیت طلبہ کے نوجوانوں کا خون تھا۔ جنہوں نے اپنے خون سے اس تحریک کو جلا بخشی تھی۔ یہ فتنہ اس بات کا متقاضی ہے کہ ہر لمحہ جاگتے رہیں، یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ اب نہ وزیراعظم اس طرح کا ہے اور نہ ارکان اسمبلی جو اس فتنے یا دین کے حوالے سے کسی قسم کا علم رکھتے ہوں۔ اب تو سب روشن خیال ہیں انہیں دین یا مذہب سے ویسے بھی خدا واسطے کا بیر ہی ہوتا ہے۔ قادیانیوں کی ریشہ دوانیوں اور فتنوں کے تناظر میں مصرع کچھ ترمیم کے ساتھ سامنے رہنا چاہیے۔
بند بنا کر سو مت جانا دریا آخر دریا ہے
ترمیم یہ ہے کہ
بند بنا کر سو مت جانا فتنہ آخر فتنہ ہے