کورونا ٹیسٹنگ کٹس… تحقیقات کی ضرورت

445

دو تین روز سے سندھ میںکورونا کے ٹیسٹ اور اس کے مثبت نتائج میں اضافے پر شبہات کا اظہار کیا جا رہا تھا لیکن پیر پگارا کے گائوں پیر جو گوٹھ میں بیک وقت تین سو مریضوں کے انکشاف نے ایک دھماکا کر دیا ان مریضوں میں پیر پگارا کے بیٹے راشد شاہ بھی شامل تھے لیکن انہوں نے شبہات کا اظہار کیا اور ڈائو لیب سے دوبارہ ٹیسٹ کرایا جو منفی آیا اس کے بعد جی ڈی کے رہنمائوں نے پریس کانفرنس کر کے حکومت سندھ کو بر طرف کرنے کا مطالبہ کر دیا اور الزام عاید کیا کہ حکومت سندھ صوبے کے عوام سے بھی دشمنی کر رہی ہے اور ملکی معیشت کو بھی خطرے میں ڈال رہی ہے ۔ انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ وفاقی حکومت پیر جو گوٹھ میں دوبارہ ٹیسٹ کرائے ۔ اس سے قبل پی ٹی آئی کے رہنما خرم شیر زمان نے دعویٰ کیا تھا کہ پیپلز پارٹی اپنے مقاصد کے لیے مریضوں کی تعداد زیادہ ظاہر کر رہی ہے جس پر وفاقی وزیر اسد عمر نے کہا کہ خرم شیر کا بیان غیر ذمے دارانہ اور حقائق کے منافی ہے ۔ معاملہ صرف ایک طرف کا نہیںہے ۔ سندھ پیپلز پارٹی کے رہنما رکن قومی اسمبلی عبدالقادر پٹیل نے الزام لگایا ہے کہ پنجاب میں وزراء کی سفارش پر ٹیسٹ منفی کیا جا رہا ہے۔ عبدالقادر پٹیل نے پی ٹی آئی کی حکومت پنجاب پر الزام لگایا ہے اور خرم شیر زمان نے پیپلز پارٹی کی حکومت سندھ پر ،اب جی ڈی سی اے نے بھی الزام عاید کر دیا ہے بلکہ جی ڈی اے کے پاس تو ثبوت بھی ہے ۔ ان الزامات اور جوابی الزامات سے یہ تو ظاہر ہو رہا ہے کہ وفاق اور سندھ کے درمیان کورونا سیاست ختم نہیں ہوئی ہے لیکن جو الزامات لگائے گئے ہیں وہ نہایت سنجیدہ تحقیقات کا تقاضا کر رہے ہیں کیونکہ یہ الزامات محض سیاسی حکومتوں پر نہیں ہیں بلکہ حکومت کے کہنے پر ٹیسٹ مثبت یا منفی ظاہر کرنے والے ڈاکٹروں اور لیبارٹریز کی پوزیشن بھی مشتبہ ہو رہی ہے ۔ اگر سندھ حکومت پر الزام ہے کہ وہ کیسز زیادہ ظاہر کر رہی ہے اور یہ الزام درست ہے تو اس کام میں ان کے ساتھ طبی عملہ بھی ملوث ہوا اسی طرح عبدالقادر پٹیل کا دعویٰ اگر درست ہے کہ پنجاب میں وزراء کے کہنے پر ٹیسٹ منفی کیے جا رہے ہیں تو سارا قصور اس اعتبار سے وزراء اور حکومت کے کہنے پر ٹیسٹ مثبت یا منفی کرنے والوں کا ہوا ۔ انہیں تو کسی صورت سمجھوتا نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ انسانی زندگی کا معاملہ ہے ۔ یا پھر ٹیسٹ کرنے والے ادارے آگے بڑھیں اور دونوں سیاسی پارٹیوں کو خاموش کرائیں اور نتائج کی ذمے داری قبول کریں ۔ لیکن پیر پگارا کے بیٹے کے ٹیسٹ کا کیا کریں ان کے پاس تو ثبوت ہے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہر آدمی تو راشد شاہ کی طرح وسائل نہیں رکھتا کہ ایک ٹیسٹ مثبت آ گیا تو دوسرا کرا لے ۔ وہ تو ٹیسٹ مثبت آتے ہی مجرموں کی طرح اسپتال میں بھرتی ہو جاتا ہے یا گھر میں قید ۔ اس کی سنے گا کون ۔سب سے بڑا ظلم تو کراچی پر ہو رہا ہے حکمراں کراچی کے نہیں ہیں اس لیے ان کا نشانہ خصوصی طور پر کراچی ہے ۔یہاں کا پیسہ لندن گیا تو پلٹ کرنہیں آیا ۔کوئی آگے بڑھے تو کراچی کو بھی ریلیف ملے۔ اگر سندھ حکومت کو یاد نہ ہو تو اب یاد آ گیا ہو گا کہ اس نے ابتداء میں وفاق سے ملنے والی کٹس میں خرابی کا ذکر کیا تھا لیکن صوبوں اور وفاق کے اجلاس میں ڈانٹ پڑنے کے بعد خاموش ہو گئے تھے ۔ اب ہو سکتا ہے کہ یہی بیان دیا جائے کہ ہم نے تو پہلے ہی کٹس کے غیر معتبر ہونے کا بتا دیا تھا ۔لیکن حکومت سندھ کو اس خاموشی کا بھی جواب دینا ہوگا ۔ بہر حال کورونا ٹیسٹنگ کے حوالے سے معاملات مشتبہ ہیں یا کٹس غیر معیاری اور زیادہ تر ٹیسٹ مثبت ظاہر کرنے والی ہیں یا پھر عملہ ملوث ہے دونوں معاملات کی آزادانہ تحقیقات ہونی چاہیے ۔ کم از کم تنزانیہ کے صدر جتنی ہمت تو کر لی جائے جس نے یہ محسوس کیا کہ تنزانیہ میں تیزی سے کورونا پھیل رہا ہے تو اس نے کچھ نمونے نیشنل لیبارٹری کو بھجوا دیے لیبارٹری والوں کو معلوم نہیں تھا کہ یہ نمونے کس چیز کے ہیں اور جب رپورٹ آئی توپتا چلا کہ صدر نے مختلف جانوروں ، پھلوں اور گاڑیوں کے آئل کے نمونے بھیجے تھے جن میں ایک بکرے ، ایک بٹیر اور ایک پپیتے کا کورونا ٹیسٹ مثبت آ گیا ، اس کے بعد تنزانیہ کے صدر نے تمام کٹس ضبط کرتے ہوئے فوج کے حوالے کر دیں اور لیبارٹری کے انچارج کو گرفتار کر لیا ۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ ہمارے حکمران کچھ بھی کرنے بلکہ سوچنے کی بھی ہمت نہیں رکھتے ۔ کیا معلوم یہ کٹس آئی ہی غلط ہوں ۔کیا ان کا تجزیہ کرنے کے لیے کوئی لیبارٹری ہے یا ہے تو اس معاملے میں بھی پولیوویکسین کی طرح بے بس ہیں کہ اقوام متحدہ کی اجازت کے بغیر ہم اس ویکسین کا تجزیہ بھی نہیں کر سکتے ۔ اگر ایسا ہے تو پھر حکومت اور قوم اس نتیجے کا انتظار کرے جو نتیجہ نکالنے والے نکالنا چاہتے ہیں ۔ وفاقی حکومت معاملات صوبوں پر اور صوبے وفاق پر ڈال رہے ہیں ۔18ویں ترمیم آڑے آرہی ہے ۔ وغیرہ وغیرہ لیکن پاکستان میں تو ہم نے بار ہا دیکھا ہے کہ وفاق کو جب کچھ کرنا ہوتا ہے تو آئین بھی ایک جانب رکھ دیا جاتا ہے ۔ نیشنل سیکورٹی کے نام پر سب کچھ ہو جاتا ہے۔ شہری کی آزادیاں بھی سلب ہو جاتی ہیں انسانی حقوق بھی ۔ کورونا تو سندھ اور وفاق دونوں کے خیال میں عوام کی صحت کا مسئلہ ہے اور دونوں کو عوام کی صحت بہت عزیز ہے تو پھر اس معاملے میں سو کیوں رہے ہیں ۔ سو رہے ہیں یا حکم کی تعمیل کر رہے ہیں ۔ لیکن معاشرے کا پڑھا لکھا طبقہ ضرور سو رہا ہے ۔ کسی چیز کا خود تجزیہ نہیں کر رہا ۔ انتخابات تک میں بھیڑ چال چلتے ہیں اورنتائج بھگت رہے ہیں ۔