مذہبی انتشار کی سرکاری کوشش

4293

جب سے وفاقی اور صوبائی حکومت کے درمیان کورونا سیاست شروع ہوئی ہے اس وقت سے سندھ حکومت اور وفاق میں موجود مذہب بیزار عناصر کو تبلیغی جماعت، نمازوں، مساجد اور تراویح سے گویا بغض ہو گیا تھا اور وہ اس کا موقع بے موقع ہر طرح اظہار بھی کر رہے تھے اور نماز تراویح و نماز جمعہ کے بارے میں حکومت سندھ نہایت متشدد تھی۔ لیکن 21 رمضان خلیفہ چہارم حضرت علیؓ کے یوم شہادت کی مناسبت سے جلوسوں پر پابندی کے باوجود حکومت سندھ کی پوری انتظامیہ نے تمام جلوسوں کا بھرپور انتظام کیا اور یوں سرکاری سطح پر ایک مذہبی گروہ کی بھرپور ہمنوائی اور اسے ہر طرح کی سہولت دینے کا رویہ اختیار کیا جس کا لازمی نتیجہ مساجد میں جمعہ کی نماز سے محروم لوگوں، تراویح کی روح کو قبض کر لینے والے ایس او پیز نمازوں میں سماجی فاصلے کے سبب صفوں میں خلا، خبروں کے ذریعے تبلیغ اور مساجد کو بدنام کرنے کے سبب دل گرفتہ لوگوں کے زخموں پر مزید نمک پاشی کی صورت میں برآمد ہوا۔ سندھ حکومت نے بھی ہر قسم کے مذہبی جلوسوں پر پابندی لگا رکھی ہے لیکن جمعرات کی شام سے یوم علی کے جلوسوں کے تمام راستوں کو اچانک کنٹینرز لگا کر بند کر دیا گیا اور پوری ضلعی انتظامیہ جو کورونا سے بچائو کے لیے مارکیٹوں میں چھاپے ما کر ایس او پیز پر عمل کرا رہی تھی وہ ایس او پیز کی خلاف ورزی کا سبب بننے والے یوم علی کے جلوس کا اہتمام کروانے میں لگ گئی۔ پھر جو جلوس نکلے انہوں نے ایس او پیز کا جلوس نکال دیا۔ سندھ حکومت خصوصی ڈھٹائی پر بضد ہے۔ جمعہ، ہفتہ اور اتوار بازار بند رہیں گے۔ بار بار یہ کہا جا رہا ہے کہ انسانی جان کی قیمت پر کاروبار یا مذہبی رسومات کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ لیکن یوم علی کے جلوس کا اہتمام کرکے حکومت نے مذہبی انتشار اور منافرت کی سرکاری کوشش کی ہے۔ اس سے ملک کی بھاری سنی اکثریت کے مذہبی جذبات یقیناً مجروح ہوئے ہیں۔ اور حکومت کی مذہب بیزاری کھل کر سامنے آگئی ہے۔ تبلیغی جماعت سے کورونا پھیلنے کا الزام، مساجد سے کورونا پھیلا تو مساجد بند کرنے کی دھمکیاں دی گئیں۔ سندھ پولیس کی ایس ایچ او جسے ایک نجی ٹی وی نے بہادر ایس ایچ او قرار دیا جوتوں سمیت مسجد میں گھس گئی۔ اسے نماز اور مساجد کے احترام سے زیادہ انسانی جان کی فکر تھی۔ 21 رمضان کو غالباً وہ چھٹی پر تھیں ورنہ ضرور جلوس میں گھس کر کورونا سے لڑ رہی ہوتیں۔ وزیراعلیٰ سندھ اور ان کے وزرا بازار کھلنے، ٹرانسپورٹ کھولنے اور اجتماعات پر کہتے ہیں کہ زیادہ نرمی کی تو اٹلی نہ بن جائیں۔ بات بات پر اٹلی، اسپین اور نیویارک کا خوف دلایا جاتا ہے لیکن 21 رمضان کے جلوسوں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ کورونا کے بارے میں حکومتوں کا موقف محض پروپیگنڈا ہے اور یہ بیماری اتنی ہولناک نہیں جتنا اس کا شور مچایا جاتا ہے۔ حکومت سندھ نے انٹر سٹی ٹرانسپورٹ پر پابندی اٹھانے سے بھی اسی بنیاد پر معذرت کی ہے کہ اس سے کورونا پھیلے گا۔ حکومت سندھ نے تو کورونا پھیلانے پر دس لاکھ جرمانے کا قانون بھی منظور کر لیا ہے۔ دیکھتے ہیں کتنا جرمانہ عاید کیا جاتا ہے۔ سرکار میں یقیناً یوم علی منانے والوں کے جذبات سے نہایت شدید ہمدردی رکھنے والے ہوں گے لیکن یوم علی کے جلوس نکالنے اور تمام ایس او پیز کو بالائے طاق رکھنے والوں کو خود بھی سوچنا چاہیے تھا کہ وہ خود کو امت مسلمہ سے الگ ظاہر کرنے پر کیوں مصر ہیں پہلے ہی ان پر یہ الزام ہے کہ ان کی وجہ سے یعنی ایران سے آنے والے زائرین کی وجہ سے پاکستان میں کورونا پھیلا۔ پاکستانی علمائے کرام نے بڑی کراہت کے بعد حکومت کے ایس او پیز تسلیم کیے اور یہ اعلان بھی کیا تھا کہ کرائت ختم ہونے کے بعد نمازیں معمول کے مطابق ادا کی جائیں گی۔ اب وہ بھی حکومت سے سوال کر سکتے ہیں کہ نمازوں، تراویح، عید کے اجتماعات اور ختم قرآن کی مجالس کے لیے بھی اسی طرح نہ صرف نرمی کی جائے بلکہ اہتمام بھی کیا جائے۔ یہ بات کسی وضاحت یا فتوے کی محتاج نہیں ہے کہ نمازیں فرض، تراویح سنت اور عید واجب ہے جبکہ جلوسوں کی مذہب میں کوئی گنجائش نہیں لیکن حکومت فرض، سنت اور واجب کے پیچھے پڑ گئی اور دوسری چیزوں کو فروغ دے رہی ہے۔ اس نازک موقع پر حکومت اور عزاداروں دونوں کو ایسا ہرگز نہیں کرنا چاہیے تھا۔