ایوان وزیراعظم میں رپورٹوں کی ذخیرہ اندوزی

336

ذخیرہ اندوزوں کے خلاف ایک اور رپورٹ وزیراعظم عمران خان نیازی کی خدمت میں پیش کردی گئی ہے ۔ رپورٹ کی پیشی کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے اسمگلروں کے خلاف بھرپور کارروائی کرنے اور ان سے کوئی رعایت نہ برتنے کی روایتی ہدایت جاری کی ۔ ساتھ ہی متعلقہ اداروں سے ذخیرہ اندوزی کے بارے میں ہر 15 روز میں رپورٹ طلب کی ہے ۔ جس رفتار سے وزیر اعظم عمران خان ہر معاملے میں رپورٹ طلب کررہے ہیں ، اس طرح سے وزیر اعظم ہاؤ س میں رپورٹوں ہی کا ذخیرہ جمع ہو گیا ہے ۔ یہ بھی افسوسناک صورتحال ہے کہ ایوان وزیر اعظم میں صرف ذخیرہ اندوزوں کے بارے میں رپورٹوں کا ہی ذخیرہ ہی جمع نہیں ہوگیا ہے بلکہ سارے ذخیرہ اندوز بھی ایوان وزیراعظم میں جمع ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کوئی موثر کارروائی کرنے کے بجائے رپورٹ پر رپورٹ اور کمیشن بنانے کا کھیل پورے زور و شور سے جاری ہے ۔ اگر حکومت ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی کرنے میں سنجیدہ ہو تو اس میں کوئی مشکل نہیں ہے ۔ جو لوگ اربوں روپے کی اجناس کی ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں ، اس کے لیے وہ بینکوں سے قرض حاصل کرتے ہیں اور یہ تمام ذخیرے بینکوں کے مقدم کی زیر نگرانی ہوتے ہیں ۔ اگر اسٹیٹ بینک تمام بینکوں کو یہ ہدایت جاری کردے کہ فوری طور پر اجناس کے لیے دیے گئے قرض واپس لے لیے جائیں تو یہ سارے ذخیرے ایک دن میں مارکیٹ میں موجود ہوں گے ۔ اسی طرح بینکوں سے ان تمام افراد کی فہرست بھی لی جاسکتی ہے جنہوں نے اجناس کی خریداری کے لیے بھاری قرض لے رکھے ہیں ۔ اس فہرست کو دیکھتے ہی پتا چل جائے گا کہ کس نے کس چیز کا کتنا کب سے ذخیرہ کیا ہوا ہے ۔ حکومت یہ سب تو اس لیے نہیں کرتی کہ یہ سارے کھلاڑی ایوان وزیر اعظم میں ہی موجود اور بااثر ہیں ۔ تاہم عوام کو دکھانے کے لیے رپورٹ پر رپورٹ طلب کی جاتی ہے، چھوٹے چھوٹے گوداموں پر اس طرح سے چھاپا مارا جاتا ہے کہ پتا نہیں کتنے بڑے مجرم پکڑے گئے ہیں ۔ یہ چھوٹے مجرم بھی دے دلا کر آزاد ہوجاتے ہیں اور پھرسے اپنے کاموں میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ کچھ دن اسی طرح رپورٹ جمع کرنے کے کھیل میں گزر جاتے ہیں اور پھر ایک نیا کھیل شروع کردیا جاتا ہے جس میں لوگ پرانے کھیل اور اس کے مجرموںکو بھول جاتے ہیں ۔ یوں حکومت عوام کے ساتھ اپنا کھیل کھیلنے میں مصروف رہتی ہے اور آخر میں رپورٹوں کا یہ ذخیرہ بھی خاموشی سے کہیں غائب کردیا جاتا ہے ۔ چینی اسکینڈل کی مثال سب کے سامنے ہے ۔ ایک سرکاری ادارے نے اس کی تحقیقاتی رپورٹ پیش کی ، جس کے بعد مزید کسی تحقیقات کی کوئی ضرورت نہیں رہ جاتی تھی ۔ اصولی طور پر کیس عدالت میں پیش کردیا جانا چاہیے تھا مگر عمران خان نیازی نے ا س رپورٹ کی مزید جانچ کے لیے ایک کمیشن تشکیل دے دیا ۔ اگر وفاقی تحقیقاتی ادارے نے غلط رپورٹ تیار کی ہے تو اس رپورٹ کے تیار کنندگان کے خلاف مثالی کارروائی کی جانی چاہیے تاکہ آئندہ کسی کو ایسا کرنے کی جرات نہ ہو اور اگر یہ رپورٹ درست ہے تو مزید تحقیقات کے بجائے اس پر کارروائی کی جانی چاہیے ۔ اب تک اقدامات کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں ہے کہ ایوان وزیر اعظم ہی ذخیرہ اندوزوںاور گراںفروشوں کو پناہ دینے کا کام کررہا ہے ۔ اگر حکمراں ہی عوام کے مفادات کا تحفظ کرنے کے بجائے عوام دشمنوں کو تحفظ فراہم کرنے لگیں تو ملک کا وہی حال ہوتا ہے جو اس وقت پاکستان کا ہے ۔ عمران خان کو سمجھنا چاہیے کہ آج کے مواصلاتی دور میں عوام سے کچھ بھی چھپانا ناممکن ہے ۔ بہتر ہوگا کہ وہ ذخیرہ اندوزوں کے خلاف رپورٹیں جمع کرکے ذخیرہ کرنے کے بجائے ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی کریں ۔ یاد رہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے چینی پر سبسڈی یا زرتلافی دینے کا الزام وفاق پر لگایا ہے۔