جماعت اسلامی ناکام نہیں ہے؟

632

راجا نصرت علی
جماعت اسلامی ایک مسلسل جدوجہد کا نام ہے۔ کورونا وائرس کے تناظر میں اسے دیکھا جائے تو الخدمت کے کارکنان راشن کی تقسیم، مساجد، اسپتالوں اور عوامی مقامات پر اسپرے کرتے اور الخدمت کے سستی روٹی کے تنوروں پر مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ جماعت کے کئی لوگ ہنگامی امدادی سرگرمیوں کے دوران کرونا کی لپیٹ میں آچکے ہیں۔ 2005ء کے زلزلہ متاثرین کی بحالی، یتیم بچوں کی نگہداشت کا پروگرام یا پھر سندھ کے پس ماندہ علاقے تھر میں الخدمت فاؤندیشن کے پروجیکٹس پر غور کیا جائے تو کئی لحاظ سے اس کا کردار منفرد نظر آئے گا۔ اس سے قطع نظر کہ جماعت کو انتخابات میں کبھی کوئی بڑی کامیابی نہیں ہوئی لیکن یہ الیکشن میں اپنے امیدوار میدان میں لاتی ہے اور لوگوں کو اپنا ووٹ اقامت دین کے لیے استعمال کرنے کی دعوت دیتی ہے، جماعت میں جمہوریت، مشاورت، ارکان جماعت کا اخلاقی معیار اور مقصدیت کی اہمیت کی بدولت تنظیم بھی مضبوط ہے اور اسے اچھی قیادت بھی میسر ہے۔ احتساب اور استصواب کے تسلسل نے جماعت اسلامی میں موروثیت یاخاندانوں اور شخصیات کے تسلط کا ماحول پیدا نہیں ہونے دیا۔ اس میں عام ورکر کی رائے کو اہمیت حاصل ہے۔ قیادت بھی ارکان ہی سے ابھرتی ہے۔ جماعت کے نصب العین پر یقین محکم، طریقہ کار سے اتفاق، قائدانہ صلاحیت و اہلیت، معاملہ فہمی اور جذبہ ایثار اگر کسی بھی رکن میں ہوتو قطع نظر اس کے سیاسی، معاشی یا معاشرتی پس منظر کے جماعت اسلامی میں قیادت کے لیے اسے اہل خیال کیا جاتا ہے دیگر بے شمار مثالوں کے علاوہ امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق اور امیر جماعت اسلامی شمالی پنجاب ڈاکٹر طارق سلیم اس کی زندہ مثالیں ہیں۔ جماعت اسلامی کا ورکر خواہ کسی بھی صوبہ یا علاقہ سے تعلق رکھتا ہو وہ اپنے فکروعمل میں اسلام اور پاکستان کے لیے یکسو ہوتا ہے۔ کوئی مانے یانہ مانے جماعت اسلامی دعوت دین، خدمت خلق اور اسلامی سیاست کے فروغ کے حوالے سے ایک ٹرینڈ سیٹر دینی و سیاسی جماعت ہے۔
جماعت کی جدوجہد کا نصب العین بھی کوئی ایسا نہیںکہ کسی ذی شعور مسلمان کو اس سے کوئی اختلاف یا اعتراض ہو اور جماعت اسلامی کے کارکن کے ہی کرنے کا کام ہو بلکہ یہ دین اسلام کا بہت اہم تقاضا ہے۔ پاک وطن میں اسلامی معاشرے کا قیام اور اسے اسلامی تہذیب و تمدن کا گہوارہ بنانا ڈاکٹر محمد اقبال ؒ کا تصور تھا۔ اکثر سوال اٹھایا جاتا ہے کہ جماعت اپنی بہترین ساکھ کے باوجود اپنی جدوجہد میں کامیاب کیوں نہیں ہوئی؟ تو اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ عوام جماعت اسلامی کے مقابلے میں جن لوگوں کو حق حکمرانی دیتے آرہے ہیں ان کا منشور، کردار اور کارکردگی کیا ہے؟ مزید یہ کہ جماعت کے پروگرام کو عام فہم کرنے کے لیے سیاسی عمل کے جس تسلسل کی ضرورت تھی وہ میسر ہی نہیں رہا اور خدا خدا کر کے اب کچھ ماحول بن رہا ہے۔ دینی جماعتوں کے مسلکی تعصب اور سیاست سے گریز کے بھی جماعت کی سیاست پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ہندوستان میں سیّدمودودی ؒ ہی پہلے عالم دین ہیں جنہوں نے دین اسلام کی تعبیر بطور نظام ریاست اور طرز زندگی کے کی ہے۔ اس سے قبل دینی حلقوں میں سیاست کی کوئی اہمیت یادلچسپی نہ تھی۔ شاید اسی طرح کے طرزعمل کو دیکھ کر علامہ محمداقبالؒ کو کہنا پڑا تھا کہ ’’جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو، جداہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی‘‘۔ سیّد مودودی ؒ کی اسلامی سیاسی فکر سے بڑے مکاتب فکر کے علماء فوری طور پر تو ہم آہنگ نہ ہوئے البتہ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے بھی سیاست کی ضرورت محسوس کرلی مگر الگ الگ۔ لہٰذا دینی جماعتوں میں اتحادو یکجہتی بھی جماعت اسلامی کی جدوجہد کا اہم جزرہا ہے اور ملی یکجہتی کونسل یا متحدہ مجلس عمل کا قیام کا تجربہ بھی اسی حکمت عملی کا نتیجہ تھا۔
معاشرے کی اصلاح و تعمیر اور خدمت خلق کی دعویدار تو اور بھی بہت سی دینی تنظیمیں ہیں مگر قرآن و سنت کی حکمرانی یعنی ملک میں ایسی جماعت کو اقتدار میں لانے کی جدوجہد جو نفاذ دین کا فریضہ ادا کرے اور اقوام عالم کے ساتھ پاکستان کے اسلامی ریاستی نظام کو چلا (Integrate) سکے۔ یہ کام جماعت اسلامی ہی مسلک اور فرقہ پرستی سے بالاتر ہوکر کررہی ہے لیکن سب دینی جماعتوں کی یہ اپروچ نہیں ہے البتہ تحریک لبیک پاکستان کی سیاست میں آنے سے ایک مثبت تبدیلی جو دیکھنے میں آئی ہے وہ یہ کہ ایک خاص مکتبہ فکر سیاسی کردارکے لیے سیاسی طور پر منظم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ ملک میں اسلامی سیاست کے فروغ کے حوالے سے یہ بڑی پیش رفت ہے۔ اس کی وضاحت مولانا سیّد مودودیؒ کی کتاب ’’شہادتِ حق‘‘ کے ایک اقتباس سے بہتر طور پر کی جاسکتی ہے۔ انہوں نے 1946ء میں ایک سے زیادہ دینی جماعتوں کی موجودگی کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں کہاتھا کہ: ’’بظاہر تو ایک ہی مقصد اور ایک ہی کام کے لیے مختلف جماعتیں بننا غلط معلوم ہوتا ہے اور اس میں انتشار کا بھی اندیشہ ہے مگر جب نظام اسلامی درہم برہم ہوچکا ہو اور سوال اس نظام کے چلانے کا نہیں بلکہ اسے ازسرنو قائم کرنے کا ہو تو آغاز کار میں اس کے سوا چارہ نہیں کہ اس مقصد کے لیے مختلف جماعتیں بنیں اور اپنے اپنے طور پر کام کریں۔ یہ سب جماعتیں ایک ہو جائیں گی اگر نفسانیت اور افراط و تفریط سے پاک ہوں۔ حق کی راہ پر چلنے والے زیادہ دیر تک الگ نہیں رہ سکتے‘‘۔ یعنی مجموعی طور پر دینی جماعتوں کی ملکی سیاست میں دلچسپی نفاذ دین کی جدوجہد کے لیے بڑی خوش آئند بات ہے۔
