پرل ہاربر، نائن الیون اور کووڈ 19

524

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر چین پر کورونا وائرس پھیلانے کا الزام عائد کرتے ہوئے اسے امریکا پر پرل ہاربر اور ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے بڑا حملہ قرار دیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ٹرمپ چین کو اس حملے کا مرتکب قرار دے کر ماضی کے دو خوفناک حملوں کے ساتھ جوڑ رہے ہیں۔ یہ خوفناک حملے اپنے اثرات کے لحاظ سے صرف اسی زمان ومکان تک محدود نہیں رہے تھے بلکہ ان حملوں کے ذمے داروں کو نہ صرف خمیازہ بھگتنا پڑا تھا بلکہ اس کے بعد دنیا بڑی حد تک تبدیل ہو کر رہ گئی تھی۔ پرل ہاربر دوسری جنگ عظیم کا نقطۂ کھولائو اور ہیرو شیما اور ناگاساکی جیسے شہروں کے نشان عبرت بن جانے کا قصہ ہے۔ 1941 میں ہوائی کے علاقے میں پرل ہاربر میں کھڑے امریکی جنگی بحری بیڑے پر جاپانی کمانڈوز نے صبح پو پھٹتے ہی سخت حملہ کیا تھا۔ جاپانی کمانڈوز جہازوں کی چمنیوں سے اندر داخل ہوئے تھے اور ڈھائی ہزار کے قریب امریکیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ اس وقت تک امریکا دوسری جنگ عظیم میں بظاہر غیر جانب دار پوزیشن لیے ہوئے تھا۔ بے خبری میں دبوچے جانے کی اس کوشش پر مشتعل ہو کر امریکا نے دوسری جنگ عظیم میں اتحادیوں کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تھا جس کے بعد امریکا نے جنگ کا پانسہ پلٹنے کے لیے جاپان کے دو شہروں پر ایٹم بم برسانے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس ایٹمی حملے نے جنگ کے اختتامی مرحلے کو قریب کر دیا اور یہ دنیا کی ایک نئے انداز سے تشکیل کا آغاز تھا۔ ہیرو شیما اور ناگاساکی کی داستان عبرت تاریخ اور نصاب کا حصہ بن کررہ گئی اور آج تک لوگ اس تباہی کی مثالیں دیتے ہیں۔
ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے حملے کو نائن الیون بھی کہا جاتا ہے۔ 2001 میں القاعدہ نامی تنظیم نے امریکی جہازوں کو اغوا کر کے امریکا کے اہم مراکز پر گرانے کی کوشش کرکے عالمی منظر کو بدلنے کی کوشش کی تھی۔ اس حملے میں امریکا کی اقتصادی طاقت اور سرگرمی کا نشان ورلڈ ٹریڈ سینٹر آن واحد میں ملبے کا ڈھیر بن گیا تھا۔ اس واقعے کو دوسرے روز ہی امریکی اخبارات نے پرل ہاربر سے زیادہ ذلت آمیز لکھا تھا۔ امریکا نے اس واقعے کے ردعمل میں دنیا کے ان تمام ملکوں کو نشان عبرت بنانے کا اعلان کیا تھا جو کسی بھی انداز سے اس میں ملوث پائے گئے۔ افغانستان میں امریکا کا حملہ اس ردعمل کا پہلا مظاہرہ تھا۔ پھر یہی جنگ پاکستان تک پھیلا دی گئی اور مشرق وسطیٰ میں عراق اسی لپیٹ میں آگیا۔ یہ آگ عراق تک محدود نہیں رہی بلکہ مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک اس زد میں آگئے اور عتاب وعقوبت کا جو دفتر نائن الیون کے بعد سے کھلا تھا دوعشرے گزرنے کے بعد بھی کھلا پڑا ہے اور مشرق وسطیٰ سمیت کئی ممالک اسی کی قیمت چکا رہے ہیں۔ امریکا نے نائن الیون کے بعد اپنا ورلڈ آرڈر نافذ کرنے کی بھرپور کوشش کی اور کہیں وہ اس مقصد میں کامیاب رہا اور کہیں مزاحمت کے باعث اس کے قدم آگے نہ بڑھ سکے۔ نائن الیون کے بعد ہزاروں افراد مارے جا چکے ہیں مگریہ خونیں کھیل ختم نہیں ہو رہا۔ اب جب سے کورونا نمودار ہوا ہے یہ امریکا اور چین کے درمیان جواب اور جواب الجواب کا موضوع بن کر رہ گیا ہے۔ چین نے اسے امریکی تخلیق قرار دیا اور امریکا اسے چین کی کارستانی قرار دے رہا ہے۔ کورونا نے دنیا کی طاقتور ریاستوں کے رعب وبدبے کو واقعتا پانی کا بلبلہ ثابت کیا ہے۔ ان کی مضبوط معیشت، بہترین انتظامات، وسائل، ترقی، سہولت سب ایک وائرس کے ہاتھوں بے اثر اور بے وقعت ہو گیا ہے۔ عام آدمی کا اپنی ریاستوں پر ایمان متزلزل ہو گیا ہے۔ نائن الیون کے بعد جنگ وجدل کا جو انفرا اسٹرکچر کھڑا کیا گیا وہ اپنے عوام کا ریاست پر اعتماد بحال کرنے اور ان کا احساس عدم تحفظ ختم کرنے کے تصور کے گرد گھومتا تھا۔ اب بھی امریکا جیسے ترقی یافتہ ملکوں کو دوبارہ عوام کا احساس عدم تحفظ ختم کرنے اور ان میں اعتماد پیدا کرنے کے لیے بہت بڑا انفرا اسٹرکچر اور ڈھانچہ درکار ہوگا۔ مشکل کی گھڑی میں ریاست کے وسائل کے بجائے خود عوام کی اپنی احتیاطی تدابیر ہی ان کے کام آرہی ہیں۔
ٹرمپ نے معاملے کی سنگینی کو مزید واضح کرنے کے لیے اسے پرل ہاربر اور نائن الیون سے زیادہ بڑا حملہ قرار دیا ہے جس کے بعد کئی سوالات پیدا ہونے لگے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کورونا بحران ختم ہونے کے بعد بھی اس کے معاشی، سیاسی اور سماجی اثرات قائم رہیں گے اور دنیا کو ایک خطرے کے احساس کے تحت اپنے معاملات اور معمولات کو ایک نئے انداز سے ترتیب دینا ہوگا۔ انہی میں ایک معاملہ یہ بھی ہے کہ امریکا اور چین کے درمیان مسابقت اور خلیج میں مزید اضافہ ہوگا۔ کورونا نے دنیا کے دوسرے ملکوں کی طرح امریکا کی معیشت کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے اور ہزاروں افراد بے روزگار ہونے کے باعث ٹرمپ کی ذاتی اور سیاسی مشکلات بڑھ گئی ہیں وہ اگلے انتخابات میں افغان جنگ کے خاتمے جیسی چند بڑی اور نمائشی کامیابیاں دکھا کر معرکہ جیتنے کی منصوبہ بندی کیے بیٹھے تھے کہ کورونا اس انتخابی رنگ میں بھنگ ڈال گیا۔ کورونا کے اثرات سے نمٹنا، عام آدمی کے معاشی حالات کو سدھارنا ایک نئی مشکل ہو کر رہ گئی ہے۔ اب ٹرمپ نے اسے پرل ہاربر پر جاپانی اور ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر القاعدہ کے حملے سے بڑا قرار دیا تو اس کا مطلب ہے کہ امریکا ماضی کے ان دوحملوں کی طرح اپنی زخمی انا کی تسکین کی خاطر انتقام لینے کا راستہ اپنائے گا۔ اگر اسے یہ یقین ہے کہ کورونا چین کی لیبارٹری میں تیار ہوا ہے اور اسے امریکا کے خلاف حیاتیاتی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا ہے تو پھر وہ اس کا بدلہ لینے کے لیے پرل ہاربر کے ردعمل کی طرح ایک اور ’’ہیرو شیما‘‘ یا نائن الیون کے ردعمل کی طرح ایک اور ’’تورا بورا‘‘ سجائے گا۔ اس انتقامی سوچ کا مطلب چین کا گھیرائو تیز کرنا اور اس کی معیشت اور فوجی قوت کو توڑنا ہے۔ جنوبی چین کے سمندروں میں پہلے دونوں کے درمیان طاقت اور بالادستی کا جو کھیل چل رہا ہے وہ کسی تصادم کی شکل بھی اختیار کر سکتا ہے۔ امریکا کی طاقت اور بڑائی کا ایک نفسیاتی تاثر کورونا کے باعث شروع ہونے والی بے بسی نے اسی طرح چکنا چور کر دیا ہے جس طرح نائن الیون اور پرل ہاربر کے حملوں نے امریکا کا عالمی سحر توڑ کر رکھ دیا تھا اور اس سحر کو بحال کرنے کے لیے امریکا کو خوف ودہشت کا ایک ماحول بنانا پڑا تھا۔ کورونا کو بھی اگر امریکی اسی زاویے سے دیکھنے لگے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اس تاثر کو بدلنے کے لیے کوئی بڑا کھیل شروع کر سکتے ہیں۔ یہ صرف امریکا اور چین کے لیے ہی نہیں پوری دنیا کے لیے ایک خطرناک موڑ اور مرحلہ ہوگا۔