موتیا

172

بابا الف کے قلم سے
پرانی بات ہے۔ فجر کی نماز پڑھ کر باہر نکلے تو صبح کی دلکش خاموشی میں مسجد کے صحن میں تیز سبزپتوں کے بیچ موتیا کے پھول مسکرارہے تھے۔ رات کے آنسوئوں نے دیکھا تو وہ بھی شبنم کے موتیوں میں ڈھل کر ان پر آرہے۔ آج تک آنکھیں ان موتیا سے کلام کرتی رہتی ہیں لیکن مسئلہ یہ آن پڑا ہے کہ اب وہ موتیا آنکھوں میں اتر آیا ہے۔
رنگ خوشبو گلاب دے مجھ کو
اس دعا میں عجب اثر آیا
میں نے پھولوں کی آرزو کی تھی
آنکھ میں موتیا اُتر آیا
اس شعر میں ناصر کاظمی نے بھی لگتا ہے اپنے رنگ میں موتیا کا ہی ذکر کیا ہے
اس قدر رویا ہوں تیری یاد میں
آئینے آنکھوں کے دھندلے ہوگئے
کئی ماہ سے دائیں آنکھ میں دھندلا پن محسوس ہورہا تھا۔ وہ تتلیاں بھی جو اس کی محبت میں گلگشت رہتی تھیں تصور میں مدھم پڑنے لگی تھیں۔ اس کے لہجے کے پھول، باتوں کی نرمی، اور میٹھے بول کانوں میں آج بھی رس گھو لتے ہیں، خوشبو بن کر طواف کرتے ہیں لیکن اس کی محو دعا جیسی صورت تصاویر کے کلکشن میں دیکھوں تو کم نظری آڑ بن جاتی ہے۔ جسے زمانے سے چھپانا چاہتے تھے اب وہ ہم سے بھی چھپنے لگی تھی۔
اس کو خوشبو کی طرح ساتھ بھی رکھوں اپنے
اور پھر اس کو زمانے سے چھپانا چاہوں
جب لفظ آپس میں گڈ مڈ ہونے لگے۔ معاملہ تشویش کو چھونے لگا تو بالآخر ہم سا سست بھی ڈاکٹر کی قطار میں لگ گیا۔ پہلے ایک آنکھ کے ماہر نے کمپیوٹر پر دیکھا، دوسرے نے عدسوں کی مدد سے جسم کے دروازوں پر نظر کی۔ پھر دونوں نے ایک پرچی تھما کر تیسرے ماہر کی طرف ریفر کردیا۔ اس نے پھر کمپیوٹر سے ٹھوڑی اور ماتھا لگوا دیا۔ شوگر کا پوچھا، بلڈ پریشر کا جانا اور پھر ہمیں آگاہ کیا آپ کی دائیں آنکھ میں موتیا اتر آیا ہے۔ موتیا اس صورت بھی زندگی میں آئے گا کہ زندگی کو چُور چُور نظروں سے دیکھنا پڑے گا؟ کب سوچا تھا۔ آنکھ میں ایک لینس ہوتا ہے جب تک وہ صاف شفاف رہے دنیا بھی صاف شفاف رہتی ہے۔ نظر آنے والی ہر شے کا عکس دماغ تک صاف شفاف پہنچتا ہے اگر کسی وجہ سے یہ لینس خراب ہوکر موتیا سا بن جائے تو دماغ تک تصویر بھی دھندلی پہنچتی ہے۔ اس کا علاج آپریشن اور آنکھ میں مصنوعی لینس کی تعیناتی۔ ڈاکٹر نے لینسوں کی اقسام اور قیمتیں گنوائی اور آپریشن کے اخراجات بتائے تو اتنے تھے کہ جیب نظر چرانے لگی۔
اتنا مہنگا لگایا لینز کہ اب
ہوگئیں خوب مال دار آنکھیں
لینز سے ہمارا تعارف ایشوریا رائے کے ذریعے ہوا تھا۔ ہم ایشوریا کی نیلی نیلی حسین آنکھیں دیکھتے تو چکرا کر رہ جاتے۔ یا خدایا آنکھیں اتنی حسین بھی ہو سکتی ہیں۔
اس کی آنکھوں کو غور سے دیکھو
مندروں میں چراغ جلتے ہیں
