الیکٹرونک میڈیا، صحافی اور اینکرز

362

حسیب عماد صدیقی
پاکستان میں ڈیڑھ عشرہ قبل تک سفید اور خاکی اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ اور بڑی سیاسی جماعتوں ہی کو طاقت کے مراکز کی حیثیت حاصل تھی، لیکن عدلیہ بحالی تحریک اور الیکٹرونک میڈیا کے ظہور نے طاقت کے دو نئے مراکز کو جنم دیا ہے۔ ایک وکلا برادری اور دوسری صحافی برادری۔
عدلیہ بحالی تحریک میں مشرف کے خلاف وکلا برادری نے سیاسی جماعتوں پر سبقت لیتے ہوئے عدلیہ بحالی تحریک کی بنیاد رکھی۔ سیاسی جماعتیں بعد میں اس میں شامل ہوئیں۔ عدلیہ بحالی کی تحریک میں کامیابی نے وکلا برادری کو اپنی نئی طاقت کا احساس دلایا اور وہ طاقت کے ایک نئے مرکز کے طور پر ابھرے۔ اس کے بعد سے وکلا برادری نے عدالت کے احاطے میں اور اس کے باہر جس مادر پدر آزاد طاقت کا مظاہرہ کیا، چاہے وہ ججوں کو کمرے میں بند کرنا ہو یا پولیس کی پٹائی، لاہور میں اسپتال پر حملہ ہو یا پھر عوام کی گردن پر سواری، اس کے نتیجے میںاب غنڈا گردی کے وزن پر وکلا گردی کی اصطلاح رائج العوام ہے اور لوگ اپنی دعائوں میں ان سے واسطہ پڑنے پر اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔ لیکن ہمارا آج کا موضوع طاقت کا ایک اور نیا مرکز یعنی الیکٹرونک میڈیا اور صحافی برادری ہے جس نے وکلا برادری کو بھی مات کردیا ہے۔ خاص طور پر الیکٹرونک میڈیا اور اس کے معزز اینکر حضرات۔ ویسے تو نیوز چینلز 24 گھنٹے عوام کے سر پر سوار ہیں لیکن خاص طور پر شام سات بجے سے رات گیارہ بجے تک تمام حکیم حاذق طبیب اینکر حضرات اپنی اپنی پٹاریوں سے ان گنت معجون اور قبض کشا چورن نکال کر عوام اور حکومت کا ہاضمہ،حافظہ اور کردار درست کرتے ہیں اور ان کے دنیاوی اور دینی مسائل / غلطیوں کی نشاندہی اور ان کی اصلاح پر سیر حاصل لیکچر دیتے ہیں۔ اگلے دن شام 7 بجے تک عوام ان کی دوا کے زیر اثر رہتے ہیں اور اگلی شام پچھلی دوا منسوخ کر کے نیا نسخہ تجویز کر دیا جاتا ہے۔ رہی سہی کسر وقفے کے دوران اشتہارات پوری کر دیتے ہیں، کیونکہ ریٹنگ کی دوڑ میں عوام کی جیب سے پیسہ نکالنے کے لیے اشتہارات بھی تو بہت ضروری ہیں۔ ایک اینکر پرسن بیک وقت ایک مصلح قوم، ماہر تعلیم، ماہر معاشیات، ماہر سیاسیات، ماہر بین الاقوامی امور، ماہر ابلاغ عامہ، ماہر امور و حقوق نسواں، ماہر الیکٹرانیات و سائبر کرائم، ماہر صحت عامہ و وبائی امراض یہاں تک کہ ماہر مذہبی امور بھی ہو سکتا ہے۔
