پیپلز پارٹی اور کراچی

509

اندرون سندھ سے 191 پولیس انسپکٹرز کی دوسری کھیپ بھی کراچی منتقل کردی گئی۔ اس سے قبل مارچ میں 73 پولیس انسپکٹرز کو کراچی منتقل کیا گیا تھا۔ کورونا وائرس کی وبا کے دوران حکومت کی جانب سے محض کراچی میں سخت لاک ڈاؤن اور دیگر اقدامات کی وجہ لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ پیپلز پارٹی کی سندھی قوم پرست حکومت کراچی والوں سے بہت محبت کرنے لگی ہے اور اسے شہر کے لوگوں کی صحت کا بھی ویسا ہی خیال ہے جیسے وہ اپنے لیڈر آصف زرداری کی صحت اور آسائش کا رکھتی ہے۔ لیکن اصل ماجرا تو اب سامنے آیا ہے کہ ملک کے سب سے بڑے شہر کے لوگوں کی مکمل توجہ کورونا کی طرف لگا کر اور سب کو لاک ڈائون کے نام پر گھروں میں قید کرکے کراچی کو ’’سندھی پولیس‘‘ کا ڈیرا بنانا چاہتی ہے۔ یہ بات صوبے کے سب ہی لوگ چاہے سندھی ہوں یا مہاجر یا پنجابی پٹھان سب ہی بخوبی جانتے ہیں کہ پیپلز پارٹی نے پولیس میں کن لوگوں کو کن مخصوص مقاصد کے لیے بھرتی کیا ہے۔
کراچی میں اردو بولنے والوں یا مہاجروں کو پولیس سروس میں ملازمتیں کراچی کے کوٹے کے حساب سے کبھی بھی نہیں ملیں اور نہ ہی مل سکتی ہیں کیونکہ سندھیوں کو ملازمتیں فراہم کرنے کا معاملہ ہو یا کچھ اور ’’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے‘‘ کا نعرہ لگا کر کراچی کے حقیقی لوگوں کے لیے دروازے ہمیشہ بند کر دیے جاتے ہیں۔ اس کے باوجود نہ جانے کیوں سندھ کے ڈومیسائل پر خالصتاً سندھی باشندوں کو پولیس میں بھرتی کرکے ترجیحی بنیاد پر اندرون سندھ سے انسپکٹرز کا تبادلہ کرکے انہیں کراچی میں تعینات کیا جارہا ہے۔ اب تک مجموعی طور پر 264 پولیس انسپکٹرز کو لاڑکانہ، میرپورخاص اور بے نظیر آباد سے کراچی میں لاکر بسانے کی شروعات کی جاچکی ہے۔ صرف سندھی پولیس افسران یا سندھ پولیس کے لوگوں کو کراچی نہیں لایا جارہا بلکہ شہر کے بلدیاتی اور ترقیاتی اداروں میں بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ کچھ عرصہ قبل سہون ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے 22 افسران کو سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ (ایس ایس ڈبلیو ایم بی) میں ایڈجسٹ کروا کر کراچی میں انہیں ان کے خاندانوں سمیت بسایا جاچکا ہے۔ اب سنا ہے کہ کراچی واٹر بورڈ، بلدیہ عظمیٰ، شہر کے سات ضلعی بلدیاتی اور تین ترقیاتی اداروں پر حکمرانوں کی نظریں جمی ہوئی ہیں کہ یہاں بھی زیادہ سے زیادہ غیرمقامی سندھیوں کو بسادیا جائے۔
آئین اور قوانین کے تحت جس ضلع کے لیے جو ملازمتیں فراہم کی جاتی ہیں ان پر بھرتی ہونے والے افراد کو اُسی ضلع میں تعینات کیا جاتا ہے۔ دوسری صورت میں اس طرح کے تقرر یا تقرریاں خلاف قانون کہلاتی ہیں۔ لیکن اب تک چونکہ قانون اور قانون پر عمل درآمد کرانے والی اتھارٹی دیگر کاموں میں مصروف ہے اس وجہ سے غیر مقامیوں کی کراچی میں تعیناتی کے سلسلے کا نوٹس نہیں لیا جاسکا۔
کراچی میں کل تھانوں کی تعداد 107 ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آئندہ کراچی کے ہر تھانے کا ایس ایچ او غیر مقامی یا سندھی ہوگا۔ ویسے غیر مقامی تھانیداروں کا سلسلہ تو برسوں سے چل رہا ہے اور اب تو تھانیدار ہی کیا پوری بستیاں غیر مقامی افراد سے بس رہی ہیں۔ خدشہ ہے کہ کراچی کے اردو بولنے والے آئندہ چند سال بعد اپنے ہی شہر میں اقلیت میں آجائیں گے۔ ایسا اس لیے ہوگا کہ پولیس سمیت صوبے کے تمام ہی اداروں کے دروازے سندھیوں کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے کھلے ہوئے ہیں جبکہ اردو بولنے والوں کے لیے یہ کبھی آزادانہ طور پر کھلے ہی نہیں تھے۔
سندھ حکومت جس آسانی کے ساتھ صوبہ سندھ کے صرف سندھی بولنے والوں کے ساتھ نوازشات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے اس سے’’شر‘‘ کی بو آرہی ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی سندھ میں اپنی گرتی ہوئی ساکھ کی بحالی کے لیے معصوم سندھیوں سے ان کی زمینوں کے عوض نوکریوں کا جھانسا دے کر کراچی میں لانے کے مشن پر جت گئی ہے۔ یہ مہاجروں سے زیادہ سندھی قوم کے خلاف سازش ہے۔ ویسے سندھی بھائیوں کی اکثریت دوسروں سے زیادہ اپنے وڈیروں اور ان کی سازشوں سے واقف ہے۔ رہی بات کراچی کے غیر سندھی باشندوں کی تو وہ ہمیشہ سے ہی اللہ توکل پر زندگی گزارتے آ رہے ہیں۔ وہ نہ گزر جانے والے کل لڑنا چاہتے تھے اور نہ ہی آنے والے کل ان کا کوئی ارادہ ہے۔ مگر پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت جو ہر سال اندرون سندھ کی ترقی کے نام پر اربوں روپے ہضم کرجاتی ہے اور 11 سال سے کررہی ہے اس کی سازشوں سے سندھ کے سب ہی باشندوں کو بچتے رہنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ کیونکہ اسی میں سندھ کے امن و ترقی کی ضمانت ہے۔