تمہاری آنکھوں کی توہین ہے ذرا سوچو
تمہارا چاہنے والا شراب پیتا ہے
اس کی آنکھوں کو کبھی غور سے دیکھا ہے فراز
سونے والوں کی طرح جاگنے والوں جیسی
تیرے لفظوں میں وہ تفصیل کہاں
اپنی آنکھوں سے کہو بات کریں
ایشوریا کی آنکھیں دیکھتے تو آنکھوں پر کہے گئے اشعار کی بارش سی ہونے لگتی تھی۔ ایک مرتبہ ایک دوست کے سامنے اس موضوع پر بات ہوئی تو اس نے ہمیں اس بحر نیلگوں کی حقیقت سے آگاہ کیا
ہے واقعی کمال یہ کنٹیکٹ لینز کا
اک بحر نیلگوں جواس کی چشم تر میں ہے
ہم کالم میں لکھنا چاہتے تھے کہ اس معاملے میں کوئی آئی اسپیشلسٹ رہنمائی کرسکیں تو بندہ حاضر ہے لیکن پھر خیال آیا مریضوں کو دیکھنے اور نوٹ گننے سے اتنی فراغت کہاں ملتی ہو گی کہ ڈاکٹرز اخباری کالمز پڑھ سکیں۔ ایک دوست جو موتیا آپریشن سے گزر چکے تھے ان سے آپریشن کے بارے میں رجوع کیا تو بولے آپریشن سے پہلے الٹرا سائونڈ اور بلڈ پریشر کیا جاتا ہے۔ شوگر ٹیسٹ کی جاتی ہے۔ بار بار آنکھ میں دوا ڈالی جاتی ہے۔ اس کے بعد آپ کو اندر لے جائیں گے۔ وہاں آنکھ کو سن کرنے کا انجکشن لگایا جائے گا۔ اس کے آدھ گھنٹے بعد سرجری کی میز پر لٹادیا جائے گا۔ چھ سات منٹ لگیں گے اور آپریشن مکمل۔ یہ سب سن کر ہم سکتے میں آگئے۔ گھبرا سے گئے۔ آنکھ سن کرنے کا انجکشن، سرجری کی میز!! لیکن یہ سب وہ اس مزے سے سنا رہے تھے جیسے شادی کے پر مسرت لمحات کا حال سنارہے ہوں۔
آج کے روز وہ آئے ہیں بڑی دیر کے بعد
آج کا روز بڑی دیر کے بعد آیا ہے
ہم نے پوچھا ’’آپریشن مکمل ہونے کے بعد ڈاکٹر کیا کہیں گے‘‘۔ چڑ کر بولے ’’میز سے اٹھنے اور باہر جانے کا کہیں گے اور کیا کہیں گے‘‘۔ ان کا انداز ایسا تھا جیسے اٹھانے اور جانے کا کہنے سے پہلے ڈاکٹر صاحب استغفراللہ، استغفراللہ کا ورد ضرور کریں گے۔ ہم نے پوچھا ’’پھر‘‘ بولے ’’باہر موجود اسٹاف آنکھ پر پٹی لگا کر چند ہدایات دے گا۔ دوگھنٹے بعد پٹی اُتاردی جائے گی۔ ہر گھنٹہ بعد آنکھ میں ایک ایک قطرہ آئی ڈراپ کا ڈالنا ہوگا اور کوئی ایسا کام نہیں کرنا ہوگا جس سے دماغ پر زور پڑے‘‘۔ ہم نے کہا لیکن ہمیں تو اخبار کے لیے کالم لکھنا ہوتا ہے اس پر انہوں نے جو جواب دیا حفیظ جالندھری یاد آگئے۔ ایک مرتبہ حفیظ جالندھری کو بھی ڈاکٹر نے کہا تھا ’’آپ کو کوئی ایسا کام نہیں کرنا ہے جس سے دماغ پر زور پڑے‘‘۔ ضمیر جعفری بولے ’’بھئی یہ آج کل شاہنامہ اسلام لکھ رہے ہیں‘‘۔ ڈاکٹر نے جواب دیا ’’کوئی بات نہیں وہ آپ لکھتے رہیں‘‘۔ ہماری کالم نگاری کے بارے میں بھی جواب یہی تھا اور درست تھا۔ کورونا اور حکومت کے خلاف لکھنے کے لیے ذہن پر زور کب ڈالنا پڑتا ہے۔