اناڑی الیکٹریشن

322

عزت مآب عادل اعظم پاکستان گلزار احمد اکثر ایسے ریماکس دیتے ہیں کہ چیف جسٹس وسیم کیانی یاد آنے لگتے ہیں ابھی کل ہی کی بات ہے واجب احترام عادل اعظم پاکستان نے تحریک انصاف کی سیاست کو ایک جملے میں سمیٹ کر سیاسی سونامی کو کوزے میں بند کردیا ہے۔ فرماتے ہمارا وزیر اعظم زیرو بلب کے ہولڈر کو ٹھیک کرنے آیا تھا مگر اس نے پورے گھر کی وائرنگ کو جلا دیا، سوچنے کی بات یہ ہے کہ ملک میں ایسا کوئی قانون نہیں جو اناڑی الیکٹریشن سے اس نقصان کی تلافی کرا سکے، ہم قانون کے ماہرین سے گزارش کریں گے کہ وہ اس معاملے میں قوم کی مدد کریں۔ ہم صرف التجا ہی کرسکتے ہیں مشورہ طلب کرنے کی صورت میں مشورہ فیس کا بل بھی مل سکتا ہے۔ بہاولپور کے ممتاز قانون دان فارانی صاحب سے 15روزہ حقیقت کے آفس میں ملاقات ہوئی جب ہمارا تعارف کرایا گیا تو کہنے لگے اگر کالم سے ساتھ تازہ تصویر لگاتے تو پہچانے میں دشوراری نہ ہوتی۔ ہم نے کہا کہ آپ یہی مشورہ حبیب اللہ بھٹہ صاحب کو کیوں نہیں دیتے۔ مسکرا کر کہنے لگے اسی لیے کسی کو مفت مشورہ نہیں دیتا کہ مفت کی چیز کی کوئی قدر نہیں ہوتی۔
واجب الاحترام عادل اعظم وزیر اعظم کی اکثر پالیسیوں پر ایسے ہی ریماکس دے چکے ہیں مگر کبھی ایکشن لینے اور جواب طلبی کی زحمت گوارا نہیں کی اس حقیقت سے پوری قوم واقف ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت عدت کی پوری مدت بھی کرے گی۔ مگر وزیر اعظم تو تبدیل ہوسکتا ہے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی مثال موجود ہے۔ عزت مآب عادل اعظم گلزار احمد نے گزشتہ دنوں فرمایا تھا کہ حالات کتنے ہی مخدوش کیوں نہ ہوں مگر عدالتیں بند نہیں کر سکتے ہم اس اہم ادارے کو کسی کی تجویز پر بند نہیں کرسکتے۔ نہ ہی مقدمات کو التوا کی بھیٹ چڑھا سکتے ہیں۔ کیونکہ عدلیہ ریاست کا اہم ستون ہے اور شہریوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے اپنی ذمے داریاں پوری کر رہا ہے۔ عادل اعظم کے فرمان کے مطابق ہائی کورٹس اور عدالت عظمیٰ مقدمات کی سماعت کررہی ہیں۔
ہمارے ایک عزیز لگ بھگ بیس سال سے عدالتوں کی غلام گردشوں میں ہیں۔ گردش کرتے کرتے مختلف امراض میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ مثلاً ان کی شوگر اور بلڈ پریشر ہمیشہ ہائی رہتا ہے۔ عمر 80 سال کے قریب ہے اور اب تو یہ حال کے چلتے چلتے اچانک گر پڑتے ہیں محکمہ مال، سول کورٹ، اور سیشن کورٹس نے مدعی کا مقدمہ عدم ثبو ت کی بنا پر خارج کردیا ہے۔ اور اب سات، آٹھ سال سے ہائی کورٹ کی کسی الماری میں پڑا انصاف کا منتظر ہے۔ عدالتوں کے دھکے کھاتے کھاتے مدعا علیہ کی یہ حالت ہوگئی ہے کہ چلتے چلتے اچانک گر پڑتا ہے۔ عادل اعظم کے اس فرمان سے انکار ممکن نہیں کہ عدلیہ ریاست کا ایسا اہم ستون ہے جسے عوام اپنا آخری سہارا سمجھتے ہیں۔ مگر زمینی حقائق کا کہنا کہ اس اہم ستون کو چلانے والے مقدمات کی سماعت کرنے کے بجائے ستو پینا ہی اہم سمجھتے ہیں۔ ہم انہی کالموں میں عدالت سے گزارش کرچکے ہیں کہ کورونا وائرس نے عدالتوں کو اچھا موقع فراہم کیا ہے جسٹس اور جج صاحبان ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر ستو پینے کے بجائے جعلی مقدمات کو خارج کرکے عوام پر احسان فرمائیں۔ مگر المیہ یہی ہے کہ اسکول کے کسی ماسٹر کے مرنے پر چھٹی ہونے پر دکھ کا اظہار کرنے کے بجائے خوشی مناتے ہیں۔ ہماری عدالتیں بھی کورونا وائر س کی آڑ میں قوم کا دکھ کم کرنے کے بجائے جشن منا رہی ہیں۔ ہماری التجا ہے کہ جج اور جسٹس حضرات رات کو بستر پر لیٹ کر آمد و خرچ کا حساب کرنے کے بجائے قوم کے دکھ کا احسا س کریں۔ اور جعلی مقدمات کی سماعت کو جرم قرار دیں، ویسے جسٹس صاحبان اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ جعلی مقدمات کی سماعت دنیا کی کسی عدالت میں نہیں ہوتی۔