عالیہ زاہد بھٹی
گزشتہ دنوں صبح ہی صبح میری ایک بہن کی جانب سے 23 اپریل کی شب اے آر وائی نیوز کے ایک ٹاک شو کی ساڑھے گیارہ منٹ کے پروگرام کا ایک کلپ (جسے زبان کی سلپ کہیں تو بہتر ہوگا) موصول ہوا اس تجویز کے ساتھ کہ ’’کچھ علاج ان دریدہ دہنوں کا بھی ہو‘‘۔ میں نے اس تجویز پر مسکراہٹ کے ساتھ کلپ کھولا اور اس میں اعتزاز احسن صاحب کی گفتگو سن کر میرے دل و دماغ کی چولیں ہل گئیں، دل تو چاہا کہ ’’جاہل کو جہل کی زبان میں سمجھاؤں مگر مجھے قرآن کی وہ آیات یاد آگئی جس میں غصے کو پی جانا ہے اور یہ بھی کہ جہلا کو بھلے طریقے سے سمجھانا ہے بحث نہیں کرنی، اگر وہ بحث کریں تو کہنا ہے ’’سلام‘‘۔ گاہے گاہے علماء کے دروس تعلیمات سے مستفید ہوتے رہنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ’’بے لگام‘‘ لفظوں کو لگام ڈال کر صفحہ قرطاس پر بکھیرنے کی کوشش کی۔ میں اس پروگرام کے چند جملے آپ کے سامنے رکھوں گی شاید آپ میری کیفیت کو سمجھ سکیں۔ اس پروگرام کے میزبان کاشف عباسی نے لاک ڈاؤن کی صورت حال پر حکومت اور علماء کے مابین اختلافات کو ’’بْھٹّے‘‘ کی طرح پیش کرکے اعتزاز احسن کے دماغ کے ’’کوئلوں‘‘ پر رکھ کر انہیں لفظوں کے پنکھے سے ہوا دے کر اس پر تبصرہ کروانے کی شر انگیزی کی تو اعتزاز احسن کسی شتر بے مہار کی طرح جو شروع ہوئے تو چپ کرانا مشکل تھا۔
میں حیرت سے اپنے دیس کے اس ’’مدبر اور مایہ ناز‘‘ (پتا نہیں یہ سب سن کر اب کس کو ناز رہے گا) قانون دان وسیاستدان کو دیکھ رہی تھی جو شخص نظریاتی اختلاف کے باوجود اپنے دھیمے اور ٹھنڈے انداز میں ہمیشہ میرے لیے باعث احترام رہا، جسے ججوں کی بحالی کے ایشو پر مجھ سمیت پاکستان عوام نے داد دی، جس کے جوش خطابت سے ہوش کو غائب ہوتے کبھی نہ دیکھا، آج اس کی شخصیت کا بت دھڑام سے نیچے گر گیا علماء کا ذکر اتنے جہل کے ساتھ؟ کہتے ہیںکہ علماء تکبر اور انا کے بھرے ہوئے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مفتی منیب الرحمن 15 سال سے عہدے پر فائز ہیں پھر بھی ملک بھر میں چاند کی رویت پر اختلاف ہوتا ہے اور دو عیدیں ہوتی ہیں۔ ہر چند کہ پی ٹی آئی سے میرا اختلاف ہے مگر فواد چودھری کے چاند والے معاملے میں ان کے ساتھ ہوں کہ ایک ساتھ پوری دنیا میں عید ہو، کرسمس وغیرہ کے حوالے بھی دیے۔
اس نامور قانون دان شخصیت نے مزید آگے بڑھ کر حملہ کیا کہ چونکہ مفتی منیب الرحمن کے کمیٹی کا چیئرمین ہوتے ہوئے دو دو عیدیں منائی جاتی ہیں سو اس ’’جرم‘‘ پر مفتی صاحب کو مستعفی ہو جانا چاہیے اعتزاز احسن صاحب! اگر مستعفی ہونے کے لیے دو عیدوں کا ملک میں ہونا جواز ہے تو پھر اس ملک کی تمام بیوروکریسی، اور اسٹیبلشمنٹ کو ہر اس دور میں مستعفی ہو جانا چاہیے تھا کہ جب: اس ملک کا پہلا وزیراعظم لیاقت علی خان قتل ہوا اور شواہد ختم کر دی گئے۔ جب نظریاتی بنیادوں پر وجود میں آنے والا ملک دس سال تک اپنے نظریے، اپنے آئین سے محروم رہا۔ جب نام نہاد اسٹیبلشمنٹ، گن پوائنٹ پر اپنے حکمرانوں سے استعفے لے کر آؤٹ کرتی رہی۔ جب اس ملک کو دو لخت کر دیا گیا۔ جب ملک توڑنے والوں کو مسندِ اقتدار پر بٹھایا گیا۔ جب وردی اتارنے کی قیمت اختیارات کی رشوت سے طے کی گئی۔ جب امریکا کی جنگ میں روس کو خاک چٹا کر خود کو جنگ کے حوالے کر دیا گیا۔ جب امریکا کا اسلحہ امریکا ہی کے ایماء پر میرے ہم وطنوں کی آبادی کو پٹاخوں کی طرح اڑا دیا گیا۔ جب اس کے اگلے دس برسوں میں اقتدار کی میوزیکل چیئر اس بیچارے سے غریب ملک کی بساط پر کھیلی گئی (اعتزاز احسن کی شمولیت کے ساتھ) جب منتخب حکومتوں کے تختے الٹے گئے۔ جب ’’خلائی مخلوق‘‘ سے امریکی جوتا چٹائی کی رسمیں کرائی گئیں۔ اور جب تبدیلی کے نام پر ریاست یہود وجود میں آئی اور آج اسی ریاست یہود کے ایجنڈے کے تحت یہ لوگ اٹھ کر لاک ڈاؤن لگا رہے ہیں تو صرف مساجد اور علماء پر مستعفی ہونے کے عوامل کی لسٹ دیکھ کر ممتاز ماہر قانون اعتزاز احسن صاحب بتا دیں کہ کس کس کو مستعفی ہوجانا چاہیے؟ یہ میڈیا اینکر صاحب جب انٹرویو کے نام پر ’’بْھٹّے‘‘ بنا رہے تھے تو وہ بتا دیں گے کہ اس وقت ان کے سمیت اس کابک نما کمرے میں تکنیکی عملے سمیت کتنے افراد تھے؟ اور روزانہ ان الیکڑونک میڈیا کے دڑبوں میں ریکارڈنگ کے نام پر ہر روز، ہر لمحہ ہر پل اتنے قریب روابط میں ان کو اس کورونا کے جرثومے سے کوئی ڈر نہیں کہ جرثومے نے ان سب کو قسم دے رکھی ہے کہ ’’میں ایک کافر جرثومہ ہوں لہٰذا میں کسی منافق، فاسق اور فاجر کو نہیں لگوں گا، البتہ مجھ سے اہل ایمان اور مساجد والے بچ کر رہیں ان کو میں چھ فٹ کے فاصلے سے بھی نہیں چھوڑوں گا اور اڑ کر ان تک پہنچ جاؤں گا اور منافقین شہر بھلے سر جوڑ کر بیٹھ جائیں میں ان کے قریب بھی نہیں پھٹکوں گا۔ ان دریدہ دہن لوگوں سے کوئی تو پوچھے کہ جب علماء اور حکومت کے درمیان کھلا کھلا معاہدہ ہو گیا کہ احتیاطی تدابیر کے ساتھ ویسے ہی مساجد کھولی جائیں گی جیسے سپر اسٹورز اور میڈیکل اسٹورز اور پرچون ودودھ دہی کی دکانیں کھلتی ہیں۔
جیسے آپ کے قانون کی دکانیں، آپ کے وزیراعظم کی میٹنگ کی دکانیں، اجلاسوں اور باتوں کی دکانیں جن احتیاطی تدابیر کے ساتھ کھل رہی ہیں کہ ہر روز اخبارات میں ایوان اقتدار کے مداری ایک ایک فٹ کے فاصلے پر اپنی ڈگڈگی بجاتے نظر آ رہے ہوتے ہیں ان میں تو ایک فٹ کا فاصلہ ہے اور مساجد کے پاکیزہ ماحول میں چھ فٹ کا فاصلہ؟ عقل کو ہاتھ ڈالیں ہم تو پھر آپ کو مساجد میں تین فٹ کے فاصلے پر آمادہ کر رہے ہیں آپ کی طرح میٹنگ میں ایک فٹ اور سیلفی میں ایک انچ کے فاصلے کی ضد نہیں کرتے پھر جس قدر زہر سمو کر اعتزاز احسن صاحب نے کہا کہ ’’کلورین سے مساجد کا فرش دھلے گا؟ کلورین کے پیسے تو مسجد کا امام کھا جائے گا‘‘۔ ان کا یہ انداز بیان اور یہ گمانِ بد ان کے پیشے اور ان کی سیاسی پارٹی کا مرہون منت ہے مجھے اس پر قطعی طور پہ غصہ نہیں آیا بلکہ ترس آیا کہ ان بیچاروں کا ماضی، حال اور مستقبل اتنا ’’غریب‘‘ ہے کہ اس میں ایک بھی صادق اور امین نہیںجبکہ ان ہی معزز عدالت ’’اسلام‘‘ اور علماء کی قدر دان جماعت اسلامی کے امیر کو صادق اور امین قرار دے چکی ہے اور یہ تو تحریک کی دیگ یعنی جماعت کا ایک امیر ہے اس جماعت کے سارے امرا الحمدللہ صداقت ودیانت کا منبع ہیں۔ یقین نہ آئے تو ان کی ذیلی جماعت الخدمت پر عوام وخواص کا اعتماد دیکھ لیں کہ دین دار طبقہ اور ہمارے امام مساجد کی ٹوٹیاں چوری نہیں کرتے وہ تو مسٹر سینٹ پرسنٹ اور ان کے ساتھی مساجد کے چندے بھی باکس توڑ کر نکلوانے کا فن جانتے ہیں سو ہمارے مساجد کے امام۔ صاحبان تک نہ پہنچیں ورنہ بات بہت آگے نکل جائے گی۔
