وقت کیسے گزاریں!

428

کورونا نے کاروبار زندگی کو اس طرح معطل کیا ہے کہ آدمی گھر میں قید ہو کر رہ گیا ہے۔ دفاتر بند ہیں، تعلیمی ادارے بند ہیں، کارخانے اور فیکٹریاں بند ہیں، بازار اور کاروبار بند ہیں، میل جول بند ہے، شادی اور غمی میں لوگوں کا جمع ہونا بند ہے، ٹرینیں بند ہیں، روڈ ٹرانسپورٹ بند ہے، پروازیں بند ہیں۔ جب سب کچھ بند ہے تو آدمی گھر میں تنہا بیٹھ کر کیا کرے۔ مانا کہ ٹی وی چینلز کھلے ہوئے ہیں، ٹی وی اسکرین روشن ہے لیکن ٹی وی پروگراموں میں بھی کوئی کشش باقی نہیں رہی، آدمی انہیں دیکھ کر اُکتا جاتا ہے، ویسے بھی یہ رمضان کا مہینہ ہے جس میں روزہ دار بالعموم ٹی وی دیکھنے سے گریز کرتے ہیں۔ نماز، تلاوت اور ذکر کرنے کے علاوہ جو بھی وقت بچ جاتا ہے وہ کاٹے نہیں کٹتا، اس کا بہترین مصرف یہ بتایا گیا ہے، کتابیں جو گھر پر ہیں وہی پڑھی جاسکتی ہیں اس لیے کہ لائبریریاں بند ہیں اور ان میں جو ریڈنگ رومز ہوا کرتے ہیں وہ بھی بند ہیں، لائبریریوں میں کتابیں الماریوں میں بند ہیں وہ اس لیے ایشو نہیں کرائی جاسکتیں کہ کہیں ان میں کورونا نہ چھپا بیٹھا ہو اور پڑھنے والے کو دبوچ لے۔ ڈاکخانے بند ہیں اور ڈاک کے ذریعے جو اخبارات و رسائل آتے تھے وہ بھی بند ہیں، وہ تو کہیے کہ یہ موبائل اور انٹرنیٹ کا زمانہ ہے اور اس کے ذریعے ہم ایک دوسرے سے رابطے میں ہیں، ہم اپنے گھر میں بیٹھے بیٹھے لاہور، کراچی، اسلام آباد، پشاور غرض پاکستان کے ہر شہر میں اپنے عزیزوں اور دوستوں سے اس طرح باتیں کرلیتے ہیں جیسے آمنے سامنے بیٹھے ہوں، یہی نہیں بلکہ پوری دنیا اور دنیا کے تمام شہر جادو کے اس ڈبے میں موجود ہیں اور انگلی کے ایک اشارے پر ان شہروں میں مقیم آپ کے دوست و احباب آپ سے مخاطب ہوجاتے ہیں۔ وہ آپ کو بتاتے ہیں کہ ان شہروں اور ملکوں میں کورونا کی صورت حال کیا ہے اور حکومتیں اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے کیا کررہی ہیں۔ جدہ میں مقیم ایک دوست آپ کو بتاتا ہے کہ حرم میں جراثیم کش اسپرے کا عمل مکمل ہوگیا ہے اور اسے بہت جلد زائرین کے لیے کھول دیا جائے گا۔ البتہ حرم کی انتظامی کمیٹی رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کی اجازت دینے کا ابھی فیصلہ نہیں کرپائی۔ دوبئی میں گزشتہ بیس سال سے رہائش پزیر احباب آپ کو بتاتے ہیں کہ وہ مئی کے دوسرے ہفتے میں پاکستان واپس آرہے ہیں کیوں کہ یہاں ان کا روزگار ختم ہوگیا ہے۔ امریکا، برطانیہ، فرانس، اٹلی، اسپین، آسٹریلیا، بھارت اور چین کی خبریں بھی آپ بستر پر بیٹھے بیٹھے انٹرنیٹ پر دیکھ لیتے ہیں۔ امریکا میں لوگ کھرب پتی بل گیٹس کی گرفتاری کا مطالبہ کررہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ کورونا پھیلانے کی سازش میں وہ بھی شریک ہے اور اس کی ویکسین تیار کرکے وہ اربوں ڈالر کمانا چاہتا ہے۔ امریکی کورونا کا ڈراما ختم کرنے کا مطالبہ بھی کررہے ہیں۔ اسپین میں لاک ڈائون نرم ہوتے ہی لوگ ہجوم کی صورت میں سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور خوشی کا اظہار کررہے ہیں۔ بھارت میں مسلمانوں کو کورونا کی آڑ میں انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اتر پردیش کے وزیراعلیٰ نے تبلیغی جماعت کے لوگوں کو کورونا کا ذمے دار قرار دیتے ہوئے ان کی گرفتاری کا حکم دے دیا ہے۔
