سندھ ہیلتھ کمیشن اور کورونا

390

اب الیکٹرونک میڈیا پر خبر آگئی ہے کہ ایوان وزیراعلیٰ سندھ کے 30 ملازمین کورونا کی لپیٹ میں آگئے ہیں۔ اخبارات کی خبر ہے کہ سی ایم ہاؤس کے 10 ملازمین کورونا وائرس کا شکار ہوگئے۔ میں نے صوبے حالت اور وزیراعلیٰ کی پریشانی کو بھانپتے ہوئے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ’’حکمرانوں کو کورونٹائن کردیا جائے‘‘۔
میرا تو ایمان ہے کہ ’’بیماری آتی ہے تو شفاء اللہ دیتا ہے‘‘۔ مگر دنیا بھر کی طرح وطن عزیز میں بھی حکمراں اپنے طور پر احتیاط کے نام پر ایسی احتیاط کرنے لگے جس کی ‘‘تاریخ‘‘ میں مثال نہیں ملتی۔ محمد بن قاسم کا مقتوحہ سندھ حکومت تو ہر معاملے میں دو ہاتھ یا دو قدم آگے نظر آتی ہے۔ معاملہ کرپشن کا ہو یا کوئی اور سائیں سرکار سب سے ایک جیسا طرز عمل رکھتی ہے۔ ملک میں سندھ کی حکومت ایسی ہے جو وفاق کے ساتھ نہیں چل رہی بلکہ اپنی مرضی اور منشاء کے مطابق 18 ویں ترمیم سے فائدے اٹھاتے ہوئے چل رہی ہے۔ صوبے کے دارالحکومت کے مسائل پر تو یہ حکومت بہت ہی حساسیت کے اظہار کا کرتی ہے۔ چونکہ ’’صرف احساس‘‘ کرتی ہے اس لیے لوگوں کو اس کے نتائج نظر نہیں آتے یا منفی نظر آتے ہیں۔
اس وائرس سے لوگوں کو بچانے کے دعووں کے ساتھ اس حکومت نے مساجد میں نمازیوں کے جانے پر بھی سخت شرائط رکھ دیں۔ خصوصاً جمعہ کے روز دوپہر 12 بجے سے تین بجے تک سخت لاک ڈائون کیا جاتا ہے تاکہ لوگ نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے مساجد نہیں پہنچ سکیں۔ نماز جمعہ کی ادائیگی کے اوقات ختم اور لاک ڈائون بھی ختم۔ پھر بازار بھی کھل جاتے ہیں اور سب کچھ بحال کردیا جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وائرس نے اپنے سرگرم رہنے کے اوقات حکومت کو بتائے ہوئے ہیں۔ صوبائی حکومت نے عبادات سے متعلق تمام اجتماعات پر پابندی لگائی ہوئی اور اس پر سختی سے عمل درآمد بھی کراتی ہے۔ لیکن اطلاعات کے مطابق 21 رمضان کو روایتی جلوس اور میٹنگز کے لیے ان پابندیوں پر نرمی کردی جائے گی۔ خیال ہے کہ حکومت اس مخصوص دن کے موقع پر ہونے والی سرگرمیوں کو عبادت نہیں سمجھتی، اگر کوئی عبادت ہوتی تو نماز کی طرح ان پر سختیاں کرتی۔ ’’اونٹ رہے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی‘‘ کے مترادف سندھ حکومت کی کون سی ’’کل‘‘ سیدھی یہ بھی معلوم نہیں ہورہا۔
سائیں سرکار نے کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے مجموعی طور پر کراچی اور حیدرآباد میں جتنی سختیاں کی ہوئیں ہیں اور جس طرح سخت اقدامات کیے ہوئے ہیں، اس سے ایسا لگتا ہے کہ پوری حکومت کے صرف ان دو شہروں کے لوگوں سے ہمدردی ہی کیا محبت بھی ہے۔ یہی نہیں بلکہ کراچی کی کچی آبادیاں اور پرانے اور غریب آبادیوں کو دیکھنے سے بھی ایسا نظر آتا ہے کہ یہاں سندھ حکومت نہیں ہے بلکہ کسی اور حکومت کا کنٹرول ہے کیونکہ یہاں لاک ڈائون کی سختیاں نظر نہیں آتیں اور نہ ہی سخت اقدامات دکھائی دیے جارہے ہیں۔ سخت حفاظتی انتظامات تو وزیراعلیٰ مراد علی شاہ اپنے سرکاری گھر میں بھی نہیں کراسکے، شاید بہت سارے لوگوں کی طرح مراد علی شاہ کی بھی ان کے اپنے گھر میں ’’کوئی سنتا نہ ہو‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ سی ایم ہائوس کے ایک دو نہیں درجنوں ملازم کورونا وائرس کی لپیٹ میں آچکے۔ سی ایم ہائوس کے ملازم ہیں جو کورونا وائرس کی موجودگی میں کام کرتے رہے تو اب ان کو خصوصی اعزازیہ تو دینا پڑے گا اور جو بیمار ہوئے ہیں انہیں تو بہت کچھ دیا جانا ضروری ہوگیا۔ ’’دیدیں سائیں آپ ہی کا تو راج ہے اور آپ کے ملازم ہیں، 5 یا دس کروڑ ان غریب ملازمین میں بانٹ دیے جائیں تو آپ کا اور آپ کی حکومت کا کیا جائے گا؟‘‘۔
لیکن میرا خیال ہے کہ سی ایم ہائوس کے ذمے داروں سے یہ پوچھنا تو چاہیے کہ کورونا سے بچاؤ کے لیے سی ایم ہاؤس میں خصوصی اقدامات کیوں نہیں کیے گئے۔ ایک دفتر سے دوسرے دفتر آنے والے ملازمین کو بار بار 20، 20 سیکنڈ تک صابن سے ہاتھ دھونے کا پابند کیوں نہیں کیا گیا؟ کیا ان کی زندگیوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے؟ میرا خیال ہے کہ اس غفلت پر ایوان وزیراعلیٰ کی سب سے بڑی شخصیت کو خود ہی معطل کرلینا چاہیے۔ کیونکہ انہیں کون معطل کرسکتا ہے جو کرسکتے تھے وہ بیماری اور ڈھلتی عمر کی وجہ سے ’’عضو معطل‘‘ ہوچکے ہیں۔
چلیے کالم کے موضوع پر رہتے ہیں۔ سندھ سرکار کورونا وائرس ہی کیا صحت کے اور حکومتی جملہ امور کے دائرے کار میں کس حد تک سنجیدہ اور فعال ہے اس بات کا اندازہ تو اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ فروری 2018 میں قائم کیے جانے والے سندھ ہیلتھ کمیشن (ایس ایچ سی) کو جسے سندھ اسمبلی نے سندھ ہیلتھ کمیشن ایکٹ 2013 کے بل کے تحت 24 فروری 2014 کو اس کی منظوری دی۔ اس کمیشن کے قیام کا بنیادی مقصد پبلک اور پرائیویٹ تمام اسپتالوں کو چلانے کے لیے قانون بنانا اور اسپتالوں کے نظام کی جانچ پڑتال کرنا تھا۔ تاہم دو سال گزرنے کے باوجود کوئی ایسا قابل ذکر کام انجام نہیں دیا۔ اس کمیشن کی سربراہ ایک ریٹائرڈ بیورو کریٹ مس علی اکبر گھالو ہیں۔ جبکہ کمیشن بورڈ آف کمشنر کے کے آٹھ ارکان پر مشتمل ہے۔ اس ادارے کے دائرے کار میں اسپتالوں، ڈسپنسریوں اور کلینکس کے قیام کے لیے لائسنس کا اجرا بھی شامل ہے۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ بورڈ آف کمشنر دو سال گزرنے کے باوجود اپنے نہ تو کمیشن کو سمجھ سکا اور نہ ہی فعال کرسکا۔ کورونا وائرس کی وبا کے دوران کسی نے بھی مذکورہ کمیشن کے بارے میں کوئی بات سنی ہوگی جو اس نے وائرس سے بچاؤ کے لیے کی ہو۔ یہ کمیشن بھی صوبائی وزیر صحت کی نگرانی میں کام کرتا ہے لیکن خیال ہے کہ صوبائی وزیر محترمہ عذرا پیچوہو کو اس بات کا علم ہی نہیں ورنہ کبھی تو وہ اس کمیشن کے دفتر کا دورہ کرتیں یا کمیشن کے اجلاس کی صدارت کرتیں۔ سندھ کے اسپتالوں اور صوبے میں صحت کی سہولت کے بارے میں جائزہ لیں تو ایسا لگتا ہے کہ یہاں صحت کی وزارت تو ہے مگر محکمہ نہیں بلکہ کوئی نظام ہی نہیں۔