تلاش

342

اس ملک کی صحافتی تاریخ بانجھ نہیں‘ البتہ مائوں نے مولانا ظفر علی خان‘ مولانا جوہر علی‘ سید ابو الاعلی مودودی‘ نواب زادہ نصراللہ خان‘ آغا شورش کاشمیری‘ صلاح الدین‘ عبدالکریم عابد‘ ممتاز حمید رائو‘ زیب النساء حمید اللہ جیسی صحافتی شخصیات جنم دینا چھوڑ دیا ہے‘ مجال ہے ان شخصیات پر کسی نے ان کے کردار کے حوالے سے انگلی اٹھائی ہو‘ عبد الکریم ’’سونے کی کان ‘‘چھوڑ کر پاکستان آئے تھے‘ قلم کی آبرو ایسی نبھائی کہ آخری وقت میں اپنے مناسب علاج کے لیے جیب میں پیسے نہیں تھے‘ جسارت جیسے اخبار کو مولانا مودودی کی رہنمائی اور صلاح الدین‘ عبدالکریم عابد جیسے اجلے کردار والے مدیر ملے ہیں ان دنوں اطہر ہاشمی بھی اسی قافلے کے سالار ہیں۔
آج سے نہیں کئی سال سے ایک روایت چلی آرہی ہے کہ چند ماہ کے وقفے کے بعد کالم نگاروں اور اخبار نویسوں کی ایک فہرست سامنے آجاتی ہے اور الزام لگتا ہے ایک کاروباری شخصیت نے انہیں خوب نوازا ہے۔ جونہی فہرست سامنے آتی اور تردید اور وضاحت آنا شروع ہوجاتی ہے۔ چیلنج کیا جاتا ہے کہ ثابت کیا جائے۔ ثابت کیسے ہوگا؟ کیا کسی نے کسی کے سامنے لین دین کی ہے؟ اور ویسے بھی ننگے حمام کے کھیل میں کون کسی کی گواہی دے گا؟ لہٰذا فہرست اور وضاحت کا کھیل جاری رہے گا۔ چند ایک چھوٹے چھوٹے واقعات ہیں‘ جنہیں بیان کرنے میں کوئی ہرج نہیں ہے‘ نجی الیکٹرونک میڈیا کی پاکستان میں عمر ہی ابھی کیا ہے‘ سترہ اٹھارہ سال، لیکن یہ پرنٹ میڈیا کو پیچھے چھوڑ گیا ہے‘ ادھر گفتگو ہوئی ادھر ٹی وی پر پٹی چلنا شروع ہوجاتی ہے۔ اب لوگ خبر کی اشاعت کے لیے اگلے روز کا انتظار نہیں کرتے۔ پیراسیٹا مول کی طرح ’’فوری اثر‘‘ والی بات ہے‘ ہاتھ میں مائیک ہونا چاہیے لوگ آپ کے پیچھے پیچھے ہوں گے، لیڈر اب اخبار نہیں‘ ٹی وی اسکرین بناتی ہے‘ بس لین دین کی کہانی بھی یہیں شروع ہوتی ہے‘ راولپنڈی میں لال حویلی ہے‘ ذرا معلوم تو کریں کہ کس اینکر نے اس پر رپورٹ بنائی اور…‘ ایک اینکر تو ایسے ہیں کہ اسلام آباد کی فوڈ مارکیٹ میں کھانا کھانے آئے‘ اپنی ٹیم بھی ساتھ لائے اور کھانے کا آڈر کرنے کے بعد اسی ریسٹوران کی رپورٹ بنانے کے لیے فوٹیج بنانا شروع کردی‘ ایک آدھ سارٹ بھی لے لیا اور یوں مفت کھانا کھایا اور چلے گئے‘ بڑے نامور کالم نگار ہیں ایک بزنس مین کے کالم لکھا کرتے تھے اور معاوضہ لیا کرتے تھے‘ یہ تینوں واقعات نہایت معمولی ہیں‘ لکھتے ہوئے بھی خیال آرہا ہے کہ کیا یہ سب کچھ لکھا بھی جانا چاہیے یا نہیں۔ ایک بڑے ہی با اصول قسم کے اخبار نویس ہیں‘ وزیر اعظم شوکت عزیز سے اسلام آباد کے مہنگے ترین سیکٹر میں پلاٹ لیا‘ کوئی ان کے بارے میں بات تو کرکے دیکھے؟ بہتر یہی ہے کہ چھوڑیے یہ قصے کہانیاں‘ جب حالات ایسے ہوں گے تو فہرست بھی آتی رہے گی اور وضاحت بھی آتی رہے گی‘ لیکن مسئلہ پھر بھی حل نہیں ہوگا۔
ان دنوں پی ٹی وی پر ایک ڈراما دکھایا جارہا ہے ارتغرل‘ یہ ڈراما کیا ہے؟ ایک تاریخ ہے اور ایسی تاریخ کہ کوئی سبق حاصل کرنے کو تیار نہیں۔ ارتغرل اصل میں تغرل لفظ سے آیا ہے جس کے معنی ہیں‘ شکاری‘ اب ہمیں دیکھنا ہے کہ صحافت میں اس لفظ کی تعریف پر کون پورا اترتا ہے‘… بس اتنا ہی کہنا ہے صحافت سچ بتانے کا نام ہے لوگوں کو آگاہ کرنے کا کام ہے، یہ تفریح مہیا کرنے کا شعبہ نہیں ہے اس کے لیے ارتغرل کافی ہے سچ کی تلاش میں اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑتا ہے کئی صحافی اس راہ میں اپنی جان کی باز ہار گئے پاکستان ان ممالک میں شامل جہاں صحافت کو بہت سارے مسائل کا سامنا ہے اور ہر حکومت نے پریس کو اپنی مرضی سے چلانے کی کوشش کی لیکن اسے مزاحمت بھی ملی ہے جنرل ایوب خان سے لے کر آج تک حالات ایسے ہی رہے ہیں کہ ملکی صحافت نے سکھ چین نہیں دیکھا‘ پریشان صرف عامل کارکن ہوا ہے‘ مالکان تو خیر کیا پریشان ہوں گے‘ کسی مالک کو کوڑے نہیں مارے گئے‘ یہ بھی عامل کارکن نے کھائے‘ کسی مالک کا چولہا تنخواہ نہ ملنے پر نہیں بجھا‘ یہ وقت بھی کارکن پر ہی آیا ہے‘ کوئی مالک بے روزگار نہیں ہوا‘ یہ دن بھی کارکن نے دیکھے ہیں‘ ہاں البتہ ہو یہ رہا ہے کہ اس شعبے میں اب دودھ پینے والے اور قربانی دینے والے الگ الگ کیمپوں میں بیٹھے ہیں‘ دودھ پینے والے تقریر کرتے ہیں اور قربانی دینے والے تالیاں بجاتے ہیں‘ صحافتی تنظیمیں ایک سے دو‘ دو سے تین اور اب ماشاء اللہ چھ سات ہیں‘ تنظیموں کا مقابلہ ہے مرغی اور خرگوش کے ساتھ‘ مرغی اکیس دنوں بعد انڈوں سے بچے نکالتی ہے اور خرگوشنی ایک ماہ میں آٹھ آٹھ بچے دیتی ہے‘ دیکھتے ہیں کون جیتے گا؟ لگ یہ رہا ہے کہ ملک کا میڈیا‘ صحافت اور عامل کارکن پیچھے رہ جائے گا اور صحافتی تنظیمیں بہت آگے نکل جائیں گی۔
گزشتہ بیس سال کے دوران 140 سے زائد صحافی اپنی جان کا نظرانہ پیش کر چکے ہیں مگر یہ لوگ کسے یاد ہیں؟ سب وضاحتوں سے فارغ ہوں گے تو ان کی توجہ اس جانب ہوگی ناں۔