یہ بیک وقت شاہد آفریدی کو چھکا لگانے، مولانا فضل الرحمن کو آداب گفتگو، شاہ محمود قریشی کو لفاظی، اعتزاز احسن کو قانونی موشگافیاں، طلال چودھری، شہباز گل اور فیاض الحسن چوہان کو بدتمیزی، عابد شیر علی اور فیصل واوڈا کو گالیاں، عامر لیاقت کو سیاسی و مذہبی قلابازیاں لگانا اور رانا ثنااللہ کو ماڈل ٹاون واقعہ میں شہباز شریف کے ملوث ہو نے پر قائل کر سکتا ہے۔ حتیٰ کہ یہ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور ڈونلڈ ٹرمپ کو افغان پالیسی کی خامیاں، چین کو سی پیک کی باریکیاں اور اردوان کو افواج سے ڈیل کرنے کے گُر سکھا سکتا ہے۔ نواز شریف کو وزیر اعظم ہاؤس سے جیل پہنچنے تک کی غلطیاں، خان صاحب کو کنٹینر سے وزیر اعظم ہاؤس پہنچانے تک کا ٹھیکہ اور آصف زرداری کو پکڑائی دیے بغیر کرپشن کرنے کا گُر سکھا سکتے ہیں۔ یہ راحت فتح علی خان کو سُر تال کے زیرو بم، ایان علی کو ڈالر دبئی لیجانے، فواد چودھری کو جھوٹ بولنے اور پارٹیاں بدلنے، یہاں تک کہ مفتی منیب الرحمن اور پوپل زئی سے پہلے عید کا چاند نکالنے میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔
یہ سیلاب میں ڈوبتے ہوئے شخص کی آہ و زاری اور زلزلے میں بلڈنگ کے نیچے دبے ہوئے جاں بلب فرد کا غم انگیز انٹرویو تک نشر کر سکتے ہیں۔ یہ سراج الحق کو ایمان داری کا درس، ڈاکٹر اسرار احمد کو اسلامی فلسفہ، پروفیسر رفیق اختر کو صوفی ازم کی باریکیاں، اور اسحاق ڈار کو ٹیکس لگانے، بچانے اور منی لانڈرنگ کے طریقے سکھا سکتے ہیں۔
کورونا ان کے سامنے کیا بیچتا ہے، یہ نہ صرف ڈاکٹر طاہر شمسی کو پلازمہ کے اسرار ورموز اور ڈاکٹر عطا الرحمن کو ویکسین کا فارمولا سمجھا سکتے ہیں یہاں تک کے مولانا طارق جمیل سے دس بستہ معافی منگوا سکتے ہیں۔۔۔ وزیر اعظم کی مجال نہیں کے حلف اٹھانے کے بعد پہلی فرصت میں ان سے ملاقات نہ کرے بصورت دیگر اس کی حکومت کا مستقبل ٹی وی پر مایوس کن ہو سکتا ہے۔ یہ کبھی ریٹائرڈ نہیں ہوتے بلکہ سینئر اور سینئر ترین ہوتے جاتے ہیں۔ سینئر اور سینئر ترین صحافی معرفت کی اس منزل پر ہوتا ہے کہ اس کے احترام کے تقاضے ہی سوا ہوتے ہیں۔ زرہ برابر اختلاف رائے کی جرات کرنے پر وہ سیدھا لیاقت علی خان کے دور میں پہنچ جاتا ہے اور آپ پر دیر سے پیدا ہونے کا الزام لگا کر جیب سے ایک پرانی تصویر برآمد کرتا ہے جو خان لیاقت علی خان کے اعزاز میں شہریوں کی جانب میں دی گئی استقبالیے کی ہے۔ اس مدھم تصویر میں ایک ڈنڈا بردار شخص خاکی نیکر والی وردی پہنے قائد ملت کی گاڑی کے ساتھ ساتھ بھاگ رہا ہوتا ہے۔ موصوف یہ خود ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ آپ کے چہرے پر شک کے سائے دیکھ کر چوین لائی، مارشل ٹیٹو، جمال عبدالناصر اور دیگر مشکل نام لیکر غیر جانبدار تحریک، اس کے اغراض ومقاصد اور پاکستان پر پڑنے والے اثرات کی اسٹوری سب سے پہلے بریک کرنے کا ذمہ اپنے سرلے لیتے ہیں۔ اگر آپ اب بھی بازنہ آئے تو خان آف قلات، مولانا بھاشانی، شیخ مجیب، ذوالفقار علی بھٹو، مولانا مفتی محمود، سردار خیر بخش مری، پروفیسر غفور احمد، ولی خان اور نوابزادہ نصر اللہ خان سے چائے پر بے تکلف ملاقاتوں کا احوال اور ون یونٹ سے لیکر سانحہ مشرقی پاکستان اور 73 کے آئین کی منظوری سے لیکر اسلامی سربراہ کانفرنس تک کا ایسا تفصیلی جائزہ پیش کریں گے کہ اچھے اچھوں کا پِتا پانی ہو جائے گا۔ ابھی بھٹو کی پھانسی، ضیاالحق اور افغان جہاد کا دس سالہ جائزہ پٹاری میں موجود ہے۔ آپ کو بھاگنے یا ہتھیار ڈالنے کے سوا کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔
