ادراک اور شعور کی نفسیات

364

اسامہ الطاف
جون ڈیگلوس امریکی وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف بی آئی) کے ریٹائرڈ اسپیشل ایجنٹ ہیں۔ انہوں نے تحقیقاتی دنیا میں اپنے 26 سالہ تجربے کو مختلف کتابوں کی شکل میں عوام کے سامنے پیش کیا۔ ایف بی آئی کے مخصوص یونٹ میں منجھے ہوئے اور پیشہ ور مجرموں کے ساتھ ہونے والے تجربات کو انہوں نے 1995 کو جرمیات کی دنیا کی مشہور کتاب مائنڈ ہنٹر میں نقل کیا ہے۔ 2017 میں نیٹ فلیکس نے ’’مائنڈ ہنٹر‘‘ پر اسی نام سے سیریز بھی بنائی۔ جون ڈیگلوس نے اس کتاب میں ایڈ کامپر ایسے خطرناک لیکن ذہین قاتلوں کا انٹرویو شامل کیا ہے جس نے 15 سال کی عمر میں اپنے نانا اور نانی کو قتل کیا، تاہم 6 سال بعد وہ انتظامیہ کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہوگیا کہ اس کا نفسیاتی علاج ہوگیا ہے اور وہ ایک بے ضرر شہری ہے۔
رہائی کے بعد اس بے ’’ضرر شہری‘‘ نے اپنی ماں سمیت 7 مزید عورتوں کا قتل کیا۔ کتاب میں دراصل کامپر اور دیگر سنگین جرائم میں ملوث شخصیات کے انٹرویوز اور ذاتی پس منظر بیان کرنے کا مقصد مجرمانہ برتائو کے پس پردہ نفسیاتی محرکات کا جائزہ لینا ہے تاکہ نفسیاتی عوامل میں مشابہت دیکھ کر تحقیقاتی اداروں کے لیے دیگر کیسز میں مجرموں تک پہنچنا آسان ہوجائے اور سماج کو بھی سبق مل جائے کہ اس طرح کے عوامل پیدا کرنے سے گریز کرے جو بعد ازاں کسی گھنائونے جرم کا محرک بنیں۔
نفسیاتی عوامل کی اہمیت صرف جرمیات کی دنیا تک محدود نہیں، بلکہ اگر غور کریں تو ہمارے ہر چھوٹے بڑے فیصلے، ہمارے مذہبی نظریہ، ہمارے سیاسی موقف، ہماری سوچ، ہمارے اہم اور غیر اہم کے پیمانے، ذاتی پسند وناپسند سب کے پیچھے نفسیاتی عمل کارفرما ہوتا ہے۔ انسان جب پیدا ہوتا ہے تو بالکل سفید کاغذ کی مانند ہوتا ہے، ہر شے سے لاعلم، وقت کے ساتھ ساتھ گھر کی تربیت، ارد گرد کا ماحول، تعلیم اور میڈیا کے ذریعے اس کا بنیادی (cognitive map) ادراکی نقشہ تشکیل پاتا ہے جس کے ذریعے انسان عادات، نظریات اور اشیا کو قبول یا رد کرتا ہے۔
عرف عام میں ہم اس پیچیدہ اصطلاح کو ذہنیت کا نام دیتے ہیں، ہم یہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ مختلف لوگوں کی مختلف ذہنیت ہوتی ہے، لیکن ہم ذہنیت کی اہمیت اس حوالے سے نہیں جانتے کہ اس میں تبدیلی کی جاسکتی ہے۔ انسان کا ادراکی نقشہ یا ذہنیت اگر تبدیل ہوجائے تو اس کا نقطہ نظر یکسر تبدیل ہوجاتا ہے، اور تبدیلی کا یہ عمل ایسا ساحرانہ ہوتا ہے کہ اس کے نتیجے میں انسان انتہائی غیر یقینی کام پر رضا مند ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں قائدین (اکثر میڈیا کے ذریعے) عوام کا ادراکی نقشہ تبدیل کرنے کوشش کرتے ہیں تاکہ عوام کی ذہنیت ان کی تحریک کے مطابق ہوجائے۔
اٹھارہویں صدی عیسوی سے قبل یہودی مختلف یورپی ممالک میں منتشر تھے، وہ اپنی مذہبی اور علاقائی شناخت کے تحفظ میں مصروف تھے، لیکن صہیونی تحریک کے قائدین نے یہودیوں کے ادراکی نقشہ سے کھیلا، ان کے مذہبی جذبات بھڑکا کر ان کو یقین دلایا کہ وہ ارض مقدس میں رہنے کے حق دار ہیں۔ ایک اپاہج فلسفہ پیش کیا گیا اور اس کی بنیاد پر صہیونی تحریک کھڑی ہوئی جس نے یورپ اور دنیا بھر کے یہودیوں کو اس وہم میں مبتلا کیے رکھا کہ بیت المقدس کے سرزمین ان کی اجتماع گاہ ہے۔
