ایک اور پرانا مقدمہ

250

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حزب اختلاف کے رہنمائوں کو کسی نہ کسی طرح مقدمات میں الجھائے رکھنے کی ہر ترکیب و تدبیر بروئے کار لائی جا رہی ہے۔ اس کے لیے نیب کو بخوبی استعمال کیا جا رہا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ نیب ایک آزاد ادارہ ہے اس کا حکومت سے کوئی لینا دینا نہیں۔ یہ ایک ایسی بات ہے کہ جس پر خود پی ٹی آئی کے وزرا بھی ہنستے ہوں گے۔ وزیراعظم عمران خان جس جس کے بارے میں کہتے ہیں کہ اسے جیل میں ڈالوں گا، وہ جیل میں نظر آتا ہے۔ عمران خان کے چہیتے وزیر ریلوے شیخ رشید پیشینگوئی کرتے ہیں کہ فلاں فلاں پکڑا جائے گا۔ اور یہی ہو جاتا ہے۔ وہ ٹی وی چینلوں پر کئی بار کہہ چکے ہیں کہ شہباز شریف بچ نہیں سکیں گے، ان پر کئی سخت مقدمات ہیں اور عید کے بعد نیب مزید فعال ہو جائے گی۔ دعویٰ تو ان کا یہ ہے کہ ان کے پاس دو موکل ہیں جو خبریں دیتے ہیں لیکن ان کا اٹھنا بیٹھنا حکومتی حلقوں میں ہے جہاں سے خبریں ملتی ہیں۔ اب نیب نے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز شریف کے خلاف ایک اور مقدمہ کھول دیا ہے۔ یہ مقدمہ کئی برس پرانا ہے اور الزام یہ ہے کہ شہباز شریف نے چولستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے تحت بہاولپور کے علاقے لال سوہانرا کی 14 ہزار 400 کینال سرکاری زمین غیر قانونی طور پر من پسند افراد میں تقسیم کردی۔ اس بارے میں بھی نیب نے شہباز شریف کو سوالنامہ بھیج دیا ہے۔ ان کے علاوہ اور بھی کئی افراد کو شامل تفتیش کیا گیا ہے۔ ن لیگ کی ترجمان مریم اورنگ زیب کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ 1976ء کا ہے اس پر نیب کو شرم آنی چاہیے اور نیب کا ایک اور مذاق سامنے آگیا ہے۔ 1976ء میں ملک پر بھٹو کی حکومت تھی جس کے بعد سے مارشل لا سمیت کئی حکومتیں آئیں اور گئیں۔ لیکن کسی نے اس معاملے کا نوٹس نہیں لیا۔ اب نیب ملتان نے یہ معاملہ کھوج نکالا ہے اور فائلوں پر سے گرد جھاڑی ہے۔ ممکن ہے کہ الزام درست ہو لیکن سوال یہ ہے کہ کیا نیب آج بنائی گئی ہے۔ اس کے قیام کو بھی کئی برس گزر چکے ہیں۔ نیب کو اب ہوش آیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ابھی اور بھی کئی مقدمات بنیں گے کہ بقول شیخ رشید، بچ نہیں پائیں گے۔ چولستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے افسران کو بھی شامل تفتیش کیا گیا ہے لیکن کیا وہ افسران اب تک اپنے منصب پر ہوں گے۔ شہباز شریف پر آمدن سے زاید اثاثے رکھنے کا مقدمہ بھی چل رہا ہے اور نیب انہیں طلب کر چکی ہے۔ دو گھنٹے کے سوال جواب میں نیب مطمئن نہیں ہو سکی۔ اس ملاقات کی اندرونی کہانی سامنے آچکی ہے۔ اب نیب نے انہیں دو جون کو دوبارہ طلب کیا ہے۔ آمدنی سے زاید اثاثے رکھنے کا الزام ایسا ہے جو کسی پر بھی عاید کیا جاسکتا ہے خاص طور پر کئی وفاقی وزرا اور وزیراعظم کے درباریوں پر۔ لیکن ان کی باری آ ہی نہیں چکتی۔ گندم اور چینی کے معاملے میں بدعنوانی کے مرتکب افراد کے نام سامنے آچکے ہیں لیکن اس کی رپورٹ روک لی گئی ہے۔ دوائوں کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے کے ذمے داروں کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ اسکینڈل کے اہم کردار جہانگیر ترین کو وزیر دفاع پرویز خٹک مناتے پھر رہے ہیں۔ جب کہ خود پرویز خٹک الزامات کی زد میں ہیں۔ مالم جبہ کیس آگے ہی نہیں بڑھ رہا۔ وفاقی وزیر عبدالرزاق دائود کی کمپنی وائرس کے حوالے سے ایک دوا کی تیاری میں اجارہ داری قائم کرکے خوب منافع سمیٹ رہی ہے۔ عمران خان تو کہتے تھے کہ حکمرانوں کو تجارت نہیں کرنی چاہیے۔ لیکن خوب تجارت ہو رہی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ مخالفین کے تو پرانے پرانے کیس کھولے جا رہے ہیں لیکن اپنوں پر ہاتھ نہیں ڈالا جارہا۔ دوسری بات یہ ہے کہ مہینوں بعد بھی فرد جرم عاید نہیں ہوتی اور ملزمان کو گھسیٹا جا رہا ہے۔ میڈیا صنعت کار میر شکیل الرحمن پر 34 سال پرانا کیس ڈال دیا گیا ہے۔ گو کہ میر شکیل کا کوئی تعلق آزادیٔ صحافت سے نہیں رہا اور وہ خود کبھی آزادیٔ صحافت کے قائل نہیں رہے تاہم ایک بے بنیاد مقدمے میں انہیں ملوث کرنا محض انتقامی کارروائی ہے جس سے عمرانی حکومت کی بدنامی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ مقدمات قائم کیے جائیں تو انہیں جلد از جلد عدالت میں پیش کرکے فیصلہ حاصل کرنا چاہیے ورنہ انتقامی کارروائی سمجھا جائے گا۔اب ایک نیا معاملہ سامنے آیا ہے۔ جان بچانے والی ادویات کی آڑ میں وہ دوائیں بھارت سے درآمد کی جا رہی ہیں جو پاکستان میں تیار ہوتی ہیں۔ بھارت کے جارحانہ رویے کے پیش نظر وہاں سے تو کچھ بھی درآمد نہیں کرنا چاہیے۔ اس نے تو کروانا پھیلانے کا الزام بھی پاکستان پر عاید کر رکھا ہے۔ اس سے تجارت کیا معنی! وزارت صحت بھی عمران خان کے تحت ہے۔ دوائوں کا اسکینڈل پہلے بھی سامنے آچکا ہے جس کے ذمے دار وزیر کو عمران خان نے دوسری وزارت دے دی۔ اس نا اہلی کا مظاہرہ کب تک ہوگا؟