اعتزاز احسن صاحب نے مسجدوں کے امام کی بابت اپنے خیالات کا گٹر بہانے پر بس نہیں کیا بلکہ وہ جوش خطابت میں یہاں تک کہہ گئے کہ ’’ان‘‘ کی مساجد بند کرو۔ اعتزاز احسن صاحب! یہ لفظ ’’ان‘‘ کی تشریح فرما دیں ہم تو آپ کو اپنے ہی ملک کا سمجھ رہے تھے، کیا آپ بھی الطاف حسین کی طرح بیرونی فنڈنگ کا شاخسانہ ہیں؟ اب بتا ہی دیں آپ کی شخصیت آپ کے اس بیان کی روشنی میں مشکوک ہو گئی ہے پھر میزبان کاشف عباسی نے ایک اور چٹکلہ چھوڑا کہ مفتی منیب الرحمن اور مفتی تقی عثمانی اپنے گھروں پر ہی نماز پڑھیں گے تو اس اکساہٹ پر اعتزاز احسن صاحب زہر چبا کر بولے کہ یہ لوگ ڈر کے مارے مساجد میں نہیں پڑھیں گے۔ جائیں جا کر مفتی منیب الرحمن کا وہ بیان پڑھیں دیکھیں اور سمجھ اگر ہے تو سمجھیں ان دونوں مفتیان کرام نے حکومت سے کیے گئے عہد کی پاسداری میں اپنے آپ کو نماز جمعہ کی ادائیگی سے روکے رکھا اور اب تراویح بھی وہ اسی عہد کی پاسداری میں گھر پر ادا کریں گے وجہ یہ کہ یہ دونوں مفتیان کرام بالترتیب 75اور 78سال کے ہیں اور معاہدے پر اطلاق کی صورت ان کی بزرگی ہے معاہدے کے مطابق صرف جوان افراد ہی مساجد میں احتیاطی تدابیر کے ساتھ فاصلے سے شرکت کر سکتے ہیں بزرگ اور بچے اس سے مستثنیٰ ہیں۔
اعتزاز احسن! ڈر وخوف میں اس وقت ہر وہ شخص مبتلا ہے جو ربّ پر ایمان نہیں رکھتے،الحمدللہ ہمارے علماء کرام کسی ڈر وخوف میں مبتلا نہیں ہیں ہمارے علماء اور ہم وہ لوگ ہیں جو صبح اٹھتے ہی اپنے آپ کو اپنے ربّ کے حوالے کرتے ہیں اور شام ہوتے ہی دوبارہ اپنے آپ کو اس کے مضبوط حصار میں محفوظ کر لیتے ہیں مفتی تقی عثمانی پر حملہ کرنے والوں نے بھی دیکھ لیا کہ اللہ کے یہ شیر اس وقت تک اللہ کی حفاظت میں رہتے ہیں جب تک اللہ چاہتا ہے، اور جب اللہ ہی کا بلاوہ آجائے تو کشاں کشاں نفس مطمئنہ بن کر اپنے ربّ کی رحمت بھری جنت کی طرف چل پڑتے ہیں پھر وہ بم دھماکے سے جائیں یا گولی و وبا سے، بس وہ اپنے ربّ کے بھروسے پر جیتے ہیں اور اسی کے بھروسے پر مرتے ہیں رہی بات احتیاطی تدابیر کی تو بے شک یہ میرے دین کی تعلیم اور میرے نبیؐ کا اسوہ ہے جو ہم سب پر فرض ہے، سو احتیاط اور ایفائے عہد کا فرض نبھانے کے لیے مفتی منیب الرحمن اور مفتی تقی عثمانی سمیت جتنے بزرگ علماء وافراد ہیں وہ سب ان شاء اللہ گھروں میں نماز قائم کریں گے اللہ پاک ان سب کا سایہ امت مسلمہ پر تا دیر سلامت رکھے آمین میڈیا والے اور اعتزاز احسن اپنے اوپر ترس کھائیں اور اس دریدہ دہنی پر ہمارے علماء کرام سے معافی مانگیں یاد رکھیں اس چھوٹے سے جرثومے سے تو شاید آپ بچ جائیں مگر ہر شخص کی زندگی میں جو ایک قیامت آنے والی ہے اس کی موت کی صورت وہ نہیں ٹل سکتی ہزار ہا احتیاطی تدابیر کے باوجود اک دن مرنا ہے۔