جماعت اسلامی نے قیام پاکستان سے لے کر اب تک حکمرانوں کو نظریہ پاکستان یاد کرانے میں کبھی غفلت نہیں برتی۔ بانی پاکستان اورگورنر جنرل قائداعظم محمد علی جناحؒ کی اجازت سے سیّد مودودیؒ کے ریڈیو پاکستان پر یکم جنوری 1948ء سے جولائی 1948ء تک نشر کیے گئے تمام لیکچرز کتابی شکل میں موجود ہیں۔ ان کے یہ لیکچرز اسلام کے سیاسی، معاشی، معاشرتی اور اخلاقی نظام کا احاطہ کرتے ہیں۔ سیّد مودودی ؒ کو نوزائیدہ پاکستان کے امور میں قادیانیوں کے بہت زیادہ اثرو رسوخ پر بھی تحفظات تھے اور ’’مسئلہ قادیانیت‘‘ لکھنے کی وجہ بھی یہی تھی۔ جنوری 1953ء میں مغربی اور مشرقی پاکستان کے تینتیس علماء کی کانفرنس میں قادیانیوں کے غیرمسلم ہونے اور انہیں مذہبی اقلیت قرار دینے پر تو سب کا اتفاق تھا البتہ ان کے ملکی سیاست پراثرو رسوخ کی جو تفصیل مولانا نے مذکورہ کنونشن میں بیان فرمائی وہ بھی بڑی قابل غور ہے اور انٹرنیٹ پر http://www.irshad.org/info_
m/writings/moududpq.php موجود ہے۔ مسئلہ قادیانیت لکھنے پر مولانا پر مقدمہ بنا اور پھانسی کی سزا ہوئی جو بعد میں بیرونی دباؤ پر عمر قید اور پھر مکمل بریت پر منتج ہوئی اور تاریخ شاہد ہے کہ مولانا نے اپنی پھانسی کی سزا کے خلاف اپیل کا حق استعمال کرنے سے انکار کیا تھا۔ 1956ء کے آئین میں جماعت نے اسلامی دفعات شامل کرائیں اور صدر ایوب خاں کے ساتھ دیگر معاملات کے علاوہ اہم اختلاف یہ بھی تھا کہ اس نے 1962ء کے آئین میں اسلامی شقیں شامل کرنے سے انکار کیا تھا۔ جماعت اسلامی نے صدارتی انتخابات میں ایوب خاں کے خلاف محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ دیا تھا۔ 1970ء کے عام انتخابات میں جماعت اسلامی پاکستان پیپلز پارٹی کی بڑی حریف تھی۔ جماعت اور دیگر دینی جماعتوں کی پارلیمنٹ میں اچھی سیاست کے نتیجہ میں 1973ء کے آئین میں اسلامی دفعات شامل کرائی گئیں۔ درحقیقت پاکستان میں اقتدار اگر سیکولر جماعتوں کے پاس رہا ہے تو اس کا یہ قطعی مطلب نہیں لوگ اسلام نہیں چاہتے۔ پاکستان کے عوام کو دین سے گہرا اور جذباتی لگاؤ ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں 1973ء کے آئین میں اسلامی شقیں اور 1974ء میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے والے بل کا پاس ہونا اس وقت کی رائے عامہ کی ترجمانی تھی۔ 1977ء میں نظام مصطفی تحریک اور ناموس رسالت کے ایشو پر فرقے اور مسلک بھول کر پوری قوم کا ایک ہوجانا اسلام سے محبت کی دلیل ہے۔ حالات نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ پاکستان کے صاحب اقتدار کتنے ہی طاقت ور ہوں اسلام سے متصادم کوئی فیصلہ یا قانون بنانے کی حیثیت میں نہیں ہوتے البتہ نفاذ اسلام کی راہ میں کچھ رکاوٹیںضرور ہیں جو دور ہوسکتی ہیں بشرطیکہ سیاسی عمل کا تسلسل قائم رہے۔ مسلمان کسی بھی فرقہ یا مسلک کا ہو اسلام اور پاکستان کے دشمن اس کو ایک ہی نظر سے دیکھ رہے ہیں اس لیے بہتر یہی ہے کہ پاکستان کا مطلب کیا لا الٰہ الاّ اللہ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے پوری پاکستانی قوم سنجیدہ کوشش کرے اور اسے محض جماعت اسلامی کا ہی معاملہ خیال نہ کیا جائے۔ دینی قوتیں اگر سنجیدگی سے اکٹھی ہوں گی اور پاکستان کے عوام کو ایک ہونے کا پیغام دیں گی تو عوام اپنے ووٹ سے یہ ثابت کریں گے کہ اسلام ہی ان کا مذہب، ثقافت، سیاست اور تمدن ہے اور باہر کی دنیا بھی پاکستان کی اسلامی حیثیت کو قبول کرنے پر مجبور ہوجائے گی۔