آج سے پچاس ساٹھ سال پہلے کیا ہم اس بات کا تصور بھی کرسکتے تھے کہ پوری دنیا یوں ہماری مٹھی میں آجائے گی اور دنیا کے کسی کونے میں کوئی واقعہ رونما ہو، ہم گھر بیٹھے اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں گے۔ یہ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کا کمال ہے جس نے ناممکن کو ممکن بنادیا ہے۔ ورنہ جب ٹیلی فون بھی ایجاد نہیں ہوا تھا تو باہمی رابطے کا ذریعہ صرف خط ہوا کرتا تھا جو محکمہ ڈاک کی مہربانی سے مکتوب الیہ کو دو تین دن میں مل جاتا تھا۔ جب 1958ء کی ناکام جنگ آزادی کے بعد انگریزوں نے انتقاماً دلّی کو لاک ڈائون کیا تو مرزا غالبؔ کے لیے ایک ہی شہر میں رہتے ہوئے اپنے احباب سے رابطے کا واحد ذریعہ خط ہوا کرتے تھے۔ خط کے بارے میں مرزا اس نظریے کے قائل تھے۔
خط لکھیں گے چاہے کچھ مطلب نہ ہو
ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے
مرزا نے خط لکھنے کا یہ طریقہ ایجاد کیا کہ مکتوب الیہ کو تصور میں اپنے سامنے بٹھا لیتے اور اس سے باتیں کرتے جاتے، یہی باتیں قلم بند ہو کر خط بن جاتی تھیں۔ نہایت دلچسپ، برجستہ اور بے ساختہ۔ اب ہمیں نہیں معلوم کہ یہ خطوط مکتوب الیہ تک پہنچتے بھی تھے یا نہیں، ہم بس یہ جانتے ہیں کہ مرزا کے یہ خطوط کتابی صورت میں شائع ہو کر ادب عالیہ کا حصہ بن گئے ہیں اور ادب کے رسیا ان سے خط اٹھارہے ہیں۔ ہمارے کم و بیش تمام مشاہیر نے اپنے احباب کو خط لکھے ہیں اور خطوط کے یہ مجموعے بازار میں دستیاب ہیں۔ مولانا ابوالکلام آزاد کی کتاب ’’غبار خاطر‘‘ بھی درحقیقت خطوط ہی کا مجموعہ ہے جو زنداں میں خود کو مخاطب کرکے لکھی گئی ہے۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اگرچہ اپنے علمی کاموں ہی میں بہت مصروف رہتے تھے لیکن انہوں نے بھی اپنے احباب کے استفسارات کے جواب میں بہت سے خطوط لکھے ہیں جو ’’مکاتیب سید مودودیؒ‘‘ کے عنوان سے کتابی صورت میں شائع ہوچکے ہیں۔
اب کورونا ایک ایسے دور میں آیا ہے کہ موبائل پر باتصویر گفتگو کی سہولت موجود ہے ایسے میں خط کون لکھے گا اور کسے لکھے گا۔ اب ہمارے دور میں مرزا ادیب بھی نہیں ہیں جو ’’صحرا نورد کے خطوط‘‘ لکھ کر فکشن کو نیا رُخ دینے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ یہ الیکٹرونک میڈیا کا دور ہے اگر آپ میں حوصلہ ہے تو ٹیلی ویژن کے آگے بیٹھ کر اینکرز اور ان کے خود ساختہ تجزیہ کاروں کی بے مغز باتیں سنتے رہیں، ورنہ بہتر یہی ہے کہ رمضان المبارک کے ان دنوں کو بامقصد بنائیں، سیرتؐ پر کوئی کتاب گھر پر موجود ہے اور آپ اسے پڑھ چکے ہیں تو دوبارہ پڑھیں، تفہیم القرآن کا ازسرنو مطالعہ کریں، قرآن کی ایک دو آیتیں روزانہ یاد کریں، نمازوں کا اہتمام تو ظاہر ہے آپ کے معمولات میں شامل ہے ان میں تسبیحات کا اضافہ کریں، آپ اہل قلم ہیں تو اپنی یادداشتیں قلم بند کرنے کا اس سے بہتر موقع نہیں۔ پھر دیکھیے وقت کتنی تیزی سے گزرتا ہے، سچی بات ہے جو لوگ وقت گزارنے کا ڈھنگ نہیں جانتے انہیں وقت خود گزارتا ہے اور گئے گزرے لوگوں میں شامل کردیتا ہے۔