رب الرحمھما

330

زندگی میں کچھ مناظر ایسے ہوتے ہیں جو انمٹ نقوش چھوڑ جاتے ہیں۔ اگر یہ مناظر امید، خوشی، بھلائی، سے عبارت ہوں تو مایوسی کے اندھیروں میں چراغ کا کام دیتے ہیں۔ لاک ڈاون کی اس فضا میں ایسے ہی کچھ مناظر پیش خدمت ہیں جن سے روشنی ملتی ہے۔
کراچی کے ساحل پر ہر سال منعقد ہونے والی پھولوں کی نمائش ہارٹی کلچر سوسائٹی کا شہریوں کے لیے بہت خوبصورت تحفہ ہے۔ دوسال قبل اس نمائش میں ایک ایسی ماں کو دیکھا جو مکمل مفلوج تھیں غذا کی نلکی ناک سے جڑی تھی۔ خاتون صرف آنکھوں کو حرکت دے سکتی تھیں۔ خاتون کی وہیل چیئر کا ہینڈل ایسے بیٹے کے ہاتھ میں تھا جو جانتا تھا ماں کیا ہے۔ ایک نظر دیکھنے والا یہ سوچ سکتا ہے اس حالت میں اپنی ماں کو یہاں لانے کی کیا ضرورت تھی؟ لیکن ایسے کسی سوال و خیال سے بے پروا اس جوان کی پوری توجہ اپنی ماں پر تھی، چہار جانب پھول سجے تھے اور وہ اپنی ماں کی وہیل چیئر گھسیٹ کر مختلف پھولوں کے سامنے لے جاتا پھر اپنی ماں کا چہرہ پھولوں کی طرف گھماتا پھول پکڑ کر ان کی آنکھوں کے سامنے لاتا تا کہ وہ ان سے تازگی حاصل کریں، کبھی اپنی ماں کے پائوں پکڑ کر گھاس پر رکھتا پھر آرام سے اٹھا کر وہیل چیئر کے فٹ پیڈ پر رکھ دیتا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ساری سرگرمی میں انتہائی اعتماد اور تحمل کے ساتھ گود میں بچہ لیے اس کی اہلیہ بھی اس کے شانہ بشانہ تھی۔ یہ منظر اتنا خوبصورت تھا کہ اس کے آگے پھولوں کی خوبصورتی بھی ماند تھی۔
جہازکراچی کی فضا میں بلند ہونے کو تیار کھڑا تھا، تمام ہی مسافر اپنی نشستوں پر پہنچ چکے تھے۔ دروازے کے قریب نشست ہونے کی وجہ سے اندازہ ہورہا تھا کہ کسی بھی لمحے دروازہ بند ہونے والا ہے، اچانک ایک وہیل چیئر آکر رکی۔ نلکیوں میں جکڑے بزرگ کی حالت نے ساری توجہ اپنی طرف مبذول کروالی۔ وقت گزاری کے لیے لی گئی کتاب بند کردی کہ اب الفاظ پر دھیان مرکوز کرنا مشکل تھا۔ دل سے ان بزرگ کے لیے دعا نکلی، اندازہ ہوا کہ وہ اشاروں سے اپنی بات سمجھانے کی قدرت رکھتے ہیں۔ چند لمحوں ہی میں دو مضبوط بازووں نے انہیں گود میں اٹھایا اور بہت آرام اور احتیاط سے ان کی نشست پر رکھ دیا۔ عملے سے تکیے لے کر ان کے چاروں طرف لگائے اور پورے سفر کے دوران انتہائی مستعدی سے اپنے والد کے ہر اشارے کو سمجھتے ہوئے ان کی ہر حاجت کو پورا کرتا یہ بیٹا یقینا اپنی جنت کے ٹکٹ کنفرم کررہا تھا۔
آپ نے ایسے مناظر بھی دیکھے ہوں گے کہ باہر شیر کی طرح گرجتے کڑیل جوان بوڑھے والدین کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے ہوتے ہیں، (کیا انسانی حقوق کی تنظیمیں یا حقوق نسواں کی علم بردار تنظیمیں اولڈ ہائوسز میں رہنے والوں کو یہ حق دلا سکتی ہیں؟)
کبھی آپ ایسی فیملی سے بھی ملے ہوں گے جو دوہری شہریت کے نتیجہ میں حاصل ہونے والی ہر نعمت کو ٹھوکر مار کر صرف بوڑھے والدین کی خدمت کی خاطر وطن لوٹ آئے۔ یہ ہمارے معاشرے کی جیتی جاگتی مگر نایاب تصویریں ہیں ان تصاویر کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ اس وقت عام ہوں گی جب ہم یہ جان لیں گے کہ وہ کون سے قوت ہے جو انسانوں سے یہ کمال کے فیصلے اور افعال کرواتی ہے۔ یہ وہی قوت ہے جو ہماری شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔ اسی ذات واحدہ لا شریک سے رابطے کے باعث انسان آخرت کو دنیا پر ترجیح دیتا ہے۔ ہم سے بنیادی بھول یہی ہوئی ہے کہ یہ تعلق کمزور ہوگیا اور اپنی اولاد کے لیے بھی اس تعلق کو مضبوط بنانے کی طرف توجہ نہیں رہی نتیجتاً ہم بھی مدر ڈے اور فادر ڈے کی بھول بھلیوں میں گم ہورہے ہیں اور ہمارے معاشرے میں بھی اولڈ ہائوسز بن رہے ہیں جو مسلمانوں کے معاشرے میں ایک بد نما داغ ہیں۔ جنت کے ٹکٹ تو ہمارے ارد گرد، ہمارے آس پاس ہیں تو کیا کوئی ہے جو ان کا خریدار بنے؟