یہودیوں کی ذہنیت تبدیل ہوگئی، وہ اس وہم کا شکار ہوکر فلسطین کی جانب ہجرت کرگئے جہاں ان کو حقیقت کا سامنا ہوا کہ یہ سرزمین ان کی منتظر نہیں، بلکہ یہاں کی مقامی آبادی یہاں ہزاروں سال سے آباد ہے، تاہم یہودیوں کی اکثریت صہیونی تحریک کے پروپیگنڈے سے حد درجہ متاثر ہوچکی تھی اور ان کا ادراکی نقشہ پر یہ بات ثبت ہوچکی تھی کے اس زمین پر ان کا ہی حق ہے، لہٰذا انہوں نے مقامی آبادی کو بزور طاقت ان کی زمینوں سے بے دخل کرکے اپنی خود ساختہ ناحق ریاست کے قیام کا اعلان کردیا۔
ایران کی انقلابی تحریک کو دیکھ لیں، خمینی نے راتوں رات مظاہرین کو جمع کرکے شاہ ایران کی حکومت نہیں گرائی، بلکہ کئی سال تک عوام میں اپنے ایجاد کردہ ولایہ الفقیہ کے نظریہ کا پرچار کیا، جب عوام کے ادراکی نقشہ پر یہ بات ثابت ہوگئی کہ حکومت کا اصل حق دار ہے فقیہ عصر ہے اور یہ فقیہ عصر خمینی ہے تو انہوں نے سڑکوں چوراہوں پر وہ بہادری دکھائی کہ دنیا حیران رہ گئی اور آخر کار خمینی کو برسراقتدار لاکر ہی دم لیا۔
ہمارے معاشرے میں مغربی تہذیب سے مرعوب لوگ علمی ترقی، ایجادات، انکشافات وغیرہ سے حد درجہ متاثر جبکہ اخلاقیات وغیرہ سے بالکل لاپروا کیوں ہوتے ہیں؟ کیونکہ ان کا ادراکی نقشہ حسیات اور مادیات کی اہمیت کا ہی قائل ہوتا ہے، غیر مادی عالم ان کے نزدیک غیر اہم ہوتا ہے۔
ہمارے سیاسی منظر نامے پر بھی مختلف ادارکی نقشوں کی نتیجے میں مختلف سیاسی مواقف کی واضح مثالیں نظرآتی ہیں۔ ایک جماعت کے حمایتی کا ادراکی نقشہ کچھ اس طرح تشکیل کردہ ہوتا ہے کہ اس کو مالی بدعنوانی اور کرپشن میں کوئی عیب نظر نہیں آتا، یا وہ کم از کم اس کو زمینی حقیقت تسلیم کرکے برداشت کرلیتا ہے، اس کے نزدیک سیاسی قیادت اگر انتظام وانصرام سنبھالنے کی اہلیت رکھتی ہو، عوام کی ضرورتوں کو کسی حدتک جائز یا ناجائز طریقے سے پورا کرتی ہو اور ترقیاتی کام کراتی ہو تو اس کو ملک کی باگ ڈور سنبھالنی چاہیے چاہے وہ مالی طور پر بدعنوان ہی کیوں نہ ہو۔
دوسری طرف کچھ لوگوں کا ادارکی نقشہ ایمانداری کو اہلیت پر ترجیح دیتا ہے۔ اسی طرح ہمارے معاشرے میں ایسی مریض ادراکی نقشہ والے حضرات بھی پائے جاتے ہیں جن کو ہمارے عسکری اداروں سے بغض اور چڑ ہوتی ہے، ان کے نزدیک ہمارے ہر سیاسی اور سماجی مرض کی وجہ فوج ہی ہے، دوسری طرف ایسے انتہا پسند بھی پائے جاتے ہیں جو عسکری اداروں کو فرشتہ صفت اور تنقید سے بالاتر سمجھتے ہیں۔
ادراکی نقشے اور ہمارے فیصلوں اور مواقف کے پیچھے کارفرما نفسیاتی عمل کی اہمیت کا احساس ہونے کے بعد ہمیں اپنے آپ سے مستقل یہ سوال پوچھتے رہنا چاہیے کہ (میڈیا یا دیگرکسی ذریعے سے) ہمارے ادراکی نقشے سے کھیل کر، ہماری پسند وناپسند، اہم وغیر اہم کے پیمانے طے کرکے کوئی ہمیں لاشعوری طور پر اپنا ہمنوا اور مفادات کا محافظ تو نہیں بنارہا؟