بھارت کا بھیانک چہرہ

346

امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں پہلی بار بھارت کو اقلیتوں کے لیے خطرناک ترین ملک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت میں مذہبی آزادیوں کو شدید خطرات لاحق ہیں اور یہ مسلسل تنزلی کا شکار ہیں۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت کی جانب سے بنایا گیا شہریت قانون مذہبی آزادی خصوصی طور پر مسلمانوں کی مذہبی آزادی کے صریحاً خلاف ہے۔ واضح رہے کہ 104 صفحات پر مبنی اس رپورٹ میں مذہبی آزادی کے حوالے سے دنیا کے 29 ممالک کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اس سالانہ رپورٹ میں متنازع بھارتی شہریت بل پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ 2019 میں بھارت میں اقلیتوں پر حملوں میں اضافہ ہوا، اس رپورٹ میں بابری مسجد سے متعلق بھارتی عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر بھی تنقید کی گئی ہے جب کہ کمیشن نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کرنے پر بھی بھارت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اس رپورٹ کا پاکستان کے حوالے سے ایک مثبت پہلو یہ سامنے آیا ہے کہ اس میں کرتارپور راہداری‘ پہلی گورو نانک یونیورسٹی‘ ہندو مندر کو دوبارہ کھولنے اور مذہبی اقلیتوں کے خلاف امتیازی مواد کے ساتھ تعلیمی مواد پر نظرثانی کے حکومتی اقدامات کی تعریف کی گئی ہے، دراصل آج دنیا اس حقیقت کو تسلیم کر رہی ہے کہ پاکستان اقلیتوں کے لیے مثبت اقدام اٹھا رہا ہے اور یہاں مندر، گرجا گھر اور گورد وارے ہر لحاظ سے نہ صرف محفوظ ہیں بلکہ حکومتی سطح پر ان کی سرپرستی بھی کی جا رہی ہے۔ دوسری جانب متنازع شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کے متعصبانہ قوانین کے بعد اب بھارتی سرکار کورونا کو جہاد سے جوڑ کر بھارت کو اس جہاد سے بچانے کے جو اعلانات کررہی ہے اس کا بھی عالمی سطح پر نوٹس لیا جانا ضروری ہے۔ کورونا وائرس کے مسلمان مریضوں سے بھی امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے۔ بھارت میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف حکومتی سرپرستی میں جاری متعصبانہ اقدامات پر چند دن پہلے معروف بھارتی مصنفہ اور سیاسی کارکن ارون دھتی رائے نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ بھی عالمی برادری کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ ارون رائے کا کہنا ہے کہ بھارتی حکومت اکثریتی ہندوؤں اور اقلیتی مسلمانوں کے مابین نہ صرف کشیدگی کو ہوا دے رہی ہے بلکہ بھارت میں سرکاری سرپرستی میں مسلمانوں کے لیے حالات نسل کشی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ارون دھتی رائے کے بقول بھارت میں کورونا کا مرض اب تک کسی حقیقی بحران کی وجہ نہیں بنا بلکہ یہاں اصل بحران کا تعلق نفرت اور بھوک سے ہے۔ مسلمانوں کے خلاف جاری نفرت کے اس بحران میں سیکڑوں مسلمانوں کا قتل عام ہوچکا ہے۔ متنازع شہریت قانون کی آڑ میں مسلمانوں کے خلاف ریاستی کریک ڈائون کے بعد اب کورونا وائرس کی آڑ میں حکومت نوجوان طلبہ کو گرفتار کررہی ہے۔ وکلا، سینئر مدیران، سیاسی اور سماجی کارکنوں اور دانشوروں کے خلاف مقدمات قائم کیے جا چکے ہیں اور ان میں سے کچھ کو تو حال ہی میں جیلوں میں بند بھی کیا گیا ہے۔ بھارتی سیکولرازم کا پردہ چاک کرنے کے لیے یہ اطلاع بھی ہوا کا تازہ جھونکا ثابت ہوئی ہے کہ او آئی سی، امریکا اور ترکی کے بعد برطانوی اپوزیشن لیڈر نے بھی بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو افسوسناک قراردیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ شہریوں کو عبادت کرنے اور زندگی گزارنے کی مکمل آزادی ہونی چاہیے۔
یہاں اس امر کو سمجھنا بھی ضروری ہے کہ بھارت میں اقلیتوں کے خلاف جاری متعصبانہ اقدامات کا تعلق محض آج کے واقعات سے نہیں ہے بلکہ جب سے یہاں آر ایس ایس نامی ہندو انتہا پسند تنظیم کو پر پرزے نکالنے اور اس کے سیاسی ونگ بھارتیا جنتا پارٹی کو اقتدار میں آنے کا موقع ملا ہے تب سے یہ مائنڈ سیٹ بھارت کو ایک ہندو ریاست بنانے کے اقدامات پر تلا نظر آتا ہے جو نہ صرف بھارت کے سیکولر آئین سے واضح اور کھلم کھلا انحراف ہے بلکہ یہ سوا ارب کی کثیر المذاہب آبادی پر مشتمل ہندوستان کے سماجی ڈھانچے کی ہزار سالہ مضبوط بنیادوں کو بھی مذہبی تعصب اور نفرت کی بنیاد پر ڈھانے کے مترادف ہے۔ یہ بات لائق توجہ ہے کہ ہندوتوا کے حامل اس نظریے کے تخلیق کار بھارتی مسلمانوں کو ماضی کے جرمنی میں یہودیوں سے تشبیہ دینے میں نہ توکسی ہچکچاہٹ سے کام لے رہے ہیں اور نہ ہی وہ کووِڈ 19 کی وبا کو مسلمانوں سے اسی طرح منسوب کرنے میں کوئی شرم محسوس کر رہے ہیں جس طرح نازیوں نے بیسیویں صدی میں ٹائیفائیڈ کو جواز بنا کر یہودیوں کو ان کے مخصوص رہائشی علاقوں میں رہنے پر مجبور کیا تھا۔ واضح رہے کہ متذکرہ امریکی رپورٹ کھل کر اس امر کی نشاندہی کررہی ہے کہ بھارت میں موجودہ صورت حال مسلم نسل کشی کی طرف جا رہی ہے کیونکہ جب سے نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی کی موجودہ حکومت اقتدار میں آئی ہے تب سے مسلمانوں کو جلانے اور انہیں گھیر کر نشانہ بنانے کے واقعات کے ذریعے ان کی اجتماعی نسل کشی کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے جس کا ایک بھیانک چہرہ مقبوضہ کشمیر میں پچھلے آٹھ ماہ سے جاری تاریخ کے طویل ترین ریاستی لاک ڈائون کی صورت میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ اب مسلمانوں کو کورونا کے ساتھ نتھی کرکے ان کے لیے مخصوص حراستی مراکز کی تعمیر کے ذریعے انہیں دیوار سے لگانے کا جو نیا بھیانک منصوبہ بنایا گیا ہے اس سے بھی یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ گاندھی جی اور مولانا ابولکلام آزاد کا سیکولر ہندوستان آج نریندر مودی اینڈ کمپنی جیسے نوسرباز انتہا پسند راہنمائوں کے ہاتھوں شدید ترین انسانی المیے سے دوچار نظر آتا ہے جو یقینا پوری مہذب اور آزاد دنیا کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