یہ تمام اینکر حضرات آسمان سے براہ راست نازل ہوئے ہیں، یہ نہایت پاک باز، تہجد گزار اور اللہ کے خاص مقرب بندے ہیں۔ ان میں سے کوئی کسی اندرونی و بیرونی طاقت سے لفافہ اور مراعات نہیں لیتا، یہ کسی کنسٹرکشن بزنس ٹائکون کو بلیک میل نہیں
کرتے۔ غریب عوام کے پیسوں پر سرکاری حج کرتے ہیں نہ شادیوں پر سلامی لیتے ہیں۔ پاکستان کے لیے اپنی بیش بہا خدمات کے عوض کوئی پلاٹ، نہ دشمن اقوام کے لیے اپنے ہی ملک کے خلاف زہر افشانی کا ایوارڈ وصول کرتے ہیں نہ وزیر اعظم کے وفد کی کوریج کے نام پر بیرون ملک سیر سپاٹے کرتے ہیں۔ یہ اپنے تمام کام بغیر اثرورسوخ استعمال کیے عوام کی طرح لائن میں لگ کر کرتے ہیں۔ نہ ان کے پاس قیمتی گاڑیاں ہیں، نہ انہیں ایف بی آر کوئی نوٹس دیتا ہے۔ یہ جس چینل پر کام کرتے ہیں اس کا مالک ان کا ٹیکس ادا کر کے لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہ دیتا ہے اور یہ انکم ٹیکس کا سالانہ فارم پر کر کے تمام ذمے داریوں سے بحسن خوبی بری الزمہ ہوجاتے ہیں، اور پھر لٹھ لے کر ہر شعبہ زندگی میں بے ایمان اور ٹیکس چور افراد کی تلاش اور بیخ کنی میں لگ جاتے ہیں۔ ایک اینکر صاحب نے ایک جنونی قاتل کو بین الاقوامی گروہ کا کارندہ اور پھر اس کے پیچھے پنجاب حکومت کی اعلیٰ شخصیت کا ہاتھ ڈھونڈ لیا تھا، اس کے بے شمار اکاؤنٹس اور لاکھوں ڈالر کی ٹرانزیکشنز کا سراغ بھی لگا لیا تھا، اور جیمز بانڈ کی طرح انوسٹی گیٹو جرنل ازم میں ایک نئی روح پھونک دی تھی۔ لیکن عدالت عظمیٰ کے طلب کرنے پر ان کی ساری ہوا نکل گئی اور غیر مشروط معافی مانگ کر پھر چینل پر آکر بیٹھ گئے اور نئی لن ترانیاں شروع کر دیں۔ صحافی برادری صدر، وزیر اعظم، گورنر، وزرائے اعلیٰ، وزرائے کرام اور پولیس سمیت کسی سیاسی جماعت کے سربراہ تک کو گھاس نہیں ڈالتی۔ البتہ ماضی قریب کی ایک جید سیاسی شخصیت المعروف بھائی جی لندن والے کے سامنے دو دہائیوں تک سر تسلیم خم کیے رکھا اور تین تین گھنٹے تک ان کی خرمستیاں براہ راست نشر کرتے رہے۔ اب تک بھائی جی لندن والے کے بعد دو جید شخصیات نامعلوم وجوہات کی بنیاد پر ان کے قابو نہ آسکیں، یہ دو خوش قسمت شیخ رشید اور حضرت مولانا خادم حسین رضوی ہیں۔ میں ان عظیم شخصیات کو سلام پیش کرتا ہوں۔
نوٹ: یہ کالم کورونا لاک ڈاون کی ٹینشن دور کرنے کے لیے لطیف پیرائے میں نہایت غیر سنجیدگی سے لکھا گیا ہے لہٰذا اسے سنجیدگی سے پڑھنے کی ضرورت نہیں۔