کوویڈ۔ 19 اور عالمی سطح پر خوراک کی قلت کا بحران

336

محمد سمیع گوہر
کوویڈ 19 کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے خوراک کی فراہمی کے تحفظ کے لیے عالمی سطح پر موثر اقدامات کرنا بے حد ضروری ہوگیا ہے۔ ترقی پزیر ممالک کے لیے مستقبل میں تباہ کن غذائی بحران سے بچنے کے لیے بین الاقوامی برادری کے ساتھ شراکت اور خصوصی طور پر اپنے اپنے ملکوں میں نجی شعبہ، صوبائی و وفاقی حکومتوں، ترقیاتی اداروں اور مزدور کسان تنظیموں کے مابین اشتراک کار انتہائی تیزی کے ساتھ قائم کرنا وقت کی ضرورت بن گیا ہے۔ واضح رہے کہ دنیا بھر میں ہر سال نو لاکھ افراد بھوک یا افلاس سے وابستہ بیماریوں کے سبب مرجاتے ہیں جو انتہائی دکھ کی بات ہے۔ لیکن اب کوویڈ 19 سے پیدا ہونے والے عالمی بحران کے بعد ان اموات کی شرح میں دگنا اضافہ ہوجانے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ اسے ہم کورونا وائرس کی وبائی بیماری کے پیچھے چھپی ہوئی ایک آفت بھی کہہ سکتے ہیں جس کے برے اثرات غریب ترین اور کمزور طبقہ کے افراد پر پڑسکتے ہیں۔ مستقبل میں ہونے والی ان ممکنہ اموات سے بچنے کے لیے ہم سب کو پہلے یہ سمجھنا ہوگا کہ افریقا، جنوبی ایشیاء اور دنیا کے دیگر پس ماندہ ممالک میں مغرب میں لاک ڈاون کے لیے کیے جانے والے اقدامات کی نقالی کرتے ہوئے لاک ڈاون نہیں کرسکتے ہیں اور نہ ہی اس وائرس کے نتیجے میں پھیلنے والے بیماری کو روکنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں، اس کے بجائے انہیں وائرس کے خطرات پر قابو پانے کے لیے اپنا راستہ خود تلاش کرنا ہوگا جس کے ذریعے وہ اپنی معاشی مشکلات اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل سے نمٹنے کے لیے انسانی جانوں کو لاحق خطرات سے بچانے کے لیے کام کرنا ہوگا۔ تاہم اب سب سے بڑھ کر خوراک کی فراہمی کو مستقبل میں بہتر طور پر جاری رکھنے کے لیے اب عالمی برادری کو مل جل کر کام کرنا ہوگا بصورت دیگر دنیا کے غریب اور انتہائی پس ماندہ ممالک کو غیر متوقع نتائج اور بدترین حالات کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔
اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ ورلڈ فوڈ پروگرام نے حال ہی میں 26 ایسے ممالک کی نشاندہی کی ہے جو کوویڈ 19 کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال کی بنا پر خوراک کی کمی کے بحران سے سب سے زیادہ متاثر ہوسکتے ہیں جن میں افریقی ممالک ایتھوپیا، نائیجیریا اور موزنبیق قابل ذکر ہیں۔ صرف ان تین ممالک میں ورلڈ فوڈ پروگرام کے حکام کے اندازہ کے مطابق 56ملین افراد (تقریباً 334.33 ملین افراد کی مشترکہ آبادی میں سے) پہلے ہی خوراک کی قلت کا شکار ہیں۔ اس کے علاوہ دنیا بھر میں 1.5بلین بچوں میں سے جو ان دنوں وبائی بیماری کے سبب اسکولوں سے باہر ہیں ان میں سے 350ملین بچے ایسے ہیں جو اب اسکولوں سے ملنے والے کھانے سے بھی محروم ہوگئے ہیں۔
کوویڈ 19 کی وجہ سے دنیا کے غریب اور پس ماندہ ممالک کو اس وقت خوراک کے تحفظ کے سلسلے میں چار اہم چیلنجز کا سامنا ہے۔ لاک ڈاون کے نتیجے میں گھروں میں بیٹھے افراد آمدنی کم ہوجانے اور غذائی اشیاء مہنگے داموں خریدنے کے مسئلے کا سامنا ہے۔ وبائی بیماری کے نتیجے میں صرف افریقا کے صحارا کے علاقے میں اس سال کے دوران فی کس پیداوار 4فی صد کمی واقع ہوئی ہے جبکہ بیرون ممالک کام کرنے والے افراد کی ترسیلات زر میں مسلسل کمی ہورہی ہے۔ برطانیہ میں ایک ادائیگی کمپنی پر 80فی صد اور بنگلا دیش میں کیے جانے والے ایک گھریلو سروے کے مطابق غریب افراد کی آمدنی میں 70فی صد کمی ہوئی ہے جس کے نتیجے میں اب وہاں کی آدھی آبادی اپنی خوراک کی ضروریات کو کم کرنے پر مجبور ہوگئی ہے۔
دوسرا چیلنج خوراک کی ترسیل کے لیے زیادہ وقت اور مہنگائی میں اضافہ ہے، رواں سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران عالمی جہاز رانی کی سرگرمی میں 25فی صد کمی واقع ہوئی ہے جبکہ بحرالکاہل میں کارگو بھیجنے کی لاگت میں صرف اس سال مارچ تک تین گنا بڑھ چکی ہے۔ حفظان صحت اور سماجی دوری کے نئے اقدامات کی بنا پر سامان کے اٹھانے اور فراہمی میں بھی تاخیر ہو رہی ہے۔
