ارکان اسمبلی تو احتیاط کریں

243

طویل تعطل کے بعد پیر کو قومی اسمبلی کا اجلاس منعقد ہوا اجلاس عالمی پیمانے پر پھیلی ہوئی وبا کورونا وائرس کی صورتحال پر غور کے لیے بلایا گیا تھا۔ روزانہ سرکار کی جانب سے کروڑہا روپے خرچ کرکے عوام کو بتایا جا رہا ہے کہ احتیاط کریں، ماسک پہنیں، ایک دوسرے سے فاصلہ رکھیں لیکن کورونا کی صورتحال پر بلائے گئے اجلاس میں حکومت اور اپوزیشن کے اراکین ماسک پہنے بغیر آئے۔ سماجی فاصلے کا بھی خیال نہیں رکھا اور آپس میں گپ لگاتے رہے۔ ڈپٹی اسپیکر بار بار توجہ دلاتے رہے لیکن ارکان نے ان کی پروا نہیں کی۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ وزیراعظم اور شہباز شریف کورونا کے خوف سے اجلاس میں نہیں آئے اور وزیر سائنس و ٹکنالوجی فواد چودھری بھی ایوان میں نہیں آئے۔ اگر ان اہم لوگوں کو اجلاس میں نہیں آنا تھا تو اجلاس طلب ہی کیوں کیا گیا تھا۔ اسمبلی اجلاس میں بھی سندھ اور وفاق کی لڑائی نمایاں رہی۔ بلاول زرداری نے الزام لگایا کہ وزیراعظم کنفیوژ ہیں ذمے داری ادا نہیں کر رہے۔ اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اب سندھ کارڈ نہیں چلے گا۔ وہ پیپلز پارٹی پر تنقید کر رہے تھے کہ پہلے پیپلز پارٹی سے وفاق کی خوشبو آتی تھی لیکن اب وہ صرف سندھ کارڈ پر چل رہی ہے اور تعصب کی بو آرہی ہے غالباً قریشی صاحب کا شارہ اپنی جانب تھا کہ جب تک وہ پیپلز پارٹی میں تھے اس سے وفاق کی بو آتی تھی۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ پہلی مرتبہ کے سوا ہمیشہ پیپلز پارٹی نے سندھ کارڈ ہی چلایا ہے، بہرحال کورونا وائرس کی صورتحال پر غور کے لیے بلایا گیا اجلاس ایک دوسرے پر الزام تراشی کی نذر ہو گیا۔ صرف مسلم لیگی رکن خواجہ آصف نے تجویز پیش کی کہ قرنطینہ مراکز کا جائزہ لینے کے لیے پارلیمانی کمیٹی بنای جائے۔ان کی تجویز سے سندھ، پنجاب اور ملک بھر کے قرنطینہ مراکز میں ہونے والی بے قاعدگیوں اور شکایات کا جائزہ لینا آسان ہو جاتا۔ لیکن چونکہ ارکان نے اجلاس کو شاید سیر و تفریح کے لیے موقع جانا اس لیے خوش گپیوں میں مصروف رہے اور وفاق اور سندھ ایک دوسرے پر الزامات میں لگے رہے۔ وزیراعظم کو اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو اجلاس میں شرکت کرنی چاہیے تھی لیکن وہ اجلاس میں نہیں گئے۔ وزیراعظم کی جانب سے کسی نے یہ وضاحت بھی کردی کہ وہ کورونا کے خوف سے اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔ وزیراعظم کو کورونا سے کیسا خوف۔ اب تک ان کی جتنی تصاویر سامنے آئی ہیں وہ ماسک کے بغیر لوگوں سے ملاقاتیں کرتے نظر آتے ہیں۔ اپنے ساتھیوں سے فاصلہ بھی نہیں رکھتے۔ دیگر وزرا کا بھی یہی عالم ہے خصوصاً جب پریس کانفرنس ہو رہی ہو تو سب اپنی تصویر کے چکر میں کیمرے کے سامنے آنے کی کوشش کرتے ہیں اور تمام احتیاطیں بالائے طاق رکھ دی جاتی ہیں۔ وزیراعظم نے تو ایک روز قبل کورونا ٹیسٹ کے حوالے سے تحفظات دور کرنے کی ہدایت کی تھی لیکن وہ خود اجلاس میں نہیں گئے تو اس شکایت کو دور کرنے کا کیا طریقہ اختیار کیا گیا ہے۔ اگر ٹیسٹ کے بارے میں اس طرح شکایات عام ہوتی رہیں تو لوگ ٹیسٹ کرانے سے کترانے لگیں گے۔ ویسے بھی سرکاری ٹیسٹ پر لوگوں کو اعتبار نہیں ہے۔ ارکان اسمبلی کی جانب سے احتیاطی اقدامات کی خلاف ورزی پر میڈیا کا ردعمل بھی متضاد ہے۔ ایک ہی اخبار خبر لگاتا ہے کہ لاک ڈائون میں نرمی خریداروں نے احتیاطی اقدامات کی دھجیاں اڑا دیں۔ لیکن اسی اخبار میں دوسری خبر ہے کہ کورونا پر قومی اسمبلی کا اجلاس احتیاطی تدابیر نظر انداز۔ اتنا اچھا جملہ کہا گیا ہے اگر ’’مارکیٹوں میں رش احتیاطی تدابیر نظر انداز‘‘ لکھ دیا جاتا تو کیا جاتا۔ لیکن اصل معاملہ یہ ہے کہ جس ذہنی ساخت کے لوگ حکومت اور میڈیا میں ہیں وہ عوام ہی کو ہر خرابی کا ذمے دار قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ دونوں کے بارے میں یہی کہنا چاہیے کہ احتیاطی تدابیر سے لاپروائی کی جا رہی ہے۔ یہ بہت اہم بات ہے اگر حکمران طبقہ احتیاط نہیں کرے گا تو نیچے یہی پیغام جائے گا کہ کیا کورونا صرف غریب کو ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے زیادہ ذمے داری حکمران طبقے کی ہے۔ اسمبلی اجلاس میں تو کورونا ٹیسٹنگ پر تحفظات، ڈاکٹروں کے لیے حفاظتی انتظامات، اسپتالوں میں صفائی کی صورتحال، ملک بھر کے اسپتالوں میں وینٹی لیٹرز اور کورونا سے نمٹنے کے آلات وغیرہ کی دستیابی پر گہری نظر رکھ کر اہم فیصلے کرنے چاہییں تھے۔ پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کو لڑائی کے لیے بہت مواقع مل جاتے۔ وہ تو روز میڈیا پر لڑی جاری ہے۔ قومی وسائل سے اسمبلی کا اجلاس اس کام کے لیے تو نہیں بلایا گیا تھا۔