احمد محمدی
جے سی پی او اے سے علیحدگی، امریکا کا بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی کا سلسلہ جاری ہے۔ دو سال پہلے، انہی دنوں میں امریکا نے جے سی پی او اے (ایران کے ایٹمی معاہدے) سے علیحدگی اختیار کرلی۔ جے سی پی او اے(JCPOA) ایسا معاہدہ ہے جو ایران اور 5+1 ملکوں کے درمیان ہونے والی کئی سال کے مذاکرات کا نتیجہ تھا۔ یہ معاہدہ دنیا کی وہ بے مثال سفارت کاری ہے جسے دنیا بھر کی رائے عامہ اور ایلیٹ نے سراہا، یہ معاہدہ اسلامی جمہوریہ ایران کے ایٹمی معاملات کو حل کرنے کے لیے طے پایا گیا، جس سے ثابت ہوگیا ہے کہ بامقصد اور سنجیدہ مذاکرات کا نتیجہ بامقصد اور سنجیدہ ہی ہوتا ہے۔ اقوام متحدہ نے اس معاہدے کو سراہا اور اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل نے نہ صرف ایران کے خلاف پابندیوں سے متعلق قراردادوں کو ختم کیا بلکہ اسلامی جمہوریہ ایران کے کیس کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے ساتویں باب سے نکال لیا۔ ایسا دنیا میں پہلی بار ہوا تھا کہ کسی بھی دباؤ یا محاذ آرائی کے بغیر اور صرف مذاکرات اور باہمی منظوری کی بدولت ایک ملک کا کیس ساتویں باب سے نکالا گیا۔ افسوس ہے کہ امریکی حکومت کچھ ہی عرصے بعد یک طرفہ طور پر اس بین الاقوامی معاہدے سے دستبردار ہوگئی۔ امریکا کا ایٹمی معاہدے سے علیحدگی، ڈونلڈ ٹرمپ کی وہ پلاننگ تھی جو امریکی صدارتی انتخابات میں شرکت کرتے وقت اس کے ذہن میں تھی۔
4 مئی 2018 کو ٹرمپ سرکار غیر حقیقی بہانے کے ذریعے جے سی پی او اے سے دستبردار ہوگئی اور ایران کے خلاف یک طرفہ اور غیر قانونی پابندیوں کا اعلان کیا۔ یہ پابندیاں دو سال گزرنے کے بعد بھی حتیٰ کہ ایران میں کورونا کی بیماری کے پھیلاؤ کے بعد بھی جاری رہیں جس سے نہ صرف اس وائرس کے خلاف مقابلے پر تباہ کن اثرات مرتب ہوئے بلکہ عام لوگوں اور میڈیکل اسٹاف کی جان کے لیے خطرے کے طور پر ثابت ہوا۔
جے سی پی او اے سے علیحدگی ٹرمپ کی بین الاقوامی معاہدوں سے نکلنے کی پہلی کارروائی نہیں ہے، اس کی حکومت کا بین الاقوامی معاہدوں سے نکلنے اور بین الاقوامی اداروں پر اپنے مطالبات کو دھمکی اور ان کے فنڈز کا حصہ روکنے کے ذریعہ منوانا، اس کی پرانی روایت ہے۔ جے سی پی او اے سے نکلنے کے علاوہ اس کا بین الاقوامی معاہدوں سے نکلنے اور معاہدوں کو بطور آلہ استعمال کرنے کی کارروائیاں کچھ اس طرح ہیں:
پیرس ماحولیاتی معاہدے سے اوباما کی دستخط کو واپس لینا۔
بحرالکاہل (TTP) کے ممالک کے درمیان فری ٹریڈ معاہدے کی منظوری سے انکار۔
میکسیکو اور کینیڈا کے فری ٹریڈ معاہدے (NAFTA) سے علیحدگی کی دھمکی۔
اقوام متحدہ کی تعلیمی اور ثقافتی ادارہ یونیسکو سے علیحدگی۔
بیت المقدس کو اسرائیل کے دارالحکومت کے طور پر ماننا اور امریکی سفارت خانہ کو اس شہر میں منتقل کرنا۔
اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس کونسل سے علیحدگی۔
اقوام متحدہ کی فلسطین مہاجرین کی ریلیف اور روزگار ایجنسی (UNRWA) سے علیحدگی۔
عالمی عدالت جرائم کے ججوں کو پابندی کی دھمکی دینا اور سیکورٹی کونسل کو اس بات کی جانب راغب کرنا کے اس عدالت کے دائرۂ اختیار کو محدود رکھا جائے تاکہ اس کو امریکا کی افغانستان میں ایسی جرائم جو شاید جنگی جرائم بھی ہو، کی سماعت سے باز رکھا جائے۔
ایران کے ساتھ 1995 میں مودت (معاشی روابط اور قونصلر رائٹس کا) معاہدے سے نکلنا۔
سفارتی اختلافات کو جبراً حل کرنے سے متعلق ویانا کے1961 میں تیار شدہ کانونشن کے فریم ورک سے مربوط آپشنل پروٹوکول سے علیحدگی۔
ٹرمپ سرکار نے جے سی پی او اے سے نکلنے کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت کو دنیا کے مختلف موضوعات کے حوالے سے مذاکرات کی پیشکش کی تاکہ جامع موضوعات پر ایران کے ساتھ معاہدہ کر سکے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی رائے عامہ اور رہنماؤں نے اس پیشکش کو مسترد کردیا کیونکہ وہ سمجھتے تھے ایک حکومت کی بین الاقوامی معاہدوں سے یک طرفہ طور پر دستبرداری اس بات کی غماز ہے کہ اس حکومت پر بھروسا نہیں کیا جاسکتا۔ اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ نئی موضوعات اور نئی بات چیت کے دور کا انجام بھی جے سی پی او اے جیسا نہ ہو؟ امریکا کی یک طرفہ طور پر علیحدگی کے دو سال بعد اور اسلامی جمہوریہ ایران کے اقتدار اعلیٰ اور عوام کے خلاف غیرقانونی پابندیاں نیز پیوستہ دھمکیوں کی تناظر میں، دنیا کے خودمختار ملکوں کو چاہیے کہ وہ ان جیسی حکومتوں کی بین الاقوامی قوانین اور معاہدوں کی پاسداری کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ یہ جدوجہد بین الاقوامی تنازعات کو روکنے کے لیے ضروری ہے اور یقینا بین الاقوامی تعلقات کی تاریخ میں مثبت طور پر شامل ہوجائے گا۔