یوم بدر معرکہ حق وباطل

363

قاسم جمال
17رمضان المبارک اسلامی تاریخ کا وہ عظیم الشان دن ہے جب اللہ تعالیٰ نے اپنی نصرت کے ذریعے مسلمانوں کو فتح مبین سے نوازا اورحق وباطل کے درمیان فرق کھل کر سامنے آیا۔ اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت کے نتیجے میں 313 نہتے مسلمانوں نے وقت کی سپر طاقتوں کو شکست فاش دی اور ثابت کر دیا گیا کہ اگر ایمانی کیفیت اور اللہ پر پختہ یقین ہوں تو جنگیں اسلحوں ٹیکنالوجی اور افرادی قوت سے نہیں جیتی جاتی۔ جنگیں اپنے ایمان اور کامل یقین سے جیتی جاتی ہیں۔ ہجرت کے دوسرے سال ہی جب کفار کے ایک ہزار کے لشکر کے سامنے اللہ کے رسول ؐاپنے 313وفادار سرفروشوں کو لیکر میدان بدر میں تن تنہا کھڑے ہوگئے۔ بے سروسامانی کے عالم میں دین اسلام کے سرفروش وقت کی سپر طاقت سے جا ٹکرائے اور اپنے ایمانی جذبے کے ذریعے کفار کو شکست فاش دے کر قیامت تک کے لیے دین کا پرچم بلند کردیا اور بدر کی فتح نے مدینے کی اسلامی ریاست کو استحکام بخشا۔ رسول اللہ ؐجو خود اس معرکے کی قیادت کر رہے تھے۔ آپ نے اپنے تمام ساتھیوں کو میدان جنگ میں جمع کیا اور اللہ سے دعا اور رجوع کرتے ہوئے کہا کہ ’’اے میرے مالک میں نے تیرے دین کی خاطر تیرے ان کمزور بندوں کو جمع اور تیارکیا ہے یہ بظاہر بہت کمزور لاغر ہیں لیکن تیرے دین پر مٹ مٹنے والے اور اپنی جان مال اسباب لٹانے والے ہیں۔ اے میرے ربّ تو کمزوروں کو قوی کردیتا ہے آج یہ تیرے بندے تیرے دین کو بچانے آئے ہیں تو انہیں کامیابی اور کامرانی عطا فرما اگر یہ شکست کھا گئے تو قیامت تک تیرے دین پر کام کرنے والا کوئی نہیں ہوگا‘‘۔ اللہ کے رسول ؐ کی یہ دعا رب کے حضور مقبول ہوئی پھر چشم فلک نے دیکھا کہ اللہ کے فرشتے میدان بدر میں اترے اور کفار کو عبرت ناک شکست ہوئی۔
دنیا کی تاریخ میں معرکہ بدر بڑی تاریخی اہمیت کا حامل ہے کہ مٹھی بھر مجاہدین نے اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کو شکست فاش دی اور اس معرکہ میںمسلمانوں کے صرف 14صحابہ شہید ہوئے اور کفار کے لشکر سے72کافر واصل جہنم ہوئے اور بڑی تعداد میں ان کافروں کو جنگی قیدی بھی بنایا گیا۔ کفر اور اسلام کی اس پہلی لڑائی اور جنگ نے مسلمانوں کو عظیم الشان فتح سے نواز۔ قرآن میں اس کا ذکر ’’یوم فرقان‘‘ کے نام سے آیا ہے۔ اس جنگ میں کفار کے پائوں اکھڑ گئے ان کا بڑا جانی مالی نقصان ہوا۔ دین اسلام کا سب سے بڑا دشمن ابوجہل دو معصوم بچوں معاذ اور معوذ کے ہاتھوں مارا گیا۔ معرکہ بدر رہتی دنیا تک مسلمانوں کے لیے ایک سبق ہدایت اور رہنمائی کا راستہ ہے۔ معرکہ بدر نے دنیا پر ثابت کیا کہ جنگوں میں اسلحہ طاقت اور جنگی قوتوں کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی بلکہ جنگوں میں ایمانی قوت کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ پختہ ایمان اور کامل یقین ایک ایسی قوت اور ایسا اسلحہ ہے کہ کوئی بارود اور ایٹم بم بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا ہے اور نہ اس کے سامنے ٹھیر سکتا ہے۔ آج کی دنیا کا ہم جائزہ لیں تو اس کی واضح مثال ہمیں افغانستان میں نظر آتی ہیں کہ 42سے زائد ناٹو فورسز نے دنیا بھر کا تمام اسلحہ بارود افغانستان میں گرایا۔ افغانستان کو مٹی کا ڈھیر بنا دیا گیا۔ افغانوں کی چوتھی نسل آج گولیوں بارود کی گھن گرج میں پروان چڑھ کر جوان ہورہی ہے اور ان کے عمل سے محسوس ہورہا ہے کہ انہیں کوئی جلدی بھی نہیں ہے۔ افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے بعد آج امریکا اور اس اتحادی افغانستان سے نکلنے کا راستہ تلاش کر رہے ہیں۔ بے شک اللہ ربّ العالمین ہے وہ ایک مچھر کے ذریعے فرعون کو ہلاک کردیتا ہے۔ آج کشمیر، فلسطین، افغانستان، شام، عراق، بھارت، برما میں مسلمانوں پر بدترین ظلم ڈھائے جا رہے ہیں۔ مسلمانوں کا خون ناحق پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے۔ مسلمان آج دنیا بھر میں ذلیل ورسوا صرف اس وجہ سے ہورہے ہیں کہ انہوں نے اپنے ربّ سے تعلق کو ختم کر دیا۔ قرآن جو ہدایت اور رہنمائی کی کتاب ہے اور ہر دور میں اس کتاب سے رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اس نسخہ کیمیا کو ہم نے اپنی اوطاقوں میں سجا کر رکھا ہوا ہے۔ مسلمان آج وہی جوش جذبہ اور ولولہ پیدا کریں جو میدان بدر میں تھا تو باطل کی تمام قوتیں آج مسلمانوں کے سامنے سرنگوں ہوجائیں گی اور دنیا کی کوئی طاقت اور قوت انہیں شکست فاش نہیں دے سکے گی۔
آج امریکا دنیا کا سب سے بڑا طاغوت بنا ہوا ہے اور پوری دنیا کو اس نے یرغمال بنایا ہوا ہے۔ دنیا کی تمام ایٹمی قوت، اسلحہ، جنگی سازوسامان لائو لشکر، میزائل ٹیکنالوجی، وائرس ہتھیار سے لیس ہے۔ دنیا میں آج جنگ لڑنے کے قاعدے اور قوائد بھی تبدیل ہوچکے ہیں۔ طاقت کی اس دوڑ اور کھیل نے ہم کو خود ہی اپنا دشمن بنا دیا ہے۔ دنیا کو امن اسلحہ گولہ بارود سے نہیں بلکہ اسلام کے عادلانہ نظام سے ہی حاصل ہوسکتا ہے۔ امت کے حکمراں آج اپنے ایمانی جذبات کی ترجمانی کریں اور ظلم اور طاغوت کے نظام کے خلاف کھڑے ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ کی نصرت آج بھی نازل ہوسکتی ہے۔ قرآن سے تعلق کو مضبوط بنانا ہوگا۔دنیا بھر کی شیطانی قوتوں سے نجات حاصل کرنی ہوگی اور ان کے شکنجے سے خود کو آزاد کرنا ہوگا۔