کراچی(رپورٹ:منیرعقیل انصاری)سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے 28 معطل افسران کو بحال کرنے کی کوشش شروع کردی گئی ہے۔
معطل افسران کے غیر قانونی کاموں کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی شواہد پیش کرنے میں ناکام ہے۔سپریم کورٹ کے احکامات پر ڈی جی ایس بی سی اے طفر احسن کو عہدے سے فارغ جبکہ 28 سنئیر افسران کو معطل کیا گیاتھا۔
کمیٹی کوچھ ہفتوں میں افسران پر عائد بدعنوانی کے الزامات کی تحقیقات کرکے رپورٹ پیش کرنی تھی۔ ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ کے احکامات پر دوماہ قبل ایس بی سی اے کے 28معطل کیے گئے افسران کی بحالی کی کوشیش شروع کردی گئی ہے۔
شہر بھر میں غیر قانونی تعمیرات کی بھر مار اور متعدد عمارتوں کے منہدم ہونے کے باوجود معطل افسران کے غیرقانونی کاموں کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی کسی بھی افسر کے خلاف ثبوت حاصل نہیں کرسکی ہے۔
جس کے باعث اس بات کا امکان ہے کہ افسران کے علیحدہ علیحدہ انٹرویو کے بعد افسران کو ایک ایک کرکے بحال کردیا جائے گا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ایس بی سی اے کے بااثر افسران نے تحقیقات پر اثر رسوخ کا استعمال کرکے شواہد کی موجودگی کے باوجود بچ نکلنے کا راستہ بنالیا ہے۔
یاد رہے سیکرٹری بلدیات روشن علی شیخ محکمہ بلدیات نے اختیارات کا ناجائز استعمال کرکے غیر قانونی عمارتوں کی سرپرستی کرنے اور ناجائز ذرائع سے اربوں روپے بٹورنے والے ایس بی سی اے کے 2 ڈائریکٹرز عادل عمر اور جمیل میمن،5اسسٹنٹ دائریکٹرز اویس حسین،عاصم علی خان،ظہیر استاد،ضیاء کالا،ڈیمولیشن اسکواڈ کےعبداسجاد،سابق ڈی جی ظفر احسن کے پی اے امتیاز الحق شیخ سمیت کاشف خان،عابد علی شاہ سمیت6بلڈنگ انسپکٹرزاور ایک ملازم آصف شیخ کو فوری طور پر معطل کیا تھا۔
جبکہ افسران کی بدعنوانیوں کی تحقیقات کے لئے چراغ الدین ہنگورواسپیشل سیکرٹری بلدیات کی سربراہی میں تین رکنی کمیٹی جن میں ایڈیشنل سیکرٹری بلدیات جمال الدین جلالانی اور ایڈیشنل ڈی جی ایس بی سی اے آشکار داور پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی تھی مگر اشکار داور کمیٹی سے دستبردار ہوگئے تھے۔
جس کے بعدایس بی سی اے ڈائریکٹر مشتاق سومرو کو شامل کیا گیا تھا،سیکرٹری بلدیات نے کمیٹی کو چھ ہفتوں میں افسران پر عائد غیر قانونی تعمیرات کی سرپرستی سمیت دیگر سنگین الزامات کی تحقیقات مکمل کرکے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایات دی تھیں۔
واضح رہے گزشتہ چند برسوں کے دوران ایس بی سی اے افسران اور حکام کی ملی بھگت سے شہر بھر میں ہزاروں کی تعداد میں نا صرف خلاف ضابطہ عمارتیں تعمیر کی گئیں بلکہ بھاری رشوت کے عیوض رہائشی پلاٹوں پر بھی کثیر المنزلہ عمارتیں تعمیر کرکے پورشنز فروخت کیے جاتے رہے ہیں۔
جس کے باعث ایک جانب شہر کا انفرا اسٹریکچر تباہ ہوگیا تو دوسری جانب ایس بی سی اے کو ٹیکسوں کی مد میں اربوں روپے کا خسارہ بھی اُٹھانا پڑا ہے جبکہ مختلف علاقوں میں ایس بی سی اے افسران کی ملی بھگت سے غیر قانونی تعمیر کی گئیں متعدد عمارتیں گرنے کے واقعات میں کئی قیمتی جانیں بھی ضایع ہوچکی ہیں۔
واضح رہے سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد بھی ایس بی سی اے کے بااثر افسران نے شہر بھر میں غیر قانونی عمارتوں کی سرپرستی کا سلسلہ جاری رکھا۔
جس پر چیف جسٹس نے ایس بی سی اے حکام اور سندھ حکومت پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ڈی جی ایس بی سی اے ظفر احسن کو عہدے سے ہٹانے کے ساتھ ساتھ سندھ حکومت کو غیر قانونی تعمیرات کی سرپرستی میں ملوث تمام افسران کو عہدوں سے فارغ کرنے کی ہدایات تھیں۔