ٹرانسپورٹ کی بندش، اندرون سندھ مریض مرنے لگے

291

لاک ڈاؤن کا جواز یہ پیش کیا گیا ہے کہ عوام کو مرنے کے لیے نہیں چھوڑ سکتے ۔بار بار دھمکیاں دی جارہی ہیں کہ عوام احتیاطی تدابیر پر عمل نہیں کررہے ، اس لیے لاک ڈاؤن کو دوبارہ سے سخت کردیا جائے گا ۔ لاک ڈاؤن کے تحت انٹر سٹی ٹرانسپورٹ پر مکمل پابندی ہے ۔ حقیقی صورتحال یہ ہے کہ حکومتوںنے عوام کو ان کے اپنے شہروں اور علاقوںمیں کوئی سہولت مہیا کرنے پر توجہ ہی نہیں دی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اندرون سندھ کے لوگ کئی سو کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے علاج کے لیے کراچی کے اسپتالوں کا رخ کرنے پر مجبور ہیں ۔ کراچی کے اسپتالوں کی حالت بھی کوئی قابل رشک نہیں ہے ۔ کسی بھی سرکاری اسپتال میں چلے جائیں ، دوا اور دیگر سہولیات تو دور کی بات ہے ، صفائی تک کی صورتحال انتہائی خراب ہے ۔ کسی بھی اسپتال میں مریضوں اور ان کے تیمارداروں کے لیے بیت الخلا کی سہولت تک موجود نہیں ہے ۔ جناح اسپتال جیسے بڑے اسپتال میں پانی ہی دستیاب نہیں ہوتا ہے ۔ اس کے باوجود اندرون سندھ اور بلوچستان کے لوگ اس لیے کراچی کا رخ کرنے پر مجبور ہیں کہ کم از کم یہاں پر ماہر ڈاکٹر تو موجود ہیں ۔ لاک ڈاؤن میں انٹر سٹی ٹرانسپورٹ بند کرکے ان غریبوں سے اب یہ سہولت بھی چھین لی گئی ہے ۔ سب سے زیادہ برے حالات کا شکار وہ مریض ہیں جنہیں فوری طبی امداد کی ضرورت ہے ۔ امراض قلب ، سرطان اور گردوں کے امراض میں مبتلا اندرون سندھ کے مریض جو ہر روز سیکڑوں کی تعداد میں کراچی کے اسپتالوں میں پہنچتے تھے اوران کی 80 فیصد سے زاید تعداد صحتیاب ہوکر اپنے گھروں کو واپس چلی جاتی تھی ، اب کراچی پہنچنے سے صرف اس لیے قاصر ہیں کہ حکومت سندھ نے انٹر سٹی ٹرانسپورٹ پر پابندی عاید کی ہوئی ہے کہ کسی کو کورونا کی وجہ سے نہیں مرنے دیں گے ۔ امراض قلب ، سرطان اور گردوں کے امراض میں مبتلا یہ مریض اب سو فیصدی اپنے علاقوں میں موت کا شکار ہورہے ہیں ۔ سب سے زیادہ قابل رحم حالت شیر خوار بچوں کی ہے ۔ یہ بچے انتہائی نازک ہوتے ہیں اور اگر ڈائیریا ہی کا بروقت علاج نہ کیا جائے تو موت کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ حکومت سندھ کی مہربانی سے اندرون سندھ کہیں پر بھی صاف پانی کی سہولت موجود نہیں ہے ، گندگی کے باعث مچھروں کی بہتات ہے ، آوارہ کتوںکے غول کے غول ہر جگہ گھوم رہے ہیں ۔ ان سب کا شکار معصوم بچے اب اسپتال بھی نہیں جاسکتے ۔ جناح اسپتال سے متصل بچوں کے اسپتال کے ڈائریکٹر کے مطابق ان کے اسپتال میں اندرون سندھ سے انتہائی خراب حالت میں آنے والے بچوںکی تعداد یومیہ سو کے لگ بھگ تھی ۔ گزشتہ دو ماہ کے لاک ڈاؤن کی وجہ سے اب یہ بچے اسپتال نہیں پہنچ پارہے جس کی وجہ سے خدشات ہیں کہ اب تک چھ ہزار سے زاید صرف ننھے بچے ہی موت کا شکار ہوچکے ہیں ۔ وزیرا علیٰ سندھ سید مراد علی شاہ بتائیں کہ کورونا زیادہ ہلاکت خیز ہے یا ان کا لاک ڈاؤن ۔ اب تو ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ سید مراد علی شاہ نے ضد باندھ لی ہے کہ لوگ لاک ڈاؤن اور بھوک سے مرجائیں ، بس صرف کورونا سے نہ مریں ۔ حیرت تو سماجی او سیاسی تنظیموں پر ہوتی ہے کہ ان کی توجہ بھی اس طرف نہیں ہے ۔ اس جانب کوئی توجہ دلانے والا نہیں ہے اور نہ ہی کوئی آواز بلند کرنے کو تیار ہے ۔ سب خوف یا مفاد کی وجہ سے گنگ ہیں اور کوئی یہ بتانے پر تیار نہیں ہے کہ بادشاہ سلامت آپ نے خیالی لباس زیب تن کیا ہوا ہے ۔ سید مراد علی شاہ اور ان کے ساتھیوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اسپتال نہ پہنچنے کی بناء پر مرنے والوں کی براہ راست ذمہ داری ان پر ہی عاید ہوتی ہے۔وہ قتل خطا نہیں بلکہ قتل عمد کے مرتکب ہورہے ہیں ۔ خود کراچی میں یہ صورتحال ہے کہ جسارت کے رپورٹر کی خبر کے مطابق وینٹی لیٹرز کی کمی سے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ میں ماہانہ 600 بچے دم توڑ جاتے ہیں، صرف 28 وینٹی لیٹر ہیں جن میں سے 5 کورونا کے لیے مختص ہیں۔ آکسیجن سلنڈر کی بھی کمی ہے۔