تیسرا وبائی بیماری زرعی مصنوعات کی بین الاقوامی فراہمی میں خلل ڈال رہی ہے، بھارت میں وہاں کی زرعی ترقیاتی کونسل کے افسران نے کاشت کاروں سے کہا ہے کہ وہ اپنی گندم کی فصل کی بوائی کو لاک ڈاون کے خاتمہ تک ملتوی کردیں۔ دوسری جانب ویت نام اور کمبوڈیا نے اپنے ممالک میں چاول کی برآمد پر پابندی لگادی ہے جس سے براہ راست افریقی ممالک سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں جو ہر سال ساڑھے چار ارب ڈالرز سے زیادہ کا چاول درآمد کرتے ہیں۔ مزید براں اب غزائی اشیاء زیادہ مہنگی ہوتی جارہی ہیں کیونکہ ترقی پزیر ممالک اپنی کرنسی کو مستحکم رکھنے کی جدوجہد کررہے ہیں، مثال کے طور پر نائیجیریا میں چاول کی قیمتوں میں مارچ کے آخری ہفتہ میں 30فی صد اضافہ ہوا ہے۔ جزوی طور پر تیل کی قیمتوں میں عالمی سطح پر کمی کے بعد برآمدی آمدنی میں زبردست کمی ہوئی ہے اور طلب و رسد کے درمیان بھی خاصہ فرق پایا جاتا ہے۔ برطانیہ میں ریستوران بند ہوجانے سے ہر ہفتہ پچاس لاکھ لیٹر دودھ پھینک دیا جارہا ہے حالانکہ اس فاضل دودھ کو پاوڈر ملک میں تبدیل کرکے وہاں بھیجا جاسکتا تھا جہاں اس کی ضرورت تھی۔ دوسرے لفظوں میں کوویڈ 19 عالمی مارکیٹ میں فارمنگ اور فوڈ کو بری طرح متاثر کررہا ہے کیونکہ بندرگاہوں اور کسٹم چوکیوں پر نئے اقدامات کی بنا پر سامان کی ترسیل سست پڑگئی ہے۔ ورلڈ بینک کے حکام کا اندازہ ہے کہ اس سال ترقی پزیر اور غریب ممالک میں زرعی پیداوار میں سات فی صد کمی واقع ہوسکتی ہے۔
مندرجہ بالا چیلنجز کے پیش نظر حکومتوں کے لیے ضروری ہو گیا ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو خوراک کی کمی کے بحران کا شکار ہونے سے محفوظ رکھنے کے اقدامات کو یقینی بنائیں۔ بنیادی طور پر یہ اب پالیسیاں مرتب کرنے والوں کو ملکی اور بین الاقوامی مارکیٹوں کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے اقدامات پر توجہ دیں تاکہ غذائی اشیاء کی ممالک کے درمیان آزادانہ طور پر تجارت ممکن ہوسکے۔ دوسرے یہ کہ اب شجر کاری کے موسم میں سرمایہ کاری سے تیکنیکی حل تلاش کیا جائے تاکہ غذائی اشیاء کی درآمد پر انحصار کو کم کرنے میں مدد مل سکے۔ اس وقت درپیش مسائل سے نمٹنے کے لیے درج ذیل چار اقدامات کرنے کی فوری ضرورت ہے:۔
۱۔ عالمی برادی کو خوراک کی امداد اور معاشرتی تحفظ کے اقدامات کے لیے مالی اعانت میں اضافہ کرنا چاہیے اور یہ کام فوری طور پر شروع کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ دوسری صورت میں قحط کا پھیلائو اور زرعی نظام کے عملی استحکام کو نقصان پہنچے گا اور مزید اس کے اخراجات میں بھی اضافہ ہوجائے گا۔
۲۔ دوسری ترجیح مقامی زرعی پیداوار میں سرمایہ کاری کرنا ہے۔ مقامی اور علاقائی خوراک کی تیاری کے نظام میں رکاوٹوں کو تیزی کے ساتھ کم کیا جانا چاہیے۔ خاص طور پر پودے لگانے کے موسم میں کھاد اور بیج کی تقسیم بہت ضروری ہے۔ اس شعبے میں سرمایہ کاری کا مقصد غریب ممالک کو تین ماہ کے لیے اسٹرٹیجک فوڈ اسٹورز بنانے میں مدد فراہم کرنا ہے۔
۳۔ علاقائی اور مقامی رسد کے مراکز کی مدد کرکے عالمی خوراک اور زرعی پیداوار کی فراہمی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنا ہوگا۔ اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کو جس کو اس طرح کے مربوط کام کرنے کے لیے بہت بہتر سمجھا جاتا ہے اس طرف متوجہ کیا جائے اور اس مقصد کے لیے اس سے 350ملین ڈالرز کی امداد حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ نہ سمجھا جائے کہ یہ رقم بہت زیادہ ہے بلکہ اس کا یہ مقصد ہونا چاہیے کہ خوراک جلد از جلد انہیں فراہم کی جائے جن کو اس کی اشد ضرورت ہے۔
۴۔ آخر میں ہم کو ایگرو پروسیسنگ اور ایگٹیک کمپنیوں کو فنڈز دینے کے لیے نجی شعبہ کو ترغیب دینے کی ضررورت ہے، وسائل کو تیزی سے سرمایہ کاری کے مواقع کی سمت میں چلانا چاہیے جو وبائی بیماری کے نتیجے میں ابھر رہے ہیں۔ اس وقت کی ترجیحات میں افریقا اور ایشیاء کے ترقی پزیر ممالک میں ای کامرس اور ای مارکیٹنگ پلیٹ فارمز کی معاونت اور فوڈ پروسیسنگ کی تیاری شامل ہونا